بلوچستان: ذلت کی گزرگاہیں


گوادر کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، ایک چھوٹا سا شہر پوری دنیا میں متعارف ہے، اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں یہاں ڈیپ سی پورٹ کے کام کا آغاز ہوا، کام کا افتتاح پرویز مشرف نے کیا، افتتاحی تقریب میں اپنے خطاب میں فرمایا کہ ”یہ لوگ جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، اپنی زندگی میں ترقی دیکھیں گے ”۔

اس بات کو بیس سال گزر چکے ہیں اور مشرف کے سامنے یا اس وقت مشرف کو سننے والوں نے اپنی زندگی میں ترقی تو نہیں دیکھی البتہ تذلیل ضرور دیکھ رہے ہیں۔ گوادر میں شروع کیا جانے والا ”ترقی کا سفر“ بلوچستان بھر کی ذلت کے سفر میں تبدیل ہو چکا ہے۔

بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے، فی الحال اسے ایک طرف رکھ دیں اور رہنے دیں، کیونکہ بلوچستان کے اصل مسئلے کو سمجھنے والا دماغ اب تک شاید وجود میں نہ آیا ہو اس لیے اس تہہ در تہہ کہانی کی بات نہیں کرتے ہیں، بلکہ روزانہ کی بنیاد پر پیش آنے والے ذلت آمیز سلوک پر بات کرتے ہیں۔

گزشتہ بیس سالوں سے بلوچستان بھر میں ہر چند کلو میٹر پر لگے چیک پوسٹوں نے یہاں کے لوگوں کو جس اذیت، ذلت اور ذہنی کوفت سے دوچار کیا ہے، وہ ناقابل بیان ہے، گوادر سمیت بلوچستان کے تمام شہر اور دیہاتوں میں ان چیک پوسٹوں کا جال پھیلایا گیا ہے، ہسپتالوں پر، اسکولوں پر، لوگوں کے ذاتی مکانات پر، چیک پوسٹ بنائے گئے ہیں، ان بیس سالوں میں ان چیک پوسٹوں پر ایک بھی اسلحہ بردار نہیں پکڑا گیا ہے، لیکن ذلت کی داستانیں یہاں روز رقم ہوتی ہیں۔ لاکھ بتانے کے باوجود یہ بلوچ نفسیات اور بلوچ کوڈ یا روایات کو سمجھنے سے قاصر ہیں، وہ اس بات کو سمجھنے کی بالکل کوشش نہیں کر رہے ہیں کہ، بلوچ کے ہاں بے عزتی موت کا دوسرا نام ہے، وہ بے عزت ہونے پر مرنے کو ترجیح دیتا ہے۔

طاقت کا استعمال کہیں پر بھی اس وقت تک جاری رکھا جاتا ہے جب وہ نتیجہ دے رہا ہو، بصورت دیگر اس کی مثال ایک لاش کی ہوتی ہے، جس کے استعمال کا مطلب لاش کو گلی بازاروں میں گھسیٹنا ہے، جس سے سوائے تعفن پھیلنے کے اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ہے۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے، بلکہ اپنے نصاب میں شامل کرنے کی ہے کہ، طاقت سے بلوچستان سنبھالا نہیں جائے گا، بلوچستان کا ذہن کتنے فاصلے پر کھڑا ہے، اسے آپ سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں۔

ان چیک پوسٹوں پر نہ خواتین کی عزت ہوتی ہے، نہ سفید ریش محفوظ ہیں اور نہ ہی عام شہری اچھے سلوک کے مستحق ٹھہرتے ہیں، کچھ مہینوں سے معمولی بہتری ضرور آئی، لیکن یہ آٹے میں نمک کے برابر سے بھی کم ہے، عام لوگ چیک پوسٹوں پر گزرتے وقت بے عزت ہونے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ تحفظ نہیں ذلت کی گزرگاہیں ہیں۔

بہرحال پالیسی ساز اداروں کو چیک پوسٹوں پر جاری ہتک آمیز رویوں کے خاتمے کے لیے ہنگامی اور سنجیدہ اقدام کرنے ہوں گے، جس میں سرفہرست یہ ہے کہ، تمام غیر ضروری اور خصوصاً شہروں میں قائم چیک پوسٹ ہٹا دیے جائیں اور جہاں چیک پوسٹ انتہائی ناگزیر ہو، تو وہاں پر ہر آنے جانے والوں کو روکنے اور چیکنگ کرنے کا سلسلہ ترک کیا جائے۔

دوران چیکنگ لوگوں کی عزت نفس کا مکمل خیال رکھا جائے، بدکلامی، بدتہذیبی اور گالم گلوچ کے ذریعے یہاں کے روایات مسخ کر کے عام لوگوں کو مشتعل نہ کیا جائے۔

بلوچستان کے اصل مسائل آپ سے حل ہونے سے رہے، سردست لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے اور انہیں بے عزت کرنے کا سلسلہ اگر روک دیا جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ واقعی یہاں کے لوگوں کی بات سنی جاتی ہے اور ان پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔

بس اتنی سی گزارش تھی جو گوش گزار کردی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments