مقصد ریاست سے قرارداد مقاصد تک


کہتے ہیں کہ پاکستان بننے سے چند دن پہلے قائداعظم نے کوئی تقریر کی تھی، جسے جناح کی گیارہ اگست والی تقریر کہا جاتا ہے، اس تقریر کے مطابق پاکستان کوئی مذہبی ریاست بننے نہیں جا رہا تھا، سیاست اور مذہب کو الگ الگ بیان کیا گیا تھا، تمام مذاہب اور عقائد کے ماننے والوں کو یہ باور کروایا گیا تھا کہ پاکستان ان کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ہوگی۔

پھر پاکستان بنا، کچھ عرصے کے بعد ڈاکٹروں نے جناح کی طبیعت ناسازی کی بنا پر انہیں کسی صحت افزا مقام پر منتقل ہونے کی تلقین کر دی، اب جناح کو کہاں منتقل کیا جائے؟ مشاورت شروع ہو گئی، فیصلہ ہوا کہ انہیں بلوچستان کے ایک شہر زیارت میں بھیج دیا جائے جہاں آج 75 سال کے بعد بھی پہنچنا مہم سے کم نہیں۔

وہاں قیام کے دوران شاید انہیں یہ بھی بتایا گیا ہو کہ باہر نکلنے سے گریز کیجیے گا یہاں جنگلی جانور بھی پائے جاتے ہیں۔ جناح رخصت ہوئے اور شاید کسی نے ان کی 11 اگست والی تقریر کا ورق ان کے کفن میں لپیٹ کر منوں مٹی تلے دبا دیا۔

مارچ 1949 میں قرارداد مقاصد پیش کی جاتی ہے۔ قرار داد مقاصد پاس ہوتی ہے اور جناح کا نظریہ فیل۔ لیاقت علی خان جبری رخصت پر جنت کا رخ کرتے ہیں، ملک طوائف الملوکی کا شکار ہو جاتا ہے، جنرل ایوب اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور کئی سال تک بلا شرکت غیرے اس مملکت خدا داد پر فیلڈ مارشل بن کر حکمرانی کرتے ہیں۔

حضرت بھٹو صاحب تشریف لاتے ہیں اور سیاسی چال کے طور پر دائیں بازو کے مخالفین کو خوش کرنے کے لئے پٹاری میں سے شعبدے نکالتے ہیں اور ملک میں چھوڑ دیتے ہیں۔ جب تک یہ ریاست ہے نہ ہی بھٹو مرے گا اور نہ ہی ان کا شعبدہ۔

1977 میں ”پی این اے“ کی نظام مصطفی تحریک کا آغاز ہوتا ہے، وہی لوگ اسی وزیراعظم کو جبری رخصت پر بھیج دیتے ہیں۔ جنرل حضرت ضیا کی آمد ہوتی ہے جو نظام مصطفی کے نام پر ریفرنڈم میں بھاری مینڈیٹ حاصل کر لیتے ہیں اور اہل کتاب کے ساتھ مل کر جہاد عظیم کا آغاز کرتے ہیں۔ اس کے بعد کبھی نواز شریف تو کبھی بے نظیر اور کبھی بے نظیر تو کبھی نواز شریف۔

نواز شریف اور ان کے حواری بے نظیر پر مذہبی فتوے لگاتے ہیں اور بے نظیر، بھٹو کے 1973 کے آئین میں مذہبی شقوں کا حوالہ دے کر کاؤنٹر سٹرائیک کرتی ہیں۔ مشرف آتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ اس چکر میں کافی گند مچ چکا ہے، اس کی تھوڑی بہت صفائی درکار ہے۔

ایم ایم اے تشکیل دی جاتی ہے اور انتہائی بھونڈے انداز میں کاؤنٹر نریٹیو دیتے دیتے ملک شدید دہشت گردی کی لپیٹ میں آ جاتا ہے اور مشرف بیماریوں کی لپیٹ میں، آج کل عربوں کے مہمان ہیں۔

آج حضرت عمران خان کا دور دورہ ہے جو ملک کو ریاست مدینہ بنانے کا عہد لیے نئے پاکستان کی تشکیل کے لئے میدان میں اترے، جس طرح گزشتہ 70 سالوں میں قرارداد مقاصد کی ”ق“ تک رسائی ممکن نہ ہو سکی تو صرف چند سالوں میں ریاست مدینہ کے چکر میں اپنی ناف چڑھا بیٹھے، آج کل آزاد پاکستان بنانے کے درپے ہیں، ان کا بیانیہ کتنا مضبوط اور دیرپا ہو گا یہ تو وقت ہی بتائے گا، البتہ امر بالمعروف کی طاقت اور لطف، یہ کافر نما لوگ کیا جانیں؟

ایک بات واضح ہے کہ اس چھوٹی سی ملکی تاریخ میں بے شمار حکومتوں اور تحریکوں کے آغاز اور اختتام کا سہرا ”قرارداد مقاصد“ کو ہی جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments