انسانی ذہانت کے تقریباً برابر مصنوعی ذہانت کی تیاری میں کامیابی


کیا سائنس ”انسان“ کو دریافت کر پائے گی، یا پھر وہ ”مصنوعی انسان“ کی تیاری پر ہی اپنا وقت کھپاتی رہے گی، لیکن موجودہ دور میں بات ”مصنوعی ذہانت“ کی تیاری تک پہنچ چکی ہے۔ سائنس ”انسان“ کو اب تک کس قدر کھوج چکی ہے یہ سوال اپنی نوعیت اور مفہوم کے اعتبار سے سائنس سے زیادہ ”فلسفیانہ“ حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں تک انسان کی تخلیق کا تعلق ہے تو اس حوالے سے ایک زمانے تک سائنس کا ادراک فلسفیانہ سوچ کے زیر اثر رہا ہے لیکن رفتہ رفتہ سائنس اپنے خیالات اور نظریات بھی پیش کرنے لگی اور اس طرح سائنس کی ترقی کا وہ دور شروع ہوا جو آج تک تھکا نہیں ہے اور بغیر سستائے یہ آگے بڑھا رہا ہے۔

جیسا کہ عالمی شہرت یافتہ سائنسدان ”اسٹیفن ہاکنگ“ نے اپنی بہت سی سائنسی بحثوں میں اس امر کا انکشاف کیا ہے کہ ”ایک وقت آئے گا جب“ مصنوعی ذہانت ”انسانوں کی جگہ لے لے گی“ ۔ اپنے ایک انٹرویو میں عالمی شہرت یافتہ سائنسدان ”اسٹیفن ہاکنگ“ کا مصنوعی ذہانت کے حوالے سے کہنا تھا کہ ”آرٹیفیشل انٹیلی جنس“ بہت جلد یہ مقام حاصل کر لے گی کہ وہ مکمل طور پر انسانوں کی جگہ لے کر ایک نئی قسم کی زندگی کا آغاز کرے۔ لیکن ایسا کب تک ممکن ہو سکے گا، اس حوالے سے اسٹیفن ہاکنگ کوئی حتمی وقت دینے سے قاصر رہے ہیں جبکہ اس ضمن میں اسٹیفن ہاکنگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ”جب لوگ“ اینٹی وائرسز ”تیار کر سکتے ہیں تو پھر“ مصنوعی ذہانت ”بھی تیار کر سکتے ہیں“ ۔ یعنی وہ اپنے آپ میں بہتری لاکر خود کو تیار کرے گا۔ غالباً 2016 میں اسٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا کہ مصنوعی ذہانت کی تیاری کے بعد یہ خود سے اپنی ایسی ”خواہش“ دریافت کر لے گی جو انسانیت سے عین متصادم ہوگی۔

جہاں تک مصنوعی ذہانت کے حوالے سے اسٹیفن ہاکنگ کے انکشافات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے گزشتہ روز ذرائع ابلاغ میں یہ خبر سامنے آئی ہے۔ گوگل کے ادارے ڈیپ مائنڈ نے دعویٰ کیا ہے کہ آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس (اے جی آئی) کو انسانوں کی ذہانت کے برابر لانا تقریباً ممکن ہو گیا ہے۔ ڈیپ مائنڈ کے ڈاکٹر نانڈو ڈی فریٹس نے اپنے دعوے میں کہا کہ ایک ایسا اے آئی سسٹم متعارف کرایا گیا ہے جو بڑے پیمانے پر پیچیدہ کام یعنی شاعری لکھنے سے لے کر بلاکس سے شکل بنانے وغیرہ کو مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ گوگل کے ادارے ڈیپ مائنڈ کے اس دعوے مطابق ( Gato AI ) نامی اس سسٹم کو انسانی ذہانت کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

اس سے پہلے کہ بات کو مصنوعی ذہانت کی تیاری کے حوالے سے آگے بڑھائیں پہلے عالمی شہرت یافتہ سائنسدان ”الکسس کیرل“ کی طرف رجوع کرتے ہیں جو بالا سطور میں اٹھائے گئے سوال کے جواب میں اپنی ایک ٹھوس رائے رکھتے ہیں جبکہ یہاں یہ واضح رہے کہ ان کی رائے ایک مکمل ریسرچ پیپر کے طور پر موجود ہے اور یہاں اس کی مختصر سے مختصر ترین تلخیص پیش کی جا رہی ہے۔ نوبل انعام یافتہ سائنسدان الکسس کیرل کے مطابق انسان ایک انتہائی پیچیدہ اور ناقابل تقسیم کل ہے۔

کوئی چیز بھی آسانی کے ساتھ اس کی نمائندگی نہیں کر سکتی۔ کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے جس کے ذریعہ ہم بیک وقت اس کی پوری ذات کو اس کے اجزاء اور بیرونی دنیا کے ساتھ اس کے تعلقات کو بخوبی سمجھ سکیں جبکہ اپنی ذات کا تجزیہ کرنے کے لئے ہمیں مختلف فنی مہارتوں سے مدد لینی پڑتی ہے۔ وہ انسان جس سے خصوصی ماہرین آشنا ہیں، حقیقی انسان سے بہت دور ہوتا ہے۔ وہ ( ان کی تحقیق) ایک مفروضے کے سوا اور کچھ نہیں جو مختلف مفروضات پر مشتمل ہے۔ اور جن کو ہر ایک علم کی فنی مہارتوں نے پیدا کیا ہے۔

بلا شبہ انسانیت نے اپنی حقیقت کو معلوم کرنے کی بڑی زبردست کوشش کی ہے، آج ہمارے پاس تمام زمانوں کے سائنس دانوں فلسفیوں، شاعروں اور بڑے بڑے صوفیوں کے مشاہدات کا ایک انبار موجود ہے مگر ہم اپنی ذات کے صرف چند پہلوؤں کو دریافت کر سکے ہیں، ہم انسان کو اس کی کلی حیثیت میں بخوبی سمجھ نہیں سکے ہیں۔ ہم اس کو الگ الگ حصوں سے مرکب جانتے ہیں اور یہ حصے بھی ہمارے اپنے طریقوں کے پیدا کردہ ہیں۔ ہماری اندرونی دنیا کے وسیع علاقے اب تک نا معلوم ہیں۔ یعنی شعور اور دماغ کے درمیانی تعلقات اب تک ایک راز بنے ہوئے ہیں۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ ایک انسان کے متعلق تمام علوم کی مہارت بھی ناکافی ہے اور یہ کہ اپنی ذات کے متعلق ہمارا علم اب تک ابتدائی حالت میں ہے۔ (Man The Unkhown P۔ 16,19 )

سائنسی تخلیقات اور دریافت میں اینٹی وائرسز کی تیاری یقیناً ایک بہت بڑا سائنسی انقلاب ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سائنس انسانی زندگی کے خاتمہ یعنی ”موت“ کا توڑ تلاش کر لے گی جبکہ مذہب اور فلسفہ اس حوالے سے ایک طویل بحث و مباحثہ کے بعد تقریباً ایک پیج پر آچکے ہیں ہیں، تاہم سائنس اس ضمن میں اپنا سر کھجانے میں مصروف عمل ہے اور انسانی زندگی کے خاتمہ یعنی موت کے توڑ کی تلاش انسان کو ”مصنوعی انسان“ کی تیاری پر مسلسل اکسا رہی ہے اور اگر بات ”تسخیر کائنات“ کی ہے تو ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں لیکن اس کے لیے ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔

لیکن ایسے میں ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر فلسفہ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ”کیا مصنوعی انسان“ کی تشکیل کے بعد سائنس کو ”مصنوعی دنیا“ کی تشکیل کی بھی ضرورت پیش آئے گی ”۔ جیسا کہ اسٹیفن ہاکنگ کا کہنا ہے کہ“ ایک نیا خلائی پروگرام تیار ہونا چاہیے جس کے ذریعے ایسے مناسب سیاروں کی تلاش کی جائے جہاں انسانی زندگی گزاری جا سکے۔ ہم ناقابل واپسی مقام پر پہنچ چکے ہیں جبکہ یہ دنیا ہمارے لیے سکڑتی جا رہی ہے اور آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یعنی ہم خود اپنی تباہی کا باعث بننے جا رہے ہیں ”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments