قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کی تنظیم اور شہباز شریف کی ٹیم


وزیر اعظم پاکستان کو سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کے مستقبل کو لاحق ان خطرات کے لیے بھی سرگرم ہونا چاہیے جو قدرتی محرکات کے نتیجے میں متحرک ہو سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تنظیمیں مختلف سطح پر درپیش مختلف مسائل کا جائزہ لے رہی ہیں۔ محققین کے مطابق ممکنہ قدرتی آفات کی فہرست میں ”پانی کی قلت“ ، ”دریاؤں کا سیلاب“ ، ”زلزلہ“ ، ”شدید گرمی“ ، ”سونامی“ ، ”آتش فشاں پہاڑ کا پھٹنا“ لینڈ سلائیڈنگ ”،“ بارشوں کا شہروں میں سیلاب کا باعث بننا ”جنگلات کی آگ“ اور جغرافیائی اعتبار سے کرہ ارض پر واقع مختلف ممالک کو لاحق مختلف خطرات شامل ہیں۔

پاکستان بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہیں جنھیں انتظامی مسائل کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات کا خطرہ بھی لاحق ہے۔ کرونا وائرس وبا اس بات کی واضح مثال ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہیلتھ کیئر کی سہولیات کا فقدان ہو گیا۔ لاکھوں لوگ ہلاک ہو گئے۔ ملک گیر ویکسینیشن مہمات چلائی گئیں۔ غرض یہ کہ جو کچھ بن پڑتا تھا کیا۔ اس کے نتیجے میں پوری دنیا میں بیروزگاری بڑھ گئی، کاروباری زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔ تعلیمی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں۔ زندگی کا تحفظ کھو گیا تھا۔

اسی طرح جب زلزلہ تباہی کا سبب بنتا ہے جانی اور مالی نقصانات ہوتے ہیں یا سیلاب سے دیہاتی زندگی متاثر ہوتی ہے تو حکومت کے ہمراہ پوری قوم ہونے والے نقصانات پر رنجیدہ ہوتی ہے۔ اور کہیں نہ کہیں یہ خلش رہ جاتی ہے کے اگر انتظامات بہتر ہوتے تو اس واقعہ کو ہونے سے پہلے روکنا ممکن تھا۔ آج کل زبان عام پر گرمی کا شکوہ سب سے زیادہ ہے۔ ہمیں بڑھتا ہوا درجہ حرارت اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ آنے والے وقتوں میں اس کی شدت میں اضافہ ہو گا۔

انسان تو انسان، مال مویشی بھی گرمی کی شدت میں اضافے سے مساوی طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دو دنوں سے بلوچستان کے شیرانی ڈسٹرکٹ میں جنگلات کی آگ کے بارے میں خبریں بتائی جا رہی ہیں۔ جس میں بے شک عسکری و حکومتی ادارے بھی امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ امید کی جا رہی ہے ٹیمیں درکار امدادی مشینری اور سامان کے میسر ہونے سے جلد ہی صورت حال پر قابو پا لیں گی۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو اب ”اربن فلڈنگ“ بھی بڑے شہروں کے مسائل میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے نتیجے میں بے موسم بارشیں بھی متوقع ہیں۔ اور پاکستان میں لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی بارش کے پانی کو استعمال کرنا یا اس کے اخراج کا ٹھیک طریقے سے بندوبست کرنا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ حکومت کو اس بار مون سون سے قبل پیغامات اور نوٹسز کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔ لاہور اندرون شہر سمیت دیگر آبادیوں میں بھی ایسے مکانات یا بوسیدہ عمارتیں خواہ وہ محکمہ اوقاف کے زیر انتظام تاریخی ورثہ کا حصہ ہی کیوں نہ ہوں۔

ایسے تمام مکانات و عمارات جو زیادہ بارش سے متاثر ہو سکتے ہیں اور جانی یا مالی نقصان کا خدشہ ہے۔ انھیں قبل از وقت تعمیراتی یا مرمتی کام مکمل کرانے کی ہدایت کی جائے۔ اور اگر حکومت انھیں لاگت کا کچھ فیصد بطور تعاون دے سکے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ جن اداروں کو اور ان کے ملازمین کو پنشن یا رجسٹریشن سے متعلق مسائل ہیں ان کے مسائل بھی حل کیے جانے چاہئیں۔

اب جب کہ یہ بات معلوم ہے کہ ہمیں ان آفات سے کوئی تباہی ہونے سے قبل وہ انفراسٹرکچر فراہم کرنا ہے جو ان قدرتی آفات کے اثرات کو کم کر سکے اور ان سے محفوظ رہنے کے لیے مزاحمت فراہم کر سکے۔ تاکہ کم سے کم جانی یا مالی نقصانات ہوں اور زندگی اتنی بری طرح متاثر نہ ہو جس سے ہم پچھتاوے کا شکار ہو جائیں۔ ورلڈ بینک، یونائیٹڈ نیشن ڈیزاسٹر ریلیف پروگرام اور یورپی یونین کے تعاون سے ایک عالمی تنظیم ایسے تمام قدرتی حادثات سے نمٹنے اور مزاحمتی یا امدادی انفراسٹرکچر فراہم کرنے کے لیے رکن ممالک کی رہنمائی کر رہی ہے۔

اس تنظیم میں امریکہ، آسٹریلیا، جرمنی سمیت تیرہ ممالک شامل ہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت بھی اس تنظیم کا رکن ملک ہے۔ یہ تنظیم امدادی کارروائیوں اور پیش خیمہ امدادی کاموں کی مد میں فنڈز کی ترسیل کو ممکن بناتی ہے اور آنے والے وقت میں ناگہانی صورت حال میں مناسب مشینری اور سہولتوں کی دستیابی ممکن بناتی ہے۔ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں بھی یہ تنظیم حکومتی اور نجی دونوں سطحوں پر متحرک ہے۔ کہیں حکومت کے اشتراک سے اور کہیں نجی تنظیموں کے تعاون سے یہ مختلف مسائل پر ریلیف فراہم کرنے کے لیے سر گرم عمل رہتی ہے۔

وزیر اعظم کو چاہیے این ڈی ایم اے کی سربراہ ٹیم کے ہمراہ حکومتی سطح پر ایسے پبلک انفارمیشن آفیسرز تعینات کریں جو ایسے تمام مسائل خصوصاً بارشوں سے قبل بوسیدہ عمارتوں کی مرمت، بڑے شہروں خصوصاً لاہور، کراچی میں ایسے علاقے جہاں نکاسی آب کے انتظامات ٹھیک نہیں ہیں ان کا جائزہ لیں اور کسی مشکل کے پیدا ہونے سے پہلے عوام کو بروقت نوٹسز دیں اگر پرائیویٹ پراپرٹی ہو اور مالک مرمت کا کام نہ کروا سکتا ہو تو اس کی مدد کی جائے۔

تمام پبلک انفارمیشن آفیسرز کی ذمہ داری میں شامل ہو کہ وہ نہ صرف بارش حتیٰ کہ ”ہیٹ ویو“ ، حفظان صحت کے اصول، اپنے گھر اور علاقے کی صفائی اور ایسے تمام موضوعات سے متعلق پبلک سروس میسجز کے ذریعے عوام کو ان کی ذمہ داری کا احساس بھی دلائیں اور انھیں حفاظتی اقدامات سے حاصل ہونے والے فوائد کے متعلق معلومات بھی فراہم کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments