انڈیا میں جرائم پر مبنی ڈراموں اور فلموں میں اتر پردیش ہی کو کیوں دکھایا جاتا ہے؟

میرِل سبیشیئن - بی بی سی نیوز، دہلی


مرزا پور کا پوسٹر
Amazon Prime
جرائم کی دنیا کے بارے میں بننے والے کرائم تھریلر (ہیجان انگیز ڈرامے) مرزا پور کا تیسرا سیزن آنے والا ہے
گذشتہ چند برسوں کے دوران ڈرامے اور شوز دکھانے والے سٹریمنگ پلیٹ فارمز نے انڈین فلم سازوں کو کہانیوں کا کینوس وسیع کرنے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش اس مقصد کے لیے ایک مقبول مقام ہے مگر وہاں فلمائے گئے زیادہ تر ڈراموں اور فلموں کی کہانیاں جرائم اور گینگ وائلنس (گروہی تشدد اور مار دھاڑ) پر مبنی ہوتی ہیں۔ اور اس عمل میں جو چیز نظر انداز ہو رہی ہے وہ وہاں کی بھرپور تاریخ اور ثقافت ہے۔

حالیہ برسوں کے دوران شمالی انڈیا کے چھوٹے قصبات میں کم بجٹ والی فلموں کی کامیابی نے ہندی زبان میں فلمیں اور ڈرامے بنانے والوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اتر پردیش کا پس منظر رکھنے والی کہانیوں پر مبنی زیادہ سے زیادہ شوز تیار کریں۔

اپنی آبادی اور رقبے کے اعتبار سے اتر پردیش کو انڈیا کے سیاسی منظر نامے میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے اور یہ ہی سبب ہے کہ وہ ان شوز کے لیے ایک پسندیدہ مقام بن چکا ہے۔

وہاں بننے والے شوز کی اس قدر بہتات ہے کہ انڈین سٹریمنگ پلیٹ فارمز پر نئے شوز پر نظر رکھنے والے ٹوئٹر اکاؤنٹ ’سنیما ریئر‘ نے مذاقاً ٹویٹ کی کہ انڈین فلم انڈسٹری کے لیے مشکل ہی سے یو پی میں کوئی جگہ بچی ہے، جسے دکھایا جا سکے۔

ریاست نے ہندی فلم سازوں کے لیے مختلف مراعات کیا اعلان کر رکھا ہے تاکہ وہ وہاں جا کر فلمیں اور شوز بنائیں۔

’مرزا پور‘ سے لے کر ’پاتال لوک‘ تک بہت سے ایسے ڈرامے ہیں جو اسی ریاست کے پس منظر میں بنائے گئے ہیں جن میں خاندانی دشمنیوں اور قاتلوں کی کہانیاں پیش کی گئی ہیں۔ ان میں سے کئی شوز کو بہت زیادہ مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔

جرائم کی کہانیاں بالی وڈ کے لیے نئی نہیں۔ سنہ 1998 میں ممبئی کے پس منظر میں بننے والی فلم ’ستیا‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے شہر میں جرائم کی دنیا کے بارے میں ہندی شوز کو نئے رجحان سے روشناس کروایا تھا۔

اگرچہ اب عوامی سوچ پر ممبئی کی انڈر ورلڈ (جرائم کی دنیا) کی گرفت ڈھیلی پڑ چکی ہے مگر نئے کرائم تھریلز پر ’ستیا‘ کا اثر اب بھی قوی ہے۔

آیوشمن کھُرانا اور کرِتی سانن بریلی کی برفی کے ایک منظر میں

Junglee Pictures
رومینٹِک کامیڈی ’بریلی کی برفی‘ یو پی کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پروان چڑھنے والی محبت کی داستان کے بارے میں تھی

’بُلِٹس اوور بومبے‘ نامی کتاب کے مصنف اور نقاد اودے بھاٹیا لکھتے ہیں کہ ’ستیا نے ہندی سنیما کو بہت زبردست انداز سے بدلا مگر اس کی میراث میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے اس پر کام کیا، اس کی کامیابی سے فائدہ اٹھایا اور پھر ہندی سنیما کو بھی بدل ڈالا۔ ان میں ڈائریکٹر انورنگ کشیاپ اور ویشال بھردواج جیسے بڑے نام بھی شامل ہیں جن کا تعلق یو پی سے تھا۔ بھردواج نے اسی ریاست میں کئی ہِٹ شوز بنائے۔‘

دلی یونیورسٹی میں لیکچرر، مصنفہ اور فلم ساز انوبھا یادیو کا کہنا ہے کہ ستیا سے پہلے ہندی فلموں نے پلاٹ پر زیادہ توجہ نہیں دی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’پلاٹ کو اہمیت دیے جانے کے بعد سے ہندی سنیما میں ایک نیا انداز سامنے آنے لگا اور میرے خیال میں ویب سیریز اب اسے ایک نئی سطح پر لے کر جا رہی ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’پشپا‘ کے 14 دن میں 234 کروڑ، جنوبی انڈین فلمیں اتنی مقبول کیوں ہیں؟

کشمیر فائلز: سنگاپور میں ہندو پنڈتوں پر بننے والی فلم کی نمائش پر پابندی

کے جی ایف 2، آر آر آر، پشپا: جنوبی انڈیا کی فلمیں جو بالی وڈ کو پیچھے چھوڑ رہی ہیں

مگر بعض نقاد ایک مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

یو پی کے علاقے شاہ آباد سے تعلق رکھنے والے ماہرِ عمرانیات محمد سعید کہتے ہیں کہ ’ستیا اوریجنل (طبع زاد) کہانی تھی۔ اس کے بعد جو بھی بنا وہ اسی کا چربہ لگتا ہے، بس محاورے، استعارے اور شاید گالیاں نئی ہوتی ہیں۔‘

یادیو کہتی ہیں کہ ستیا کی کامیابی کے نتیجے میں جنم لینے والی اس فلمی صنف (ژانرے) کا انحصار ایک خاص قسم کی مردانگی کے مظاہرے اور تشدد پر ہے جو ناظرین کو ہیجانی کیفیت سے دو چار کرتا ہے۔

یو پی کے پاس رقبے اور آبادی کے سوا اور بھی بہت کچھ ہے۔ یہ ریاست اپنی ’گنگا جمنی تہذیب‘ کے لیے طویل عرصے سے شہرت رکھتی ہے۔ یہ اصطلاح ہندو مسلم ثقافتوں کے ملاپ سے جنم لینے والی مشترک سماجی اقدار کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ہی ریاست ہے جہاں ہندی ادب، کلاسیکی موسیقی اور رقص کی بڑی نامور شخصیات پیدا ہوئیں۔

یہ ثقافتی پہلو اگر کہیں نظر بھی آتا ہے تو بس ایک جھلک کی صورت میں۔

یادیو کہتی ہیں کہ ’یہ شاعروں کی سر زمین ہے۔ یہ غالب کی دھرتی ہے۔ یہ سنہ 1857 کی بغاوت (انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی) کی سب سے بڑی تاریخی کہانی لیے ہوئے ہے۔‘

اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہاں جرائم ہوتے ہی نہیں۔ یہاں پیش آنے والے پولیس مقابلے، نفرت پر مبنی جرائم اور عورتوں اور اقلیتوں کے خلاف تشدد کی خبریں اکثر شہ سرخیوں میں چھپتی ہیں۔

دوسری ریاستوں میں بھی ہر سال ہزاروں جرائم ہوتے ہیں مگر عوامی توجہ یو پی پر زیادہ مرکوز ہو گئی ہے۔

سکرین رائٹر جوہی چتُرویدی نے سنہ 2020 میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’اس جگہ کی ایک زبردست تاریخ، فن، حرفت اور رقص ہے۔ بندوق کے مقابلے میں اور بہت کچھ موجود ہے۔‘

اسی برس انھوں نے ڈرامہ گلابو سیتابو بنایا جس کی کہانی ایک خستہ حال حویلی میں رہنے والے اور حویلی کے مالک کے درمیان جاری کشمکش کے بارے میں تھی۔ مصنفہ نے اس کہانی کو یو پی کے دارالحکومت لکھنؤ میں سیٹ کیا تھا جہاں وہ پلی بڑھی تھیں۔ کہانی کو پیش کرنے کے لیے وہ مقامی پتلی تماشا کی ٹیکنیک کو بروئے کار لائیں۔

کم بجٹ والی دوسری فلمیں بھی ہیں جنھوں نے گولی چلائے بغیر یو پی کی ثقافتی اور مزاحیہ کہانیاں پیش کی ہیں جیسا کہ مزاحیہ ڈرامہ ’شُبھ منگل زیادہ ساؤدھان‘ اور رومینٹک کامیڈی ’بریلی کی برفی۔‘

چتُرویدی کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی شہر یا ماحول کی کئی جہتیں ہوتی ہیں۔۔۔ ہاں جرم بھی اس کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ یو پی یا بِہار کے بارے میں دکھانے کے لیے اور بھی بہت کچھ موجود ہے۔‘

یادیو کا خیال ہے کہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کسی کا علم کسی جگہ کے ایک پہلو تک محدود ہوتا ہے اور وہ اسے استعمال کرنا چاہتا ہے، جیسا کہ ’سب سے زیادہ آبادی والی جگہ، مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی جگہ، ذات پات کے خطوط پر منقسم جگہ، وغیرہ۔‘

یادیو اور سیعد دونوں ہی اس بات پر متفق ہیں کہ جب ایسے میں یہاں ہونے والے جرائم کی خبریں قومی سطح پر شہ سرخیاں بنتی ہیں تو ریاست کے لوگوں کو باقی ملک سے الگ تھلگ کر کے دیکھا جاتا ہے۔

سعید، جنھوں نے ایک شو کے بارے میں تحقیق میں مدد بھی فراہم کی، کہتے ہیں کہ اس کے دور رس اثرات ریاست کے بارے میں قومی بحث اور مکالمے پر پڑتے ہیں۔

وِکی کوشل مسان کے ایک کردار میں

Drishyam Films
یو پی کی کہانیاں زیادہ تر ’مسان‘ جیسی کم بجٹ والی فلموں کا موضوع بنتی ہیں

ڈائریکٹرز نے پہلے بھی یو پی کے بارے میں کثیر الجہتی فلمیں بنائی ہیں جس میں تشدد بھی پیش کیا گیا۔

یادیو کہتی ہیں کہ ’بھردواج کی فلم ’اومکارا‘ میں تشدد تھا مگر اتنا نہیں کہ فلم کی دلکشی کا سبب ہی تشدد بن جائے۔‘

سنہ 2012 میں جب کشیاپ نے غیر منقسم بہار کے ایک مقامی مافیا کے بارے میں دو حصوں پر مبنی ’گینگز آف واسع پور‘ ریلیز کی تو علاقے کے بعض رہنے والوں نے اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اس میں علاقے کی غیر حقیقی عکاسی کی گئی ہے۔ بعض نے اسے خطرناک بھی قرار دیا مگر فلم کے رائٹر کا کہنا تھا کہ اس کی زیادہ تر کہانی حقیقت پر مبنی ہے۔

مزید پڑھیے

انڈین فلم ’جے بھیم‘ جو مقبولیت میں ’گاڈ فادر‘ جیسی کلاسک فلموں کو پیچھے چھوڑ رہی ہے

نیٹ فلکس: دنیا کی سب سے بڑی سٹریمنگ سروس انڈیا سے مایوس کیوں؟

’تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا صاحب، پیار سے لگتا ہے‘

یادیو کہتی ہیں کہ نئے شوز میں دکھایا جانے والا تشدد فارمولا بن چکا ہے اور کہانی کی لوکیشن سے الگ تھگ لگتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ فلم کو مختلف زبانوں میں ڈھالنا آسان ہو جاتا ہے کیونکہ کہانی کا سیاق و سباق غیر اہم ہو جاتا ہے۔

صورتحال بڑے شہروں کے پس منظر والے ڈراموں جیسا کہ ’سیکرڈ گیمز‘ اور ’آریا‘ میں بھی مختلف نہیں۔

یادیو کہتی ہیں کہ ’چلیں سیکرڈ گیمز کا تصور یوپی میں کیجیے، یہ کتنا بدل جائے گا؟ میرا خیال ہے کہ زیادہ نہیں بدلے گا کیونکہ اس میں تشدد کی ’دلکشی‘ وہ ہی رہے گی۔ اگر مرزاپور کو گجرات میں فلمایا جائے تو وہ بھی زیادہ نہیں بدلے گا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ یہ ’مسان‘ اور ’مکتی بھون‘ جیسی فلموں سے مختلف ہے، جو یو پی میں بنارس شہر کے مخصوص مزاج کی عکاسی کرتا ہے اور جسے کسی دوسری جگہ نہیں فلمایا جا سکتا۔

موجودہ دور میں یہ شوز سٹریمنگ پلیٹ فارم پروڈیوس کرتے ہیں اور بڑے پیمانے پر اپنے ڈراموں اور فلموں کی طرف ناظرین کو متوجہ کرنے کے لیے ان کا پاس کافی سارا بجٹ ہوتا ہے۔

یادیو کہتی ہے کہ ’اگر یہ صورتحال بدل جائے تو میرے خیال میں اور بھی بہت کچھ بدل جائے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments