سازشوں تلے پروان چڑھی نسلوں کا قصہ


سازشی مفروضوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تاریخی اعتبار سے سماجی و معاشی بحران کے دوران پنپتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کچھ اور ہی بتاتی ہے۔ سرحد کے اس پار کٹر مؤرخین اور ماہرین سیاسیات کا خیال ہے کہ پاکستان مسلمانوں کی کاوشوں سے زیادہ انگریزوں کی سازشوں کا نتیجہ ہے۔ سابق بھارتی وزیر، جسونت سنگھ اپنی کتاب Jinnah: India۔ Partition۔ Independence میں رج رج کر قائد اعظم کی تعریفیں لکھنے کے باوجود وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان گوروں کی سازش، گاندھی اور نہرو کی سیاست کی وجہ سے وجود میں آیا۔ پاکستانی نژاد سویڈش ماہر سیاسیات اشتیاق احمد اپنی حالیہ کتاب Jinnah: His Successes, Failures and Role in History
میں پڑوسی ماہرین سیاسیات سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔

آزاد پاکستان میں پیدا ہونے والی پہلی نسل راولپنڈی سازش کیس 1951، لیاقت علی خان قتل کیس، اگر تلہ سازش کیس 1967 کے علاوہ ون یونٹ کے دوران جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کی ایک دوسرے کے خلاف سازشوں کی کہانیاں سن کر جوان ہوئی۔

دوسری نسل نے دنیا میں دستک دی تو انہیں، بنگال کی تقسیم، اٹک سازش کیس، ذو الفقار علی بھٹو پھانسی کیس، روس کی پاکستان کے گرم پانیوں تک رسائی، اور ضیاء الحق کی حادثاتی موت سمیت ان گنت سازشوں کے قصے ورثے میں ملے۔

بھٹو کا تختہ دار اور جنرل ضیاء کے جہاز میں چڑھنے کے بعد جب سیاسی منظر نامہ بدلا تو بے نظیر بھٹو دوسری نسل کی پہلی خاتون سیاسی رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں۔ جبکہ دوسری طرف اسی عرصے کے دوران امیر المومنین بننے کے خواب آنکھوں میں سجائے نواز شریف اقتدار کی راہداریوں میں چہل قدمی کرتے دکھائی دیے۔

بحرانوں سے بھرپور اگلے نو سال 1988 سے لے کر سنہ 1999 تک ان کے نام رہے۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی آنیاں جانیاں چل ہی رہی تھیں کہ عمران خان نے کرکٹ کو خیر آباد کہہ کر سیاست میں آنے کا اعلان کیا۔

عمران خان کی خوش نصیبی دیکھیے کہ ان کی سیاست میں آمد کے تین سال بعد سیاسی کھیل کے دو اہم کھلاڑیوں کو جلا وطنی اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔ لیکن بدقسمتی کا عالم یہ کہ اگلے بارہ سال تک وہ عوام کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ قدرے آسان پچ بنا کر دینے کے باوجود ناکامی کے باؤنسرز سابق عظیم آل راؤنڈر کا منہ چڑاتے رہے۔

عمران خان کو جو چیز اپنے ہم عصروں سے ممتاز بناتی ہے وہ ہے اس کا پر اعتماد لہجہ۔ وہ جو بات کہتے ہیں انتہائی اعتماد اور کامل یقین کے ساتھ کہتے ہیں۔ وطن سے محبت، ریاست مدینہ ثانی کا تصور، مذہبی شخصیات سے عقیدت، روحانی علوم میں دلچسپی کے علاوہ بھلا دوسرا یہاں ایسا کون ہے جو مغرب و مشرق کو عمران خان سے بہتر جانتا ہو؟

وہ یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو امریکیوں نے سازش کے تحت قتل کرایا۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکیوں سے ان بن کے باعث ذو الفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھا گیا۔ آموں کی پیٹیوں سے بھی تو اسے آموں کے رسنے کی امریکی بو آتی ہے۔ شروع شروع میں جب اقتدار سے محروم ہوئے تو اسے امریکی سازش قرار دیا اور ان کے چاہنے والوں نے اس پر یقین کر لیا۔

کچھ لوگ سازشی مفروضوں پر کیوں آسانی سے یقین کر لیتے ہیں؟

انسان فطری طور پر کھوجی ہے پیدا ہوا ہے۔ جب کبھی کوئی بڑا واقعہ رونما ہو جائے، کہیں کوئی حادثہ کوئی سانحہ ہو جائے تو ہم وجوہات جاننا چاہتے ہیں۔ ذہنوں میں ابھرنے والے سوالوں کے جواب چاہتے ہیں۔ لیکن جب جواب تسلی بخش نہ ملیں تو پھر لاشعور کے نہاں خانوں میں جنم لینے والے شکوک و شبہات شعور میں موجود سازشی نظریات کی آبیاری کرنے لگتے ہیں۔ یوں وہ ہر واقعے کی تشریح اپنے سیکھے ہوئے بلیف سسٹم کے تحت کرتے ہیں۔ ہم سوچنے سمجھنے اور کسی بھی معلومات کو تسلیم یا رد کرتے وقت اپنے مخصوص علمی تعصب سے کام لیتے ہیں۔ ماہر نفسیات اس کے لیے کنفرمیشن بائس (تصدیق کے تعصب) کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

جب ہم کنفرمیشن بائس کا شکار ہو جائیں تو پھر ہم اپنے نظریات کو چیلنج کرنے کے بجائے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان لکھاریوں کو پڑھتے ہیں جو ہمارے نظریات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ہم وہ ٹی وی پروگرامز شوق سے دیکھتے ہیں جن سے ہماری سوچ میل کھاتی ہے اور وہ پروگرام دیکھنا ترک کر دیتے ہیں جو ہمارے خیالات کو چیلنج کرتے ہیں۔

کنفرمیشن بائس فطری طور پر ہر انسان میں پایا جاتا ہے، تھوڑا بہت کسی نہ کسی طرف ہر انسان کا جھکاؤ رہتا ہے، لیکن اگر یہ انتہا کو پہنچ جائے تو پھر سمجھ لیں کہ آپ جھوٹ کے دلدل میں پھنس چکے ہیں، آپ آدھا سچ جاننے کے عادی بن چکے ہیں، آپ دوسروں کا نقطۂ نظر جانے بغیر ہی اگر رد کر دیں تو پھر اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ آپ سازشی مفروضوں پر بھی آسانی سے یقین کر لیں گے۔

سازشی نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کو کون سے اقدامات اٹھانے چاہئیں؟

دنیا بھر میں سازشی نظریات جنگل میں آگ کی طرح پھیلتے ہیں، انہیں روکنا مشکل ہے، لیکن نا ممکن نہیں۔ سازش کو پھیلنے اور پھر اس پر رد عمل دینے سے کہیں بہتر ہے کہ طویل المدت منصوبے کے تحت نصاب میں سیاسی و سماجی تعلیم کے ساتھ ساتھ میڈیا اور ڈجیٹل لٹریسی جیسے مضامین کو شامل کیا جائے۔ نوجوانوں پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے انہیں حقائق کی تصدیق کے لیے (فیکٹ چیکنگ) ویب سائٹس سے رجوع کرنا سکھایا جائے۔

کہتے ہیں کہ فلمیں معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک فلم ’جو جو ریبٹ‘ دیکھی جو نازی دور کے پس منظر میں بنائی گئی ہے۔ فلم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ کس طرح چھوٹے بچے ہٹلر کے پروپیگنڈا سے متاثر ہوتے ہیں۔ بچوں کی اس طرح سے ذہن سازی کی جاتی ہے کہ وہ ہٹلر کے لیے جان لینے اور دینے سے بھی نہیں کتراتے۔ پاکستان میں بھی آج کل سیاسی جماعتوں کے قائدین بچوں کی ذہن سازی میں مصروف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں اپنے نظریات کے فروغ کے لیے بچوں پر ’انویسٹ‘ کر سکتی ہیں تو پھر ریاست کیوں نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments