مسلمانوں میں بنیاد پرستی کی تحریکیں اور ان کی سیاست


مغربی میڈیا ہمیشہ سے یہ تاثر دیتا آیا ہے کہ بنیاد پرستی کی بنا پر شروع کی گئی تحریک اکثر تشدد اور دہشت پھیلانے والی تحریک بن جاتی ہے اور اس سلسلے میں ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا جاتا رہا ہے۔ جب کہ یہ بات حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ بنیاد پرستی کی تحریک ہر مذہب کے اندر رونما ہو چکی ہے۔ عقیدے کی یہ قسم سب سے پہلے جدیدیت کے علمبردار ملک برطانیہ میں رونما ہوئی۔ سولہویں اور سترویں صدی میں Puritanism کی تحریک چلی جس میں یہ کہا گیا کہ ہر قسم کی جدت پسندی اور غلط عقائد سے کنارہ کش ہو کر خالص بائبل کے بتائے ہوئے طریقے پر چلا جائے تاہم یہ تحریک یورپ کی نشاة ثانیہ کی تحریک کی وجہ سے دب کے رہ گئی۔

اس کے برعکس مسلم دنیا میں ابھی تک بنیاد پرستی کی تحاریک چل رہی ہیں۔ ان تمام تحاریک کا بنیادی مقصد عوام کو اصل اسلام سے متعارف کروانا ہوتا ہے۔ اگرچہ ان مقاصد میں جزوی طور پر کامیابی تو ہوتی ہے مگر مکمل طور پر کامیابی ہونا خارج از امکان ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام مکمل طور پر نہ تو دیندار بن سکی ہے اور نہ ہی یہ تحاریک مغرب کے مقابل کوئی نیا نظام دے سکی ہیں۔ یہ تحاریک اپنے چودہ سو سالہ پرانی خلافتوں سے متاثر ہوتی ہیں۔ وہی خلافت والا نظام لانا چاہتی ہیں۔ اس لیے یہ تحاریک سیاسی طور پر مضبوط ہو کر جمہوری طریقے سے حکومت حاصل کرنے کی سعی کرتی ہیں۔ اگر جمہوری طریقے سے نہ آ سکیں تو یہ تنظیمیں یہ سمجھتی ہیں کہ لبرل یا جدت پسند حکومت ان کو ختم کرنا چاہتی ہیں اور اسی بات کو بنیاد بنا کر یہ تنظیمیں الیکشن میں حصہ لیتی ہیں۔ ان پارٹیوں کا نعرہ شریعت کا نفاذ ہوتا ہے مگر واضح طور پر ان کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہوتا۔ مطلب یہ کہ یہ پارٹیاں صرف عوام کے مذہبی جذبے کو اپنے حق میں استعمال کرتی ہیں۔ اگر جمہوری طریقہ کارگر نہ ہو تو بعض اوقات تشدد پر اتر آتی ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ ان پارٹیوں کو مکمل طور پر عوام مسترد کر دیتے ہیں بلکہ ان کو کچھ نہ کچھ نمائندگی بھی مل جاتی ہے اور یوں یہ پارٹیاں سیکولر حکومت کے شانہ بشانہ چلنے لگتی ہیں۔

مسلمانوں کی تاریخ میں بہت سے ایسے لوگ آئے جنہوں نے اسلام کی دوبارہ تجدید کی سعی کی۔ ان کے ماننے والے ان افراد کو مجدد کا لقب بھی دیتے ہیں۔ اگر تاریخ میں دیکھا جائے تو امام حنبل اور امام ابن تیمیہ نے بنیاد پرستی کی تحاریک شروع کیں۔ اس وقت ان تحریکوں کا بنیادی مقصد حکومت حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ عجمی ثقافت جو مسلمانوں میں اثر پذیر ہو رہی تھی اس کو اسلام سے خارج کرنا تھا۔ جدید دور میں حجاز میں اٹھنے والی وہابی تحریک کے اندر بھی کچھ اسی قسم کی روح تھی لیکن یہ تحریک آج تک بالواسطہ طور پر اہل سعود کے ذریعے سے حکومت کر رہی ہے۔

جبکہ اگر دوسرے اسلامی ممالک میں دیکھا جائے تو بنیاد پرستی کی تحریکیں مغرب کے استعمار کے ردعمل میں وجود میں آئیں۔ اسلامی ممالک میں مصر کی اخوان المسلمین اور ایران میں امام خمینی کی تحریکیں حکومت حاصل کرنے میں کامیاب تو ہو گئیں مگر اپنے نظام کو خالص اسلامی ڈھانچے میں ڈھالنے میں ناکام رہیں۔ امام خمینی کی تحریک، سعودیہ میں وہابی تحریک تو آج بھی حکومت کر رہی ہیں مگر اخوان المسلمین ایک دو سال سے زیادہ حکومت نہ کر سکی۔ اسی طرح افغانستان میں سرد جنگ کے بعد طالبان کی حکومت قائم ہوئی تاہم یہ حکومت اپنے ہی ملک کے باشندوں پر سختیاں کرنے لگی اور ملک میں اقتدار کے لیے دو گروپوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو گئی اور نائن الیون کے بعد جو کچھ ہوا اس پر زیادہ بحث کی ضرورت نہیں ہے

اسلامی بنیاد پرستی کو پاکستان میں شروع کرنے والے مولانا مودودی تھے جنہوں نے استعمار کے ہر نظام کو یکسر مسترد کر دیا۔ سیکولرازم، فیمینزم، لبرل ازم وغیرہ جیسی اصلاحات کو مکمل طور پر کفار کا ایجنڈا بتایا۔ یہ بتایا کہ ان چیزوں کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف عوام نے بجائے خود تحقیق کرنے کے ان پر اعتماد کر لیا اور جماعت اسلامی جیسی تحریک وجود میں آئی۔ جب یہ جماعت کسی حد تک میچور فیز میں داخل ہوئی تو اس نے جمہوریت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔

جی بالکل وہی جمہوریت جس کو استعمار کا کارنامہ قرار دیا گیا تھا۔ اسی جماعت کی دیکھا دیکھی دوسری مذہبی تحریکیں بھی جمہوریت میں آنے لگیں۔ جمیعت علمائے اسلام اور تحریک لبیک پاکستان بھی اسی طرح سیاست میں آئیں۔ ان سب کا ایک ہی وہی روایتی نعرہ شریعت کا نفاذ ہوتا ہے۔ جب کہ یہ نہیں بتایا جاتا کہ اسے نافذ کیسے کرنا ہے مغرب کے مقابلے میں اپنی معیشت کو کیسے چلانا ہے اس بات کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔ ہر الیکشن میں یہ جماعتیں چند ایک سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب تو ہو جاتی ہیں مگر کسی واضح اکثریت کے ساتھ حکومت میں نہیں آ سکیں۔ صرف ضیا الحق کے دور میں یا پھر مشرف کے آمرانہ ادوار میں ان کو وقتی اور جزوی کامیابی حاصل ہوئی جبکہ باقی تمام ادوار میں ان پارٹیوں کا صرف ایک ہی کام رہا ہے کہ کسی طرح مرکزی اکثریتی پارٹی کے ساتھ مل کر ایک دو وزارتیں لے کر خوش ہو جائیں۔

پاکستان جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اور اسلام کے ساتھ ان کی والہانہ عقیدت بھی ہے مگر لاشعوری طور پر عوام ان پارٹیوں کو حکومت میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ پبلک کسی ایسی پارٹی کو حکومت میں دیکھنا چاہتی ہے جس کا کوئی مخصوص ایجنڈا نہ ہو۔ لسانی، علاقائی اور مذہبی جماعتیں آج کے دور میں صرف پریشر گروپس کے تحت ہی کام کر رہی ہیں۔ ایسے میں کسی بھی بڑی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں مل پاتی اور پاکستان کی پارلیمنٹ مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments