اوکاڑہ میں احمدی نوجوان کا قتل: ’ہم سے تو جینے کا حق ہی چھین لیا گیا‘

اعظم خان - بی بی سی اردو، اسلام آباد


35 برس کے عبدالسلام نے اپنے گھر کے سامنے اپنے تین برس کے بیٹے کو اٹھایا ہوا تھا اور ان کا دوسرا پانچ سال کا بیٹا ان کی انگلی تھامے کھڑا تھا کہ اچانک ان پر حملہ ہوا۔ تیز دھار آلے کے پے درپے وار ہونے کے بعد عبدالسلام گود میں اٹھائے اپنے چھوٹے بیٹے سمیت زمین پر گر پڑے۔

اسی حملے کے دوران ایک چھرے کا ایک وار اُن کے پانچ سال کے بیٹے کی پنڈی پر بھی جا لگا جس سے وہ بھی زخمی ہو گیا۔

یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ عبدالسلام کی آنتیں باہر نکل آئیں اور ان کے گردے بھی متاثر ہوئے جس سے موقع پر ہی ان کی موت واقع ہو گئی۔

یہ تفصیلات گذشتہ روز کی شام پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر اوکاڑہ میں قتل ہونے والے عبدالسلام کے ماموں ظفر اقبال نے بی بی سی اردو کو بتائیں۔

ظفر اقبال کے مطابق عبدالسلام زمیندار تھے اور اُن کی سات برس قبل شادی ہوئی تھی۔ ظفر اقبال کے مطابق عبدالسلام کے تین بچے ہیں اور ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کی عمر فقط ڈیڑھ برس ہے جو ابھی اس حادثے کی سنگینی سے لاعلم ہے اور اپنے مقتول باپ کی میت کی موجودگی میں گھر کے صحن میں اپنے کھیل کود میں مصروف ہے۔

ظفر اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ جس علاقے میں وہ رہ رہے ہیں یہاں پر ان کی کمیونٹی کے پانچ سے چھ گھر ہیں اور ان کے خلاف طویل عرصے سے مذہبی منافرت پھیلائی جا رہی تھی اور انھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔

ظفر اقبال کے مطابق ملزم کا تعلق ایک مذہبی سیاسی جماعت سے ہے جس کے کارکنوں نے 12 ربیع الاول کو ان کے علاقے میں ایک بڑا جلوس نکالا تھا۔ ظفر نے بتایا جب یہ جلوس ان کے گھروں کے قریب پہنچا تو صورتحال اس وقت کشیدہ ہوگئی جب انھوں نے احمدی کمیونٹی کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

یہ بھی پڑھیے

احمدی برادری کی مشکلات: ’وہ جو پہلے دوست تھے وہی ہم پر تھوک دیتے‘

نکاح نامے میں ختم نبوت کا کالم: ’ہمارے لیے تھوڑی سی جگہ تھی وہ بھی ختم ہو جائے گی‘

پاکستان میں احمدی برادری کی کم ہوتی آبادی: ’پڑوسی کہتے کہ اِن سے بات مت کریں ورنہ منھ پلید ہو جائے گا‘

مقتول عبدالسلام کے ماموں نے بتایا کہ پولیس نے اس وقت صورتحال کو سنبھال لیا جس سے ان کے گھر بچ گئے۔

ظفر اقبال کے مطابق خود ان پر بھی ایک جان لیوا حملہ ہو چکا ہے، جس میں وہ اگرچہ بچنے میں کامیاب ہوئے مگر اس کے بعد انھیں جیل بھی جانا پڑا۔ ان کے مطابق اب تو ایسا لگتا ہے کے ہم سے جینے کا بھی حق چھین لیا گیا ہے۔ ہم بے یارومددگا ہو گئے ہیں۔

ظفر اقبال نے بتایا کہ ان کا مقتول بھانجا بہت اعلیٰ اخلاق کا مالک تھا۔ ان کے مطابق وہ ہر کسی کا ہمدرد اور دوست تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے قتل کا سُن کر بڑی تعداد میں لوگ ان کے گھر آئے اور ملزم سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

https://twitter.com/SaleemudDinAA/status/1526608346379214849?s=20&t=waavG7ZHHZiPTa-DfZlKsw

ان کے مطابق اس آگ پر پانی بجھانے کا یہی اچھا طریقہ ہو سکتا تھا کہ مقامی لوگ جرم کی پشت پناہی نہ کریں اور قاتلوں کو قرار واقعی سزا مل سکے۔

ایف آئی آر میں کیا بتایا گیا؟

اوکاڑہ پولیس نے عبدالسلام کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ یہ مقدمہ مقتول کے ماموں ظفر اقبال کی مدعیت میں ہی درج کیا گیا ہے، جنھوں نے پولیس کو بتایا کہ ان کے بھانجے کو مذہبی منافرت کی بنیاد پر ایک جنونی ملزم نے قتل کیا۔

ایف آئی آر کے مطابق ظفر اقبال نے پولیس کو وجہ عناد بتاتے ہوئے کہا چونکہ ان کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہونے کی وجہ سے مقامی مدرسے سے ایک روز قبل فارغ التحصیل ہونے والے ملزم حافظ علی رضا نے چھروں کے وار کر کے عبدالسلام کو قتل کیا۔

ظفر اقبال نے پولیس کو بتایا کہ مذہبی منافرت کی بنا پر ان کے بھانجے کا قتل ناحق کیا گیا ہے۔ درخواست گزار کے مطابق ملزم نے چھرے سے ان پر متعدد وار کیے، جس سے ان کی موت واقع ہو گئی۔

ان کے مطابق ملزم موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ پولیس نے بعد میں عبدالسلام کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم کی گرفتاری کا بھی دعویٰ کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments