خوش قسمت کپتان


پہلا منظر : وہ بڑے فخر سے بتا رہا تھا کہ میرے اتنے بچے ہیں اور اگر میرا کپتان کہے کہ انہیں قربان کردو تو میں انہیں اپنے ہاتھوں سے ذبح کر دوں، یہ بندہ اگر کسی کافر ملک میں ہوتا اور اس طرح کا اعلان کرتا تو حکومت حرکت میں آتی اور اس کے بچے اس سے لے لیے جاتے لیکن حیرت ہے کہ جب وہ اعلان کر رہا تھا تو اس کے پیچھے موجود ”آزادی“ مانگنے لوگوں کا ہجوم نہ صرف اس کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا بلکہ لوگ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اس جذبے کو کیسے شکست دو گے؟ کسی نے کہا کہ ایسا کہنا غلط ہے تو کپتان کے جذباتی ماننے والوں نے کہا کہ درست ہے۔

دوسرا منظر : کسی نے سنا کہ کپتان کی حکومت چلی گئی ہے تو اس نے زہر پی لیا، لوگوں نے کہا کہ خود کشی حرام ہے تو اس کے ماننے والوں نے کہا کہ اس نے درست کیا ہے۔

تیسرا منظر : وہ دونوں دوست تھے لیکن پھر ایک دن ان کی آپس میں کپتان کی شخصیت پر بحث ہو گئی تو اس نے کپتان کی خاطر اپنے دوست کے سر پر راڈ مار کر اس کی جان لے لی، کہا گیا کہ اس نے قتل کیا ہے اور ایسا کرنا غلط ہے لیکن اس کے جذباتی ماننے والوں نے کہا کہ اس نے بالکل ٹھیک کیا ہے اور ایسے غداروں کا یہی علاج ہے۔

چوتھا منظر : وہ کہہ رہا تھا کہ کپتان وہی پیغام دے رہا ہے جو آج سے کئی سو سال پہلے اللہ کے آخری نبیؐ نے دیا تھا، لہذا اس کے پیغام پر لبیک کہنا چاہیے اور اگر اس راہ میں موت آ جائے تو بھی کچھ غم نہیں کیونکہ کپتان کے لیے جان دینا اللہ کے نبیؐ کے لیے جان دینے کے برابر ہے، لوگوں نے کہا کہ جذبات اپنی جگہ لیکن ایسا کہنا غلط ہے تو اس کے جذباتی ماننے والوں نے کہا کہ وہ درست کہہ رہا ہے۔

پانچواں منظر : مسجد نبوی کا حرم سیاسی نعروں سے گونج اٹھا، جہاں اونچی آواز سے بات کرنا منع تھا وہاں جلسے کا ماحول پیدا کر دیا گیا، اسلام کے پیروکاروں نے کہا کہ حرم نبوی میں اونچی آواز کرنا منع ہے لیکن کپتان کے جذباتی پیروکاروں نے کہا کہ انہوں نے بالکل درست کیا ہے۔

یہ صرف چند ایک مثالیں ہیں جن سے فقط یہ بتانا مقصود ہے کہ دنیا میں کپتان شاید واحد ایسا لیڈر ہو گا جسے اس قدر چاہنے والے ملے ہیں کہ ان کی نظر میں صحیح اور غلط کا پیمانہ فقط کپتان کی ذات ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ یہی ان کے کپتان کا بھی نظریہ بھی ہے۔ چوہدری پرویز الہی ان کے خلاف ہو تو پنجاب کا ”ڈاکوئے اعلیٰ“ ہے اور اگر ان کے ساتھ مل جائے تو ”وزیراعلیٰ“ کا امیدوار۔ ایم کیو ایم ان کے خلاف ہو تو قاتل اور اگر ان کے ساتھ آ ملے تو دنیا کے نفیس ترین لوگ ہیں۔ صحیح اور غلط کا رویہ موجودہ تحریک کے واحد محرک ”مخطوطی سازش“ کے ہر ہر موڑ پر بھی نظر آتا ہے۔

کپتان نے کہا کہ میں تو دعائیں مانگ رہا تھا کہ اپوزیشن میرے خلاف عدم اعتماد لے کر آئے، یہ چور ڈاکو میرے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں، اب دیکھنا میں ان کے خلاف کرتا کیا ہوں تو اس کے ماننے والوں نے کہا کپتان درست کہہ رہا ہے۔ اس نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گی تو اس کے ماننے والوں نے کہا کہ کپتان درست کہہ رہا ہے۔ پھر اس نے کہا کہ عدم اعتماد سازش ہے تو اس کے ماننے والوں نے کہا کہ کپتان درست کہہ رہا ہے۔ پھر اس نے کہا کہ امریکا سازش کر رہا ہے تو اس کے ماننے والوں نے کہا کہ کپتان درست کہہ رہا ہے۔

پھر اس نے کہا کہ اپوزیشن سازش کر رہی ہے تو اس کے ماننے والوں نے کہا کہ کپتان درست کہہ رہا ہے۔ پھر اس نے کہا کہ اس سازش کی دھمکی پاکستانی سفیر کو سات مارچ دی گئی تو اس کے ماننے والوں نے کہا کہ کپتان درست کہہ رہا ہے۔ لیکن امریکی افسر اور پاکستانی سفیر کے آپس میں ملنے سے ایک دن پہلے ہی اس نے میلسی جلسے میں بتا دیا کہ سازش ہو رہی ہے تو اس کے ماننے والوں نے کہا کہ کپتان درست کہہ رہا ہے۔ آٹھ مارچ کو وہ شکر ادا کر رہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہو رہی ہے تو اس کے ماننے والوں نے کہا کہ کپتان درست کہہ رہا ہے۔

اس کے بعد بالعموم پندرہ مارچ تک وہ دھمکیاں دیتا رہا اور بالخصوص پندرہ مارچ کو اس نے اوورسیز پاکستانیوں کے کنونشن میں بتایا کہ میں نے تحریک اعتماد آنے پر شکرانے کے نفل پڑھے ہیں تو اس کے ماننے والوں نے کہا کہ کپتان درست کہہ رہا ہے۔ لیکن جب محسوس ہوا کہ اپنے لوگ ساتھ چھوڑ کر جانے لگے ہیں تو اس نے کہا کہ وہ غدار ہیں تو اس کے ماننے والوں نے کہا کہ کپتان درست کہہ رہا ہے۔ پھر اس نے جب دیکھا کہ دھمکی سے کام نہیں چل رہا تو اس نے منتیں شروع کیں کہ غلطی ہو جاتی ہے جانے والے واپس آ جائیں تو اس کے ماننے والوں نے کہا کہ کپتان درست کہہ رہا ہے۔ بیس مارچ یہ اپوزیشن کی سازش تھی لیکن پھر یک دم امریکی سازش بن گئی تو بھی اس کے ماننے والوں نے کہا کہ کپتان درست کہہ رہا ہے۔ لیکن جب شیریں مزاری نے خود خط لکھ کر امریکا کو کہا کہ مداخلت کرو تو اس کے ماننے والوں نے کہا کہ کپتان درست کہہ رہا ہے۔

کیا خوش قسمت تھا کہ کپتان کہ ایسی اندھی عقیدت اور جذبے والے پیروکار ملے لیکن کیا بدقسمت ہے کپتان کہ ان جذبوں کو تعمیر کی بجائے تخریب کے لیے استعمال کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments