روس یوکرائن جنگ اور پاکستان کا کردار


سویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ کو پوری دنیا پر اپنا اثر و رسوخ قائم کر نے کا موقع ملا۔ نیو ورلڈ آرڈر کا نعرہ لگا کر امریکہ نے دنیا پر مختلف ذرائع سے اپنی پالیسیاں نافذ کر نے کی کوشش کی۔ عراق، لیبیا، افغانستان اور شام میں تو باقاعدہ فوج کشی کر کے ان کو تابع بنانے کی کوشش کی گئی۔ ایران اور وینزویلا جیسے ممالک میں سیاسی بے چینی پیدا کرنے کی کوششیں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ تیل کے دولت سے مالامال عرب ممالک کو اسرائیل کی مدد سے دبا کر رکھا۔

روس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی پالیسی پر ناٹو کی مدد سے کام جاری رکھا۔ یوکرائن کو اسلحے سے لیس کرنا شروع کر دیا اور ساتھ میں اس کو یورپی یونین اور ناٹو میں شامل کرنے کی منصوبے پر کام شروع کر دیا گیا۔ روس نے اس منصوبے پر کئی بار اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور اس منصوبے کو اپنی بقاء کے لئے خطرہ قرار دیا۔ روس کا موقف ہے کہ یوکرائن کو ناٹو میں شامل کرنے کا مطلب ہے کہ ناٹو روسی سرحد کے ساتھ فوجی اڈے بنا کر روس کی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ بن سکتا ہے جو کہ کسی طور پر قابل قبول نہیں۔ لیکن امریکہ اپنے منصوبے پر مستقل مزاجی سے کام کرتا رہا اور یہی تنازعہ یوکرائن پر روس کے حملے کا سبب بنا۔

پاکستان کا مسئلہ تب بنا جب 23 فروری کو سابق وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس والے دن صدر پوتن نے یوکرائن پر حملہ کیا۔ امریکہ نے روس کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مذمتی قرارداد پاس کرنے کی کوشش کی۔ جس میں پاکستان غیر جانبدار رہا۔ انڈیا اور چین بھی ووٹنگ سے غیر حاضر رہے۔ اس کے بعد امریکا نے مختلف ذرائع سے پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ روس کے خلاف امریکہ کا ساتھ دے۔ افغان جنگ کے دونوں فیزوں میں پاکستان نے امریکہ کی مدد کی۔

لیکن اس دفعہ حالات مختلف ہیں۔ روس نے یوکرائن پر حملے کے بعد کئی دفعہ کھلے عام دھمکی دی ہے کہ اگر روس پر ناٹو کی کی طرف سے کسی قسم کا حملہ کیا گیا تو یہ تیسری جنگ عظیم کی شروعات ہوں گی۔ اور روس اس جنگ میں اپنے ایٹمی ہتھیار استعمال کرے گا۔ ایک طرف امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ ہے جبکہ دوسری طرف روس کو چین، ایران اور تیسری دنیا کے تیل کے وسائل سے مالا مال کچھ ممالک کی خاموش حمایت بھی حاصل ہے۔ روس کے خلاف سلامتی کونسل میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے امریکی صدر جو بائیڈن کی فون کال کا نہ تو سعودی عرب نے جواب دیا اور نہ ہی عرب امارات نے۔

ہندوستان نے بھی روس کی مذمت سے انکار کر دیا ہے۔ جنوبی افریقہ اور برازیل بھی روسی کیمپ کی طرف مائل ہیں۔ روس نے اپنا تیل اور گیس روبل یا سونے کے بدلے بیچنے کا اعلان کیا۔ یورپ کی معیشتوں کا زیادہ تر دار و مدار روس کے گیس اور تیل پر ہے۔ اس سے 1970 سے لے کر آج تک دنیا میں تیل کے کاروبار کو صرف امریکی ڈالر میں کرنے کے معاہدہ کو زبردست دھچکا لگے گا۔ امریکہ کی پوری معیشت پٹرول ڈالر ایگریمنٹ کے گرد گھومتی ہے۔

اس جنگ میں نہ روس کے پاس زیادہ آپشن ہیں اور نہ امریکہ کے پاس۔ دونوں میں سے جو بھی پیچھے ہٹا تو یہ اس ملک کی سالمیت کے لئے نقصان دہ ہو گا۔ ایک سروے کے مطابق روس کے 88 فیصد لوگ اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے میں صدر پوتن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ روس کے پرانے کمیونسٹ بھی اس کے ساتھ ہیں۔ روس ایک دفعہ پھر سوویت یونین والی پوزیشن کے حصول میں لگا ہے۔

اگر امریکہ روس کو یوکرائن میں روکنے میں ناکام ہوتا ہے تو اس سے پورے یورپ میں ناٹو کے وجود پر سوالیہ نشان لگے گا۔ اور امریکہ کے لئے یورپ کو ہاتھ میں رکھنا نہ صرف ناممکن ہو جائے گا بلکہ اس کو یورپ سے نکل کر براعظم امریکہ تک محدود ہونا پڑے گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکہ کا موجودہ شکل میں برقرار رہنا ناممکن ہو گا۔ اگر امریکہ اور ناٹو براہ راست روس سے یوکرائن کے معاملے پر الجھتے ہیں تو روس کی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کی استعمال کی دھمکی کو سنجیدہ لینا ہو گا۔ اس ضمن میں روسی صدر کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں۔

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے روسی افواج کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی جوہری فورسز کو ’خصوصی‘ الرٹ پر رکھیں۔

دنیا میں پوتن کے اس بیان کو بڑے پیمانے پر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کسی بھی جارحیت یا حادثے کی صورت میں دنیا ایٹمی جنگ کے لپیٹ میں آ سکتی ہے۔ دنیا چونکہ ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے اس لیے پوری دنیا پر اس کے اثرات ہوں گے۔ پاکستان اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے اس جنگ سے دور نہیں رہ سکتا۔ اگر پاکستان چاہے بھی تو بھی نہیں۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں۔

پاکستان دنیا کے ان 9 ممالک میں شامل ہے جن کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ ان میں روس، امریکہ، فرانس، برطانیہ، چین، انڈیا اسرائیل اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ یوکرائن میں جو اگ لگی ہے وہ کسی بھی وقت تیسری عالمی جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ اس صورت میں پاکستان کا غیر جانبدار رہنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گا۔ اب جبکہ چین اپنا وزن روس کے پلڑے میں ڈال چکا ہے۔ تو اس صورت میں پاکستان کیا کرے گا۔ چین کے خلاف جانا ان حالات میں ناممکن ہے۔

اور ماضی کی طرح امریکہ کو سپورٹ کرنا بھی نا ممکن ہے۔ امریکہ کی پوری کوشش ہوگی کہ اس ممکنہ جنگ میں اگر پاکستان کو اپنی حمایت میں نہ لے سکے تو کم از کم پاکستان سے یہ گارنٹی ضرور لے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار اس جنگ میں استعمال نہ ہوں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ایک طرف جبکہ دوسری طرف روس اور اس کے اتحادی پاکستان کے جوہری اثاثوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ آنے والی ممکنہ تیسری جنگ عظیم میں ان 9 جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کا کردار سب سے زیادہ ہو گا۔

پاکستان کو روس اور امریکہ کے درمیان جاری یوکرائن کے جنگ سے اپنے آپ کو الگ رکھنا ہو گا۔ اس وقت امریکہ پاکستان کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گا۔ جبکہ دوسری طرف روس چین کی مدد سے پاکستان کے ساتھ فوجی تعلقات بڑھانے کی کوشش جاری رکھے گا۔ مستقبل میں پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ اس دفعہ پاکستان کو بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہو گا۔ کیونکہ اس بار کسی بھی غلطی کی گنجائش نہیں۔ عسکری اور سیاسی قیادتوں کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہو گا۔ ورنہ بقول شاعر کہ ”تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments