ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم پر خاموشی کیوں


گزشتہ کئی روز سے طبیعت میں شدید بے چینی ہے جس کی وجہ شاید ملک میں تیزی سے بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال ہے۔ مہنگائی نے اپنے اگلے پچھلے تمام سابقہ ریکارڈز توڑ دیے ہیں۔ ڈالر بلندی کی سطح پر ہے اور روپے کی قدر تیزی سے گراوٹ کا شکار ہے۔ سابقہ حکومت کی 4 سال کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ مگر ہمارے سیاسی اداکار بجائے اس نازک صورتحال میں جب ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے سر جوڑ کر مل بیٹھنے کے بجائے دھما چوکڑی مچا رہے ہیں۔

روزانہ کی بنیاد پر سیاسی جلسے جلوسوں میں عوام کو خانہ جنگی کی طرف اکسا رہے ہیں۔ ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جا رہی ہیں۔ ان پر غداری کے فتوے لگائے جا رہے ہیں۔ قومی پرچم اور گرین پاسپورٹ نذر آتش کیے جا رہے ہیں۔ نفرت انگیز تقاریر کے ذریعے عوام کو مخالفین کے خلاف تشدد پر اکسایا جا رہا ہے۔ مسجد نبوی کی مقدس زمین کو بھی سیاسی اکھاڑا بنایا جا رہا ہے۔ مخالفین کے گھروں پر حملے کروائے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی مچایا جا رہا ہے۔ چند مخصوص نام نہاد ایجنڈا صحافی یوٹیوب پر بیٹھے ریاست اور چیف آف آرمی اسٹاف کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا رہے ہیں۔ مگر حیرت انگیز بات ہے ان سب کہ باوجود حکومتی اور ریاستی اداروں نے معنیٰ خیز خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ اداروں کے خلاف اس نفرت انگیز مہم پر اب تک کسی قسم کی کارروائی کا آغاز نہیں ہوا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی خاص منصوبے کے تحت ان کو کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے۔ 22 اگست 2016 میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کو صرف ایک نعرے کی پاداش میں نشان عبرت بنا دیا گیا۔ ان کی پارٹی کو چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم کر کے بری طرح کچل دیا گیا۔ ان کے سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا جو آج تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ الطاف حسین کی تقاریر اور تصاویر پر پابندی لگا کر ان کو میڈیا پر بلیک آؤٹ کر دیا گیا۔ یہاں تک ان ذاتی رہائش گاہ نائن زیرو کو بھی سیل کر دیا گیا۔

صرف یہ ہی نہیں ہر سال 9 دسمبر کو متحدہ قومی موومنٹ اپنے شہداء کی یاد میں یوم شہدا مناتی ہے جس میں لواحقین کی مائیں بہنیں اور بزرگ فاتح خوانی کرتے ہیں۔ مگر 22 اگست 2016 میں الطاف حسین کہ اس ایک نعرے کی پاداش میں 6 سال سے ان شہداء کے لواحقین کو شہداء یادگار میں فاتحہ خوانی کی بھی اجازت نہیں۔ ان تمام تر پابندیوں کہ باوجود خواتین مائیں بہنیں بزرگ اپنے ہاتھوں میں قرآن پاک تھامے پر امن طور پر شہداء کی فاتحہ خوانی کے لئے نکلتے ہیں۔ مگر وہاں کنٹینر لگا کر تمام راستے بند کر دیے جاتے ہیں۔ پولیس اور رینجرز کی بڑی نفری لگادی جاتی ہے۔ اور حد تو یہ ان پر لاٹھی چارج بھی کیا جاتا ہے۔

پی ایم ایل این کہ سربراہ میاں محمد نواز شریف کہ اسٹبلشمنٹ مخالف بیانات کہ بعد ان پر اور ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف پر سیاسی مقدمات بنا کر ان کو قید کر دیا جاتا ہے۔ تین بار وزارت عظمیٰ پر فائض رہنے والے نواز شریف کو تاحیات نا اہل کر دیا جاتا ہے۔ اور ان کہ دیگر سینئر رہنماؤں پر بھی سیاسی مقدمات بنا کر جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔

مگر دوسری طرف دیکھیں تو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ان کی جماعت اور چند الیکٹرانک میڈیا چینلز پر بیٹھے ایجنڈا صحافی جس طرح ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا رہے اور عوام کو ان کے خلاف مسلسل اکسا رہے ہین اس پر تمام ریاستی و حکومتی اداروں کی خاموشی سمجھ سے باہر ہے۔ عوامی حلقوں میں یہ سوال شدت اختیار کر رہا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے اور عمران خان کو کون سی غیبی طاقتوں کی سہولت حاصل ہے جو حکومت اور ریاست ان کے خلاف ایکشن لینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔

دوسری طرف عوامی حلقے اس بات کو بھی باریکی سے دیکھ رہے ہیں کہ خود کو گیٹ نمبر چار کی پیداوار کہنے والے شیخ رشید، چوہدری پرویز الٰہی، اور خاص کر وہ دو میڈیا چینلز اور اینکرز اس مہم کا حصہ ہیں جو شروع سے ہی اسٹبلشمنٹ کے قریب ترین سمجھے جاتے ہیں۔ یہ وہ عوامل ہیں جو عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں

اس وقت ملک جس خطرناک معاشی بحران سے گزر رہا ہے جہاں ملک کے دیوالیہ ہونے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ قومی یکجہتی کو اجاگر کیا جائے اپنے تمام تر سیاسی اختلافات بھلا کر سر جوڑ کر بیٹھیں اور باہمی مشاورت سے ملک کو اس نازک معاشی صورتحال سے نکالنے کا راستہ نکالیں۔ مگر یہاں قوم کو ریاستی اداروں اور مخالفین کے خلاف اکسایا جا رہا ہے۔ مسلسل قوم کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔ مخالفین کی عزتیں اچھالی جا رہی ہیں۔ اپنے اس طرز عمل سے وہ ملک کی جڑیں مزید کھوکھلی کر رہے ہیں۔ جس کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments