جدید خیالات نے کروٹیں بدلنا شروع کیں تو نئی دنیا، نئے لوگ، نئے رنگ اور نئے خیالات نے ہر طرف اپنے قدم جمانے شروع کیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پرانی تہذیب اور نئی تہذیب کے لوگوں میں اختلاف رائے جنم لینا شروع ہو گیا۔ جس نے ایک چار دیواری کے اندر رہنے والے گھرانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بکھیر دیا۔ آج تک اس مسئلے کا حل کسی نے نہیں دیکھا کہ کیا وجہ ہے؟ صرف اپنے مفروضے قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو کہ سراسر کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔

آج سے پچاس یا سو سال پیچھے چلے جائیں تو کوئی تعلیم کو تجارت قرار نہیں دیتا تھا۔ اس زمانہ کے لوگ اس کو خدمت، نسل انسانی کی بقا اور مقدس فریضہ قرار دیتے تھے۔ اسکول، کالج، یونیورسٹی میں استاد کا احترام اولیت کے معنوں میں تھا۔ استاد اس منصب کو خدا کی طرف سے فرض شناسی اور خدا کی طرف سے ایک مقدس عہدہ سمجھتا تھا۔ درسگاہ کی چار دیواری کے باہر بھی استاد بچوں کی تربیت کا ذمہ دار قرار دیا جاتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اگر استاد نے گلی، محلے یا گاؤں میں بچوں کو آوارہ گردی کرتے دیکھتا / دیکھ لیتا تو سزا دیتا۔

باپ کو معلوم ہوا کہ استاد سے مار پڑی تب مزید باپ مارتا باپ کا بھی نظریہ یہی ہوتا تھا ضرور اس نے غلط کام کیا ہے تو استاد نے سزا دی ہے۔ اس سرگرمی کا اثر یہ تھا کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ہمہ وقت ساتھ چلتی تھی۔ استاد، اولاد اور والدین کے مابین ایک نشست ہوتی تھی۔ دوسری جانب ایک چار دیواری میں کئی لوگ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر ایک چنگیر سے روٹی کھاتے تھے۔ پرائمری، مڈل اور میٹرک پاس بھی اہل دانش قرار پاتے تھے۔

افسوس صد افسوس، جب سے اس تعلیم کو دھندا اور تجارت نے ہاتھ لگا لیے تب سے سب کچھ الٹ گیا ہے۔ نہ وہ تعلیم رہی، نہ وہ درسگاہ رہی، نہ وہ استاد رہا ہے اور نہ ہی وہ والدین رہے۔ اب تو حالات اس وقت ایسی کروٹ بدل چکے ہیں کہ نہ وہ اولاد، نہ وہ والدین، نہ وہ درسگاہ رہی، نہ وہ استاد سبھی اپنا اپنا قبلہ لیے بے راہ روی کا شکار ہو چکے ہیں۔ وہ جو کبھی استاد کا منصب انبیاء کی میراث تھا آج اس پر تاجر کا قبضہ ہو چکا ہے۔

اس تاجر نے ذاتی مفاد، ذاتی منافع، اور ذاتی منافع خوری کو اس میراث کے عوض تقویت دی ہے۔ تو پھر اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ہر گلی، ہر محلے، ہر شہر اور گاؤں میں اس تعلیم اور علم کے نام پر فیکٹریوں کا جال بچھا کر ذاتی مفاد کی خاک اڑائی جا رہی ہے۔ اس ذاتی مفاد کی خاطر سب اخلاق، تربیت، تعلیم اور علم کو پارہ پارہ کر کے بے عزت کر دیا گیا ہے۔ یہ تو قدرت کا فیصلہ ہے جب ایک شے کا خاتمہ ہو تو اس کی جگہ متبادل کسی نہ کسی نے لینی ہوتی ہے۔

وہ میراث جس کو انبیاء کی قرار دیا گیا اس کی جگہ دولت و ہوس کے پجاری فرمانرواؤں نے لے لی۔ ماضی میں پرائمری، مڈل اور میٹرک پاس بھی با ادب، با نصیب اور با مراد سمجھے جاتے تھے۔ آج سوچ اور نیت میں فتور کا عالم برپا ہو کر اس میراث کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بی اے، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی پاس بھی ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ بے حیا کا عالم اوڑھ کر چور ڈاکو اور لٹیرے بن چکے ہیں۔ دوسری جانب نہ وہ استاد کی عزت محفوظ نظر آتی ہے اور نہ وہ شاگرد جو کم تعلیم یافتہ ہو کر بھی با ادب تھا۔ آج بڑی بڑی ڈگریاں تو موجود ہیں مگر پلے کچھ بھی نہیں۔ آج اس تعلیم کی بجائے ایسی منصوبہ بندی کی کاشت کی جا رہی ہے جس نے ہر گھر میں ایسی نسل کاشت کر رکھی ہے جو باتوں میں تو انبیاء کرام سے بھی آگے نظر آتے ہیں۔ گیارہ سو میں سے گیارہ سے نمبر حاصل کرتے ہیں۔ لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم اور علامہ اقبال کے حقیقی شاہین نہیں بن پاتے۔ اس گندے اور تجارت کے عالم میں نا وہ علم رہا اور نہ علم دینے والا اور نہ علم لینے والا۔ علامہ اقبال خود اسی بات کا تذکرہ کرتے ہیں :

غلامی کیا ہے؟ ذوق حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے، ہے وہی زیبا

جب تعلیم کی آگ کو تجارت بنا کر فتووں کی آگ کو بڑھایا جائے تو پھر ہر طرف اس کا اثر اور حرارت جا پہنچتی ہے۔ اس حرارت کے عوض فساد، نا اہل حکمران، بے ضمیر جج، قومی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد اور صرف خوابوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی بننا رہ جاتا ہے۔ ماضی کے کارناموں پر صرف گزارا کرنا اور خود کچھ نہ کرنا باقی رہ جاتا ہے۔ تب اس قوم کا بیڑا غرق اور مذہبی جوش کے باوجود برائی کا غلبہ ہمیشہ مسلط رہتا ہے۔ ایسی قومیں پورے سال کی کمائی صرف رمضان کے مہینے میں ثواب کی نیت سے کماتی ہیں۔ اقبال تو بتا کر چلے گئے :

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

مگر اس قوم نے طائر لاہوتی کو اس ہستی سے مٹا ڈالا، تو اس کا اثر براہ راست دودھ میں کیمیکل ملانے، ضمیر فروشی کرنے، کتاب مقدس کو ہاتھ میں تھام کر ، جھوٹ پہ جھوٹ بولنے، فرقہ واریت کو تقویت، محبت کی بجائے نفرت، اتحاد کی بجائے ٹکڑے، علم کی بجائے جاہلیت، قاتلوں کو صادق اور امین بنانا اور ایک ریاست کثیر قانون کو فروغ دینا جیسی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ یہ سب اسی تجارت کا نتیجہ ہے جو علم کے بجائے ظلم برپا کر رہے ہیں۔ تو آخر میں سبھی کہتے ہیں سنا کہ قسمت میں یہ لکھا تھا یہ سب ثمرات اسی تجارت کے نتیجے میں ہیں جتنے مرضی کوئی فلسفی بنا لے لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کیوں کہ میرے نزدیک ایسا صرف طوفان نوح اور سدوم اور عمورہ کی تباہی کا منظر برپا ہونے کے متبادل ہے۔ آخر میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں :

”ہر بولا جانے والا لفظ سننے والے کے معیار کا نہیں ہوتا۔“ ۔