پنجشیر میں طالبان کے خلاف کس نے گوریلا جنگ چھیڑی


پنجشیر
پنجشیر میں فی الحال مقامی سطح پر لڑائی جاری ہے
افغانستان کی طالبان حکومت پر پنجشیر کے شمالی علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ صوبہ پنجشیر میں طالبان حکومت کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔

پنجشیر کے ایک مقامی رہائشی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ایک نہتے بزرگ رشتہ دار کو طالبان کے ایک گروپ نے گولی مار دی۔

ایک اور رہائشی نے بتایا کہ طالبان انکے پڑوسی کو اس وقت تک مارتے رہے جب تک کہ وہ بے ہوش نہیں ہو گیا۔

تاہم طالبان کے ایک مقامی ترجمان نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں یا کسی جانی نقصان کی تردید کی ہے۔

طالبان نے گزشتہ سال اگست میں افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔

پنجشیر میں جاری لڑائی فی الحال مقامی سطح پر جاری ہے لیکن ایسا نہیں لگتا کہ یہ ملک پر طالبان کے کنٹرول کو چیلنج کر سکتی ہے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کو یہاں سے مسلسل مسلح مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

نوے کی دہائی میں طالبان کی حکومت کے پہلے دور کے دوران پنجشیر طالبان مخالف جدوجہد کا گڑھ تھا۔

حالیہ دنوں میں، قومی مزاحمتی محاذ سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں نے علاقے میں طالبان کی سیکورٹی فورسز کے خلاف ایک گوریلا آپریشن شروع کیا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے طالبان نے پنجشیر میں بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کو تعینات کر دیا ہے۔

وادی پنجشیر: طالبان سمیت بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کا آخری گڑھ

احمد شاہ مسعود کے مقبرے کے نزدیک طالبان کے رقص سے نسلی تناؤ میں اضافہ

کیا پنجشیر وادی طالبان کی پیش رفت کا مقابلہ کر سکے گی؟

افغانستان

نوے کی دہائی میں طالبان کی حکومت کے پہلے دور کے دوران پنجشیر طالبان مخالف جدوجہد کا گڑھ تھا

طالبان کے خلاف مہم

این آر ایف کی قیادت احمد مسعود کر رہے ہیں جو مشہور جنگجو احمد شاہ مسعود کے بیٹے ہیں، جنہوں نے طالبان کے خلاف ایک بھرپور مہم کی قیادت کی تھی تاہم افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔

این آر ایف کوافغان فوج کے کچھ سابق کمانڈوز کی حمایت بھی حاصل ہے۔

مقامی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ لڑائی مذہبی تنازع پر شروع ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ طالبان نے پنجشیر سے ایک مولانا کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جنہوں نے حکم دیا تھا کہ عید طالبان کے مقرر کردہ دن پر نہیں بلکہ اس کے ایک دن بعد منائی جانی چاہیے۔

اس کے بعد طالبان کی فورسز پر حملے ہوئے جن میں مبینہ طور پر متعدد فوجی مارے گئے۔ تاہم طالبان حکام نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔

لڑائی میں ہلاکتوں کی تعداد کیا تھی اور لڑائی کتنی شدید تھی اس بارے میں کوئی ٹھوس معلومات نہیں ہیں۔

طالبان جھڑپوں کو زیادہ اہمیت دیتے نظر نہیں آرہے جبکہ این آر ایف کے دعوے اکثر مبالغہ آرائی پر مبنی ہوتے ہیں۔

دو مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجشیر میں طالبان کے ہاتھوں تقریباً پندرہ غیر مسلح شہری مارے گئے ہیں۔

افغانستان

پنجشیر میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں ٹھوس معلومات حاصل کرنا مشکل ہے

پنجشیر کے لوگوں کا کیا کہنا ہے؟

ابتدائی جھڑپیں عبداللہ خیل کی وادی کے ارد گرد ہوئیں حالانکہ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہاں لڑائی اب ختم ہو گئی ہے۔

مقامی باشندوں نے بتایا ہے کہ دیہات کے سینکڑوں لوگ طالبان جنگجوؤں کی آمد کے پیش نظر اپنے گھر بار چھوڑ کر پہاڑوں کی جانب جا رہے ہیں۔

ایک شخص نے بتایا کہ انکے ایک بزرگ رشتہ دار گھر پر رُک گئے تھے۔ طالبان جنگجوؤں نے انھیں حکم دیا کہ وہ انھیں این آر ایف جنگجوؤں کا گھر دکھائیں۔ انھوں نے بتایا کہ انکے بزرگ رشتہ دار اور ایک اور شخص کو گولی مار دی گئی۔ انھوں نے کہا کہ ‘وہ نہتے تھے اور این آر ایف سے ان کا سے کوئی تعلق نہیں تھا’۔

پنجشیر میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں ٹھوس معلومات حاصل کرنا مشکل ہے لیکن بی بی سی نے لوگوں کی لاشوں کی تصاویر دیکھی ہیں۔

بی بی سی نے طالبان انتظامیہ سے علاقے کا دورہ کرنے کی اجازت مانگی تھی جسے مسترد کر دیا گیا۔

علاقے کے ایک اور رہائشی نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان کے سرچ آپریشن کے دوران ان کا ایک رشتہ دار گھبرا گیا اور ان سے بھاگنے لگا۔ اسے بھی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیو فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ طالبان بڑی تعداد میں لوگوں کو حراست میں لے رہے ہیں۔

مقامی لوگوں نے بی بی سی سے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ سینکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انھوں نے مبینہ طور پر کہا کہ این آر ایف ارکان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کے لیے کچھ بزرگ لوگوں کو بھی تھوڑی دیر کے لیے حراست میں لیا گیا تھا۔

عبداللہ خیل میں ایک مقامی ذرائع نے بتایا کہ گرفتار اور حراست میں لیے گئے بیشتر افراد کو اب طالبان نے رہا کر دیا ہے۔

پنجشیر

طالبان کا کہنا ہے صوبے میں کوئی لڑائی نہیں ہوئی

طالبان کا کیا کہنا ہے

ایک مقامی شہری نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ایک بزرگ پڑوسی کا نام بھی طالبان فہرست میں تھا ان پر این آر ایف یعنی قومی مزاحمتی محاذ میں شامل ہونے کا الزام ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ جب کہ اس شخص نے اس الزام اور ہتھیار رکھنے کی تردید کی، انکے پیروں پر مارا گیا، گھونسے مارے گئے اوراس وقت تک مارا پیٹا گیا جب تک کہ وہ بے ہوش نہیں ہو گئے۔’

پنجشیر میں طالبان کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ صوبے میں کوئی لڑائی نہیں ہوئی ہے۔ تاہم طالبان کے ایک اور مقامی اہلکار نے پہلے افغانستان کے طلوع نیوز کو بتایا تھا کہ لڑائی میں طالبان کے چھ ارکان مارے گئے ہیں۔

جنوبی صوبہ ہلمند کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ پنجشیر سے 15 جنگجوؤں کی لاشیں لائی گئی ہیں۔ پنجشیر کے دیگر علاقوں سے جھڑپوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

اسی طرح کی اطلاعات صوبہ بغلان میں اندراب اور شمالی صوبہ تخار کے وارساز علاقے سے بھی آئی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32538 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments