پیپل کی چھاؤں میں اگا انگارہ


تاریخ یا مہینہ تو یاد نہیں البتہ دن جمعہ کا تھا۔ میں حسب روایت علی ہسپتال سے نو نمبر کی ویگن پکڑ کر گول باغ پہنچا تھا۔ ویگن جس جگہ رک کر مسافروں کو اتارتی عین اسی جگہ ایم ڈی اے (ملتان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی) کی کچرے سے بھری ٹرالی منہ کھولے منتظر ہوتی۔ کبھی کبھی تو ویگن سے اترتے ہوئے پاؤں کسی تھیلے، چھلکے یا استعمال شدہ بنیان پر آ جاتا۔ ان بھبکوں سے محظوظ ہوتا، دامن بچاتا میں عمارت میں داخل ہو گیا۔

کمرے میں ضرورت سے کم روشنی تھی حالانکہ روشن دانوں سے مچھر اور باہر کی لائٹ آگے پیچھے ہی داخل ہو رہے تھے۔ معمول کی کارروائی کے دوران وہ خاموشی سے کمرے میں داخل ہوئے اور آخری نشستوں میں مجھ سے دو کرسی پرے آ کر بیٹھ گئے۔ سگریٹ کی ڈبیا کو برابر والی کرسی پر رکھ کر انہوں نے دونوں ہاتھوں سے چہرے اور بالوں پر آئی دھول صاف کی، ایک نظر مجھ پر ڈالی اور کارروائی کا حصہ بن گئے۔ اب دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسی تھی اور وہ انگوٹھوں سے سائیکل چلا رہے تھے جب کچھ ہی لمحوں میں ان کا نام پکارا گیا اور وہ لفافہ ہاتھ میں تھامے ڈائس پر پہنچ گئے۔ غزل کا ایک ایک شعر ٹھہر ٹھہر کر پڑھا گیا اور کمرے میں گونجتے شعر، انہی روشن دانوں سے باہر کی دنیا کی سیر کو نکل گئے۔ علی گڑھ کالج میں اردو اکادمی کی نشست کے دوران ممتاز اطہر سے یہ میرا پہلا تعارف تھا اور پھر میں ان کے شعروں اور خوش خطی کی محبت کا بیمار ہو گیا۔

انہوں نے وہاں کچھ مہینوں میں چند غزلیں پیش کیں اور میں نے تقریباً وہ تمام غزلیں بس سمجھیں حفظ کر لیں چونکہ واپسی نو نمبر ویگن کی بجائے میں قدموں کا سہارا لیتا اور کرائے کے پیسے رات دیر سے ہاسٹل کا دروازہ کھولنے والے جانی باورچی کی سگرٹوں میں استعمال ہو جاتے اور گول باغ سے رشید آباد تک کے راستے میں درجنوں بار وہ غزلیں پڑھ لیتا۔ پھر اردو اکادمی سے ممتاز صاحب اور میرا رشتہ منقطع ہو گیا۔

2010 میں ملتان آرٹس فورم کی سیکریٹری شپ ملنے کے بعد ایک روز بعد از اجلاس انہوں نے اپنے دفتر کا راستہ سمجھایا۔ بوہر گیٹ کے سامنے بائیں ہاتھ پر پان کی دکان اور امبرسوں والے کے درمیان کی پتلی گلی پکڑ کر میں پرانی گنا منڈی ان کے دفتر پہنچا۔ یہ راستہ مجھے ہمیشہ شارٹ کٹ محسوس ہوتا، بعد میں معلوم ہوا درحقیقت ہے نہیں۔ مگر اس راستے پرانے شہر کی گلیوں کی کچھ خوشبو محسوس ہو جاتی تھی۔ یوں ضوریز اکادمی میرا ایک ٹھکانہ بن گئی۔

سطور6 مرتب ہو رہا تھا۔ میں شوکت قادری صاحب کے ہمراہ ہر دوسرے تیسرے اور کبھی کبھی تو ہر روز ان کی طرف جانے لگا۔ اکثر شوکت صاحب اپنے ہمراہ موٹر سائیکل پر لے جاتے ورنہ معاملہ یوں تھا میں یونی ورسٹی کی شٹل سے 9 نمبر اور وہاں سے تانگے پر گھنٹہ گھر پہنچتا اور النگ والی گلی سے پرانی کتابیں اور ڈائجسٹ دیکھتا، بوہڑ گیٹ سے ضوریز اکادمی پہنچ جاتا۔ ممتاز صاحب کا دفتر در حقیقت شاعروں اور ادیبوں کی ایک بیٹھک تھی اور یوں شہر کے بہت سے معتبر ناموں سے انہی کے ہاں تعارف ہوا۔ ان کے ہاں ہر طرح کے لوگ آتے مگر بہت سے لوگ اسٹیٹس کو اور رنجشوں کے سبب کبھی نہ دکھے۔ وہ ہر طرح کے آدمی کے لئے ہیں بھی نہیں۔ مگر جن کے وہ دوست ہیں ان کے لئے مجسم محبت کا دوسرا نام ممتاز اطہر ہے۔

ان سے محبت کرنے اور نہ کرنے والوں کی تعداد تقریباً برابر ہی ہو گی۔ اصل وجہ ان کے مزاج کی وہ تہیں ہیں جن کی پرتیں کھولنے کے لئے انا کی گولی یا نگلنی پڑتی ہے یا اگلنی۔ ان کے ہاں پہنچ کر پہلے تو بہت سی شاعری اور شاعروں پر تبصرہ ہوتا، پھر چائے کے ساتھ اختر بیگم، فریدہ خانم اور استاد بڑے غلام علی کے ساتھ درباری، بھیروی، بہاری اور نا جانے کیا کیا راگ سنے جاتے، پھر کام شروع ہوتا۔ اور اس قدر باریک بینی سے ہوتا کہ لطف آ جاتا۔ پہلے پہل تو اتنی باریکی کسی کو بھی اکتا دے مگر جب آپ کی پیس ان کے ساتھ ایڈجسٹ ہو جائے تو وہ کام لطف دینے لگتا ہے۔ سطور کے دو شمارے ضوریز اکادمی سے شائع ہوئے اور مجھے کھلے دل سے یہ بات تسلیم کر لینے میں عار نہیں کہ حقیقت میں ایڈیٹنگ، الفاظ کا برتاؤ اور کاٹ چھانٹ ممتاز صاحب سے ہی سیکھی۔ اور انہوں نے اس شفقت سے یہ تربیت کی جس کی مثال نہیں۔ جب ایک دن سلمان قادری (جو ان کے ہاں کتابیں ٹائپ کرتا تھا) نے میری املا اور الفاظ و گرائمر سے تنگ آ کر احتجاجاً کہا ”یہ کیسے لکھنے والے ہیں جو کبھی لفظ کھا جاتے ہیں اور کبھی الٹ پلٹ لکھ دیتے ہیں۔“ ممتاز صاحب نہ صرف مسکرائے بلکہ اسے ٹال دیا اور میرے آنے پر تفصیلی جواب دیا کہ لکھنے والا لکھتے ہوئے خیال کی رو میں زبان اور کاغذ کو کہیں بھول جاتا ہے اور اس کے خیالوں کی رفتار قلم کی رفتار سے کہیں تیز ہوتی ہے (میں آج بھی اس وضاحت کی رعایت لے کر اپنی کم علمی چھپائے ہوں)۔

سطور کا شمارہ 6، 2010ء میں شائع ہوا، اس وقت میری عمر کوئی اٹھارہ کے آس پاس ہو گی۔ اس کی پہلی کاپی ہمارے ہاتھوں میں آئی تو میں بہت جذباتی تھا۔ ممتاز صاحب نے قادری صاحب کو کہنی مارتے ہوئے مجھے دیکھنے کا اشارہ کیا اور اس ایکسائٹمنٹ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولے ”پہلی دفعہ کتاب پر نام چھپنے کا لطف اور ہی ہوتا ہے بھائی!“ ان کے لئے سطور کے آنے سے زیادہ میری خوشی اہم لگ رہی تھی، جو انہوں نے میرے ساتھ ایک نوجوان کی طرح سیلیبریٹ کی۔

فورم کے اجلاس کراتے ابھی کچھ مہینے ہی گزرے ہو گے، ممتاز صاحب نے وہاں ایک نظم پیش کی۔ اجلاس میں تنقیدی گفتگو ہوئی اور نظم کو سراہا گیا مگر اجلاس کے بعد گول باغ اور پھر شہر اور اگلی صبح شہر سے باہر بھی ایک کہرام مچ گیا۔ نظم تھی ”شہوت میں ڈوبے کیکڑے کی موت پر “ اور ادبی اشرافیہ سمیت مختلف ٹولیوں میں بٹے شاعروں نے وہ نظم اپنے ہر حریف سے منسوب کرنا شروع کر دی اور کچھ شرفا کا رویہ تو ایسی خودساختہ پروٹیکشن جیسا تھا کہ چور کی داڑھی میں تنکا والی مثال بھی سچی ہوتی نظر آئی۔

وہ نظم ’کولاج2‘ میں اجلاس کی کارروائی کا حصہ بن کر کتاب میں شامل تو ہو گئی مگر ممتاز صاحب نے اسے اپنی کتاب ”الاؤ کے گرد بیٹھی رات“ میں پھر بھی شامل نہ کیا۔ اس دن کے بعد مجھے کئی کہانیاں سننے کو ملیں، کیونکہ اس سے پہلے کبھی ممتاز صاحب نے کسی ایسی بات یا ہم عصر سے اختلاف کا ذکر نہیں کیا تھا۔ وہ لمحہ میرے لئے کلی حیرت تھا کہ جس ممتاز اطہر سے میں واقف تھا وہ اپنی ہی ایک کائنات میں محبت کے ستارے ٹانکنے میں مگن تھا۔

ممتاز صاحب بیمار ہوئے اور دل کی تکلیف اتنی بڑھ گئی کہ سرجری سے گزرنا پڑا۔ ایک دن عدنان صہیب نے کہا وہ تمہیں یاد کرتے ہیں۔ میرے لئے پھر یہ لمحہ حیرت سے کم نہیں تھا کہ ابھی دو دن ہی ان کی سرجری کو گزرے تھے اور میں کون سا ایسا اہم تھا کہ یاد کرتے ہیں۔ ہم اگلے دن ان سے ہسپتال ملنے گئے۔ وہ اس تکلیف میں بھی ہمیشہ کی طرح ہمت میں تھے اور آواز کی گرج اور کھنک ویسے ہی تھی۔ آپریشن کے بعد کی غنودگی سے نکلتے نکلتے انہوں نے پریوں کے خواب دیکھے اور ہوش میں آتے ہی جو نرس ان کو اٹینڈ کر رہی تھی اس کے لئے ایک نظم لکھ ڈالی۔ نظم بہت عمدہ تھی، عدنان صہیب اس کی گواہی دے گے۔ افسوس وہ نظم بھی کتاب کا حصہ نہ بن سکی۔

کسی صورت اردو شاعری کی ترتیب دی جانے والی فہرست ممتاز اطہر کے بغیر ادھوری ہو گی۔ ان کی ابتدائی شاعری ایک مزاحمتی قوت کے طور پر سامنے آئی مگر اس شاعری کو انہوں نے نعرہ ہرگز نہیں بننے دیا۔ بارہا وہ خود یہ کہہ چکے ہیں ”مصرعے کو نعرہ بنتے دیر نہیں لگتی“۔ جس دور میں میرا ان کے پاس آنا جانا شروع ہوا وہ نظم کی طرف آ چکے تھے۔ غزل سے نظم کی طرف آئے شاعروں کی نظم غزل کے رنگ سے بھری ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنی نظم کو غزل کے آہنگ سے بچایا۔

ان کی نظموں میں تصاویر ہیں، کہانیاں ہیں، کردار ہیں اور یہ سب رنگوں کی زباں میں گنگناتے ہیں، چہچہاتے ہیں اور رقص کرتے ہیں۔ نظم کے بعد کی شاعری ایک نٹ کھٹ عاشق کی فریاد ہے۔ جو عشق میں غرق تو ہے مگر جذباتی نہیں۔ یہ شاعری رومانس کے استعاروں سے بھری ہے مگر اس پر جذباتیت کی کوڈنگ نہیں ہوئی۔ ایسے ارتقا سے بھرا سفر کم فن کاروں کے نصیب میں آتا ہے۔ جسے فطرت نے ایسا مالا مال کیا اسے بدقسمتی سے ہمارے ناقدین اور محققین نے وہ توجہ نہ دی جس کی ضرورت تھی، اس لئے کہ وہ الگ تھلگ اپنے کام میں مگن تھا، تعلقات بنانے اور ان کے استعمال سے نابلد تھا اور کسی مادی مفاد کا استحقاق نہ رکھتا تھا۔ توجہ تو دور انہیں رسمی تعلیم نہ ہونے کے طعنے تک سننے پڑے۔ اسے ہمارے سماج کا المیہ کہیے کہ فن سے زیادہ فن کار اور اس کے رتبے کو مدنظر رکھا جاتا رہا۔ ہمارا ایک دوست اس طعنے کا جواب خوب دیتا تھا۔ جب وہ ممتاز اطہر کے لسانی تجربات کی روشنی میں بات کرتا اور کئی رسمی اور اعلیٰ تعلیم یافتگان کے لئے ایک امتحان کھڑا کر دیتا کہ یہ ممتاز اطہر جیسا ایک مصرعہ ہی کہہ کر دکھلا دیں۔ ”مگر پھر بھی“ ممتاز صاحب کی مشہور ہونے والی نظموں میں سے ایک ہے، جس کے بارے میں ہمارے دوست کا گمان تھا کہ اسے چاہ کر بھی ترجمہ نہیں کیا جا سکتا، ”صدا کے رنگ مشکل ہیں ’کو بھلا ترجمہ کیا بھی کیسے جا سکتا ہے۔

ریڈیو نے جب اپنے پروگرام ختم کیے اور ممتاز صاحب کے پروگراموں کی تعداد کہیں کم ہو گئی تو وہ ریڈیو کے افسر بالا کے پاس پہنچے اور ماجرے کو جاننے کی کوشش کی۔ وہی رسمی دفتری جواب ملا کہ سرکار تو خود پریشان ہے۔ ممتاز صاحب نے ریڈیو سے اپنے سلسلہ روزگار چلنے اور ان اداروں کا فن کاروں اور شاعروں سے وابستہ ہونے کا حوالہ دیا تو افسر صاحب نے جواز تراشا ”ہم نے یہ ادارے فن کاروں کی کفالت کے لئے نہیں کھول رکھے۔“ اب مسئلہ صرف ذاتی نہیں رہا تھا۔ پھر یہ جملہ ریڈیائی لہروں سے اونچے ایوانوں اور دفاتر میں گونجا اور سمجھ آیا اداروں کا وجود ہوتا کن سے ہے۔

ممتاز اطہر نے دو محاذوں پر اپنی قوت صرف کی۔ ایک طرف وہ زندگی کی مشکلوں اور معاش سے لڑتے رہے دوسری طرف ادبی دنیا میں اپنی جگہ بنانے کے لئے۔ ان کے والد بچپن میں ہی انہیں معاش کی تگ و دو میں لوہے کی دنیا میں چھوڑ آئے تھے۔ انہوں نے نہ صرف اسے خیر باد کہا بلکہ بعد کے دنوں میں صحافت کو بھی اس لئے ترک کر دیا کہیں صحافت ان کے اندر کا شاعر نہ کھا جائے۔ اس ضمن میں وہ کراچی کے دنوں کو یاد رکھتے ہیں جب ابن انشا اور ابراہیم جلیس کی صحبتوں نے ان کے اندر کی کھوج میں ان کا ہاتھ بٹایا۔ زندگی کی ذمہ داریاں اس مشقت کا سفر عراق تک لے گئی جہاں وہ روز شب کی مزدوری سے ہاتھوں پر بنے چھالوں کو پھونکتے رہے مگر اپنے اندر کی محبت کو ماند نہ پڑنے دیا۔ ’میری کے لئے نظم‘ اس زندگی کی شاندار روداد ہے۔

جب جب ممتاز اطہر فورم پر کچھ پڑھتے تو مقبول گیلانی ایک جملہ کہے بغیر رکتے نہ تھے کہ: ”ممتاز اطہر کی شاعری، ان کی طرح ممتاز ہے۔“ بھلے ہم گیلانی صاحب کے اس ایک جملے کے عادی ہو چکے ہوں مگر ممتاز اطہر کے کلام پر یہ ہمیشہ درست جاتا ہے۔

اکثر لوگوں نے ان کی صاف گوئی اور کھرے پن کو ان کے مزاج کا روکھا پن سمجھا اور تمام تر مسائل کو اسی کے کھاتے میں ڈال دیا۔ لاہور میں ایک نسبتاً اوسط درجے کے مگر ضرورت سے زیادہ مقبول شاعر کو چائے پلانے (ویسے چائے پینے بھی لکھا جا سکتا تھا مگر یہ زیادہ بہتر ہے) کا اتفاق ہوا۔ ممتاز صاحب کا ذکر چل نکلا تو موصوف فوراً بولے :

”وہ تو خود سے ہی باہر نہیں نکلتے، ایسی خود پسندی کا کیا کیا جائے۔“
میں نے عرض کیا، ”جناب نرگسیت میں تو آپ بھی مبتلا ہیں۔“
”میری شاعری اس کی متقاضی ہے!“ انہوں نے فوراً جواب دیا۔
”تو ان کی شاعری اس سے زیادہ تقاضا کرتی ہو گی؟“ میں نے پھر سے عرض کیا۔

انہوں نے پہلو بدلا اور تقریباً میوٹ موڈ میں کہا ”کہتے تو ٹھیک ہو، شاعر تو وہ بڑا ہے۔“ اور اچانک انہوں نے موضوع بدل دیا۔

لالا ممتاز کا حرف و معنی سے ایسی محبت کا رشتہ ہے کہ زندگی کا حاصل جمع یہی لگتے ہیں۔ انہوں نے ایک شعوری سلیقے سے اپنے کلام کے ذخیرہ الفاظ کو وسعتوں تک پھیلایا ہے۔ اس سلیقے کا کمال یہ ہے کہ حروف کی کرافٹ سے کاغذ پر ڈیکوریشن نہیں کی، ان کی شاعری بناوٹ کے لوازمات سے یکسر پاک ہے اور کچھ ایسا ہی گمان ان کی شخصیت کے متعلق کیا جا سکتا ہے جس کا منہ بولتا ثبوت ان کا اپنا لہجہ اور آنکھیں ہیں۔ یہی وجہ ہے وہ جبراً نہیں لکھتے بلکہ آمد و آورد کی پیچیدگی کو اپنے وجود کی ریاضت اور مشاقی میں جگہ دے کر باآسانی کلام کر لیتے ہیں۔ مجھے اس بات پر ناز ہے اور بے جا نہیں کہ ان کی کتاب میں میرے لئے نظم (کولاج2) شامل ہے۔ یہ کسی اعزاز سے کم نہیں۔

کئی بار جب لفظوں نے مشکلوں میں گھیرا اور لغت بھی کام نہ آئی تو میں نے جھٹ لالا کو کال ملائی اور ہمیشہ دوسری طرف سے آواز آئی، ”ہاں قاضی بابا!“ وہ تسلی سے اس مشکل کو سننے کے بعد پہلے تو اکثر تلفظ درست کر دیتے اور پھر لفظ کے کئی طرح کے برتاؤ پر روشنی ڈالتے۔ اس سب کے بعد بھی وہ اس کو مزید کھوجنے کے قائل نظر آتے۔ یعنی وہ لفظ سے اپنے علم کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھتے ہیں۔ اب بھی فون سنتے ہی وہ ’قاضی بابا‘ تو کہتے ہیں مگر صحت کے سبب ان کی آواز کی اس پہلے سی کھنک کی میں اب کمی ہی محسوس کرتا ہوں۔

اہل علم ہو یا فن کار، انہوں نے ہمیشہ اپنے سینئرز کا احترام کیا۔ سطور فیض نمبر کی جو فہرست قادری صاحب اور میں نے ترتیب دی تھی وہ اپنی شکل بدل گئی جب سرمد صہبائی کی فیض صاحب کے لئے نظم ملی اور وہ بہ ضد تھے کہ یہ نظم میری نظم سے پہلے آئے گی۔ یہی محبت ان کی نوجوانوں کے لئے ہے۔ انہوں نے بارہا اس بات کا اظہار کیا کہ انہی نوجوانوں نے انہیں طاقت دی اور اپنے عہد میں خود جیسا زندہ رکھا۔ لالا کے پاس پرانے شہر کے در و دیوار اور کرداروں کے بے تحاشا قصے ہیں۔ ان کے ساتھ بوہر گیٹ، پرانی گنا منڈی، محلہ موہانیاں اور اردگرد گھومنے کا اتفاق ہوا اور ہر موڑ سے ایک کہانی جڑی تھی جو ان کی انگلی پکڑ کر بچپن تک لے جاتی۔

ممتاز اطہر ایک ایسا دیا ہے جس کی روشنی اور تپش دونوں دور تک جاتے ہیں اور تہوں اندر ایک ایسا معصوم بچہ چھپا ہے جو ”چم چم کرتی خواہش“ کی جستجو میں ”مجھے نم کرو“ کا ورد الاپ رہا ہے، تو بھلا میں یا کوئی اور کیسے بتا سکتا ہے کیسی آگ ہے؟ جب وہ خود ہی کہہ رہے ہیں :

میں انہونی میں ہونے کے گماں تک ہوں
جہاں تک تم مجھے سوچو، وہاں تک ہوں
حدوں کو توڑ دیتا ہے جنوں اطہرؔ
سو وحشت میں مکاں سے لا مکاں تک ہوں

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments