خولیو لیامازارایس کا ناول ”پیلی بارش“: بھلا دیے جانے والوں کا نوحہ


جنگلوں اور غاروں میں حیوان ناطق کے دو بڑے دشمن تھے بھوک اور تنہائی، وہ اپنے زور بازو سے بھوک کے عفریت سے تو نبرد آزما ہوتا رہا لیکن تنہائی کا زہر اس کے لیے تریاق ثابت ہوا، جب اس نے آگ دریافت کی اور الاؤ جلا کر اس کے گرد مل کر بیٹھا، جہاں ایک طرف وہ اپنے تخیل کے بل بوتے پر نئے سے نئے کردار تخلیق کرتا رہا وہیں وہ اپنی سماجی اور معاشی زندگی میں بدلاؤ لا یا اور شکار سے کاشتکاری کی جانب مائل بہ سفر ہوا۔

انسانی تہذیب و تمدن کی داستان ہزار ہا صدیوں پر محیط ہے جس میں پہیے سے لیے کر تسخیر کائنات کے تمام مراحل طے کرنے کی جنگ لڑتا رہا، علاقوں پر قابض ہوتا رہا لیکن کبھی بھی خود کو تنہائی میں مبتلا نہ ہونے دیا لیکن ترقی کا یہ عفریت بڑا ہوس ناک تھا جہاں کچھ علاقے اس کے زیر اثر آگے ہی آگے بڑھ رہے تھے وہیں پیچھے رہ جانے والے علاقوں کے لوگ اس ترقی کی چاہ میں اپنی زمین کو چھوڑ کر جانے لگے ایسے میں جو پیچھے رہ گئے جو بھلا دے گیا جنہیں اس زمین کے ٹکڑے سے جہاں وہ پیدا ہوئے تھے محبت کرنے کی ایک خوفناک سزا ملی، وہ سزا تھی فراموشی کی، تنہائی کی۔

ایسی تنہائی جس میں پیلی بارش کے برسنے سے دہشت، خوف، بھوک اور بے بسی کے نباتات سر اٹھاتے ہیں ”خولیو لیا مازار ایس“ کا ناول ”پیلی بارش“ ایک ایسے ہی فراموش شدہ گاؤں کی داستان ہے جسے وہاں کا آخری باشندہ بڑے المناک انداز میں بیان کرتا ہے، موت کے سائے اس آخری مکین کے ساتھ ساتھ اس گاؤں کے مکانوں، کھیتوں اور گرجا گھر پر چھاتے چلے جا رہے تھے۔

خولیو لیا مازارایس (Julio Llamazares) 1995ء میں لیون کے چھوٹے سے شہر ویخمان میں پیدا ہوئے یہ شہر اس وقت ایک بڑے ڈیم کے ذخیرہ میں غرق ہو گیا جب ان کی عمر 12 سال تھی چند برس پہلے اس ذخیرے کو خالی کیا گیا تو یہ بستی پانی کی تہہ سے ابھر آئی۔ لیامازارایس نے کیچڑ اور مردہ ٹراؤٹ مچھلیوں سے بھری گلیوں میں گھوم پھر کر اپنا سابقہ مکان تلاش کیا۔ لیامازارایس جیسے حساس انسان کے لئے یہ بے گھری کا تجربہ بہت دہشت ناک ثابت ہوا وہی دہشت و وحشت سے لبریز بیانیہ پیلی بارش میں موجود ہے گو کہ اس نے اپنی زمین کو خود نہ چھوڑا تھا لیکن اپنی زمیں سے دوری کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا۔

ناول کا آغاز اینائی کے آخری آدمی کی سانسیں گنتی ”موت کے اختتام“ کی رات سے ہوتا ہے جب وہ اپنے تصور میں پاس کے گاؤں سوبرپورتو کے چند لوگوں کو گاؤں کی ازلی تنہائی میں مخل کرتے محسوس کرتا ہے یہ وہ تمام لوگ ہوں گے جو اس آخری مکیں کو منوں مٹی تلے دفنانے کے لیے یہاں وارد ہوں گے وہ پہاڑ پر موجود جلے ہوئے مکان کے پاس سے افسردگی، خوف اور خالی پن سے گزرتے ہوئے وادی میں موجود سسک سسک کر مرتے ہوئے گاؤں میں قدم رکھے گے یہ لوگ گاؤں کے باشندوں کی موجودگی میں یہاں آیا کرتے تھے لیکن اب وہ سب باتیں قصہ پارینہ ہو چکیں ہیں اب تو جنگلی بیلوں اور گھاس نے گلیوں میں قبضہ کر لیا ہے کچھ گھر زمین بوس ہو چکے ہیں اور باقیوں کو کائی اور پھپھوندی جھکنے پر مجبور کر رہی ہے۔

”اور اس تمام بے اعتنائی اور بوسیدگی کے درمیان جیسے سچ مچ کسی قبرستان کی ویرانی ہوں آنے والوں میں سے کسی ایک کو پہلی بار احساس ہو گا کہ جنگلی بیلیں اور گھاس کیسی خوف ہولناک قوت کی مالک ہوتی ہے کہ تنگ گلیوں اور آنگنوں کو فتح کر لینے کے بعد اب وہ مکانوں کے قلب اور ان کے حافظے پر حملہ آور ہو رہی ہیں“

وہ اس کے مقام تک پہنچنے کے لیے تگ و دو کریں گے لیکن اینائی کا آخری باشندہ سات سالہ تنہائی کے صحرا سے گزر کر اب اپنی موت سے ہمکنار ہو چکا ہو گا وہ باشندہ جس نے اینائی کو ترک شدہ اور فراموش شدہ گاؤں بننے سے بچانے کے لیے خود کو تنہائی کے اتھاہ غار میں قید کر دیا مل اب اپنی خالی چشم خانوں سے ان باہر والوں کو تکتا ہو گا۔ جو اس کی غیر موجودگی میں اس کے گاؤں آنے کی جرات کر رہے ہیں وہ بالکل ان کی طرف ایسے دیکھے گا جیسے سبینا اپنی سرد آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھتی تھی اور یہی سرد آنکھیں اسے وہ دن یاد دلاتیں، جب اینائی سے اس کے خاندان کے سوا سب رخصت ہو چکے تھے جب خولیو کے خاندان کے جاتے ہی سبینا اور وہ اپنی آخری امید کھو چکے تھے گاؤں سے رخصت ہونے والوں کے غم سے چند لمحوں کے لئے خود کو محفوظ کرنے کے لئے وہ تو پن چکی میں جا چھپتا تھا تاکہ اسے الوداع کا عذاب نہ بھگتنا پڑے، لیکن سبینا ان سب باتوں سے آنکھیں نہ چرا سکی، پہلے تو چند دن رات کی تاریکی میں وہ ایک بے زبان کتیا کے ساتھ گاؤں کی گلیوں میں گشت کرتی رہی لیکن جیسے جیسے جاڑا بڑھتا گیا اس کی نگاہیں بھی سرد ہوتیں گئیں اور آخر کار ایک رات اس نے مردہ سور کو باندھنے کے لیے استعمال ہونے والی رسی کے ساتھ اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔

یہی سے اینائی کے آخری آدمی کی مصیبت کا آغاز ہوا، ایسی مصیبت جس میں اس کے پاس بطور یاد محبت وہ رسی تھی جو اس کی بیوی کے گلے کا پھندا بنی تھی اس رسی کے ساتھ اس کا تعلق اینائی اور اپنی بیوی کی یادوں کی طرح تھا جسے نہ تو وہ خود سے جدا کر سکتا تھا، نہ اس کے بے رحم لمس کو برداشت کر سکتا تھا جو بار بار اس کے حافظے کو جھلساتا جاتا۔ اس نے رسی کو باہر پھینکنے کی کوشش کی، اس سے اپنے آپ کو دور رکھنے کی کوشش کی لیکن جب برف پگھلی اور رسی اس کے سامنے آئیں تو بطور سزائے تعلق اس اپنے پاس رکھنا پڑا۔

”اس کی یہی واحد نشانی تھی جو میں نے اپنے پاس رکھی، یہ اب بھی میرے ساتھ ہے میرے کمر میں بندھی ہوئی ہے اور مجھے امید ہے کہ جس روز وہ لوگ میری تلاش میں آئیں گے میرے کپڑوں کی طرح یہ بھی میرے ساتھ قبرستان تک جائے گی باقی سب چیزیں۔ تصویریں خطوط فوٹوگراف۔ پہلے ہی وہاں بہت عرصے سے میری منتظر ہیں“

بر بوسا کے لوگوں کی مدد سے وہ سبینا کے جسم کو تو دفنا سکا تھا لیکن سبینا کی سرد آنکھیں وہی رہ گئی تھی یہ آنکھیں جوب اور چی خانے کی دیوار پر اس بنچ کے بالکل اوپر آویزاں تھیں، جہاں وہ بیٹھا کرتی تھی۔ ایک فوٹو گراف سے اس کو دیکھتی تھیں، اسے تنہائی میں چھوڑ جانے پر معافی کی التجا کرتی تھی اس نے ہر وہ چیز جو سبینا سے منسلک تھی، اس کی تصاویر، انگوٹھی اس کے آویزے تمام چیزیں ایک صندوق میں مقفل کر کے سینہ زمین میں سمودی جس رات وہ سبینا کی چیزوں کو سپرد خاک کر کے آیا وہ 1961 کی آخری رات تھی۔

اس رات کے بعد سے تنہائی نے اسے خود کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا تب ہی اپنی ذات سے، اس ویرانی اور موت سے آنکھیں چرانے کے لیے اس نے یادوں میں پناہ لی۔ اس نے آنے والے وقت، موجودہ وقت کا تعین چھوڑ دیا اب موت اور کبھی نہ ختم ہونے والے خزاں کا وسیع و عریض ویرانہ تھا جس پر یادوں کی، درد کی، وقت کی پیلی بارش برس رہی تھی، یہ ایک خاتمے کی شروعات تھی۔ اینائی کے گھر زوال کی طرف آمادہ تھے، اس کے گلی کوچے اپنا نشان کھو چکے تھے سبینا کی موت کے بعد جاڑا ایسے گزرا جیسے ایک وجود نے نہیں بلکہ ایک حافظے نے اسے گزارا ہو۔

بہار اور زیادہ مشکلات لیے بیدار ہوئی جہاں جاڑا بے بسی لاتا تھا وہی صبر بھی آجاتا، لیکن بہار میں اینائی سے برف کی وہ ہموار تہہ اٹھ جاتی اور اینائی کے بربادی کے نشان مزید واضح نظر آنے لگتے گو کہ جاڑے کے تمام موسم وہ برف پگھلنے کا انتظار کیا کرتا لیکن یہی اس کے لیے بعض اذیت ثابت ہوتا سبینا کی موت کے بعد کے پہلے بہار میں وہ بئیسکاس گیا جہاں کے لوگوں کے لیے وہ نمونہ حیرت تھا کہ وہ جاڑے اور تنہائی کے باوجود زندہ رہا تھا لیکن اب اس کے لیے لوگ ان کی نظر نہ قابل برداشت تھی وہ جلد سے جلد واپس اپنے گاؤں پہنچنا چاہتا تھا، جہاں تنہائی میں اس کی شریک کتیا تھی۔

بئیسکاس میں اس کو بیسکوس کے مرنے کی اطلاع ملتی ہے جس کی وہ بکریاں چرایا کرتا تھا اور اپنے بیٹے کا ایک خط ملتا ہے اس کا بیٹا آندریاس جس نے اپنا گاؤں، اپنے ماں باپ کو ترک کر کے شہر کی طرف نقل مکانی کی تھی یہ سیبنا کے لئے اور اس کے لئے ایک بڑا صدمہ تھا کیونکہ ان کے بڑھاپے کا ، صدیوں سے اینائی میں رہنے والے اس کے خاندان کا ، نسلوں کی محنت سے بنائے ہوئے اس گھر کا وہ آخری وارث تھا اس کی بہن پھیپھڑوں کی بیماری اور بھائی جنگ میں ہلاک ہو چکے تھے، ان کی روحوں نے والدین کی تنہائی میں ساتھ دیا، لیکن آندریاس پلٹ کر نہ آیا۔

”یہی وجہ ہے کہ میں نے اس خط کا کبھی جواب نہیں دیا یہی وجہ ہے کہ میں نے آندر یاس کو اس بات کے لئے کبھی معاف نہیں کیا کہ وہ ہمیں اور اپنے بھائی اور اپنی بہن کو چھوڑ کر چلا گیا تھا یہی وجہ ہے کہ اس پہر پہاڑی کے دامن میں، میں نے اس سے خط اور فوٹوگراف کو پرزہ پرزہ کر کے سانتا اور ویسا کی جھیل میں پھینک دیا تاکہ وہ پانی میں پڑے آہستہ آہستہ گلتے رہیں بالکل اسی طرح جیسے یادیں وقت کی دلدل میں بڑی گلتی رہتی ہیں“

اس بہار کے بعد سے سال سست رفتاری سے گزرنے لگے وہ یکسانیت، بیزاریت اور افسردگی کا شکار ہو گیا اس نے گاؤں کو ، گھر کو بچانے کے لیے کوششیں کیں اس نے خاردار بیلوں اور گھاس کو صاف کیا، چھتوں کی مرمت کی، مکان اور اپنے گاؤں پر آتی ہوں اس منحوسیت کو نہ روک سکا۔ اس پر موت کا پہلا حملہ آسین کے گھر کے قریب سانپ کے کاٹنے کی صورت ہوا لیکن سبینا اور آسین کے مسخ شدہ جسم والے بچے کی روح نے اس کی مدد کی اور اس کی کتیا زخم کو چاٹتی رہی، آخر کار اس میں زندگی لوٹ آئی لیکن ایک برس بعد موت نے سست رفتار سے اس کے پھیپھڑوں پر حملہ شروع کر دیا گو کہ وہ موت سے خوف زدہ نہ تھا اس کے والد نے موت کو جرات سے گلے لگایا تھا یہی بات اسے وراثت میں ملی تھی یہی ہمت تھی جو اسے اپنی بیٹی کی لاش کو دفناتے ہوئے مددگار ثابت ہوئی تھی، سبینا کی لاش کو دفناتے ہوئے اور خود اپنی موت کا انتظار کرتے ہوئے کام آئی تھی۔ اینائی کی موت تو اسی دن ہی شروع ہو چکی تھی جب اس کے پہلے مکین خوان فرانسکو نے اسے چھوڑنے کا فیصلہ کیا اس کے بعد لوگ جوق در جوق جانے لگے کوئی اپنا سامان تک لینے واپس نہ آیا۔

سب سے آخر میں تین لوگ جن کے جانے سے اس کی کمر ٹوٹ گئی آدریان جو کہ گاؤں کو مرتے ہوئے دیکھنے کی ہمت نہ کر سکا اور چلا گیا، گاوین جو مردہ حالت میں پایا گیا اور خولیو، جس رات گیا وہ وحشت ناک حد تک افسردہ رات تھی اس رات پیلی بارش نے راستوں، مکانوں، آسمان پر قبضہ کر لیا یہ پیلی بارش کا زنگ تھا جو اس کے دل کو تباہ کرتا جاتا تھا۔ اسی زنگ نے آہستہ آہستہ ہر مکان کو کھانا شروع کیا اور آخری مکیں کا مکاں بھی زیر عتاب آیا، ایک طرف تو گاؤں کے مکانوں پر سیلن اور کائی قبضہ کر رہی تھی تو دوسری طرف آخری آدمی کا ساتھ دینے کے لیے ان مکانوں کے پرانے مکیں لوٹ آئے تھے پہلے اس کی ماں اور پھر پورا خاندان جس سے پہلے پہل وہ بھاگتا رہا لیکن آخر کار اس کو تسلی ہوئی کہ ایک دن وہ بھی مر کر ان سب میں شامل ہو گا گو کہ وہ تنہائی کے ساتھی بننے آئے تھے لیکن ان کے زرد چہرے اس کے لیے ناقابل برداشت تھے، وہ ایک دن ان سایوں سے محفوظ رہنے کے لیے پہاڑوں میں بھٹکتا پھرتا ہوا پہاڑی پر موجود جلے ہوئے مکان پر پہنچا یہ مکان تب جلا جب وہ ابھی بچہ تھامکان جو اپنے تمام مکینوں کے ساتھ جلا تھا جب وہ وہاں پہنچا تو اس کو ایک خوفناک چیخ سنائی دی یہ چیخ ایک بوڑھی عورت کی تھی وہی جو اس رات اس گھر کے مکینوں میں سے ایک تھی جس کے بال اور چہرہ جل گئے تھے اور جو اس سے التجا کرتی تھی،

”مجھے تھوڑا سا پانی پلا دو پھر مار ڈالو مجھے تھوڑا سا پانی پلا دو پھر مار ڈالو“

یہ صدا فقط اس جھلسے ہوئے چہرے والی بڑھیا کی نہیں بلکہ خود اس کی تھی جو ظاہری طور پر تو اپنے گاؤں میں کسی باہر والے کے آنے کے لیے آمادہ نہیں تھا لیکن مرتے ہوئے بھی اندر ہی اندر ایک انسانی نگاہ، ایک سادہ سے لفظ، ایک فریا، د لا سے کا ، انتظار کرتا تھا جو اس گہری تنہائی کو پارہ پارہ کر دیں جو اس کے جلتے ہوئے بدن کو ایک گھونٹ پانی دے دیں۔

اینائی میں جب تک لوگ آباد تھے کوئی موت کی خبر زیادہ دیر نہ ٹکتی کیونکہ یہ خبر پتھر کو دے دی جاتی سبینہ کی موت کی خبر اس نے گھر کے باغ میں موجود ایک پیڑ کو دی تھی جس نے موت کے زہر سے زرد ہو کر پورے گاؤں کو پیلی بارش سے رنگ دیا لیکن وہ اپنی موت کی خبر سننے والا واحد، پہلا اور آخری شخص تھا، یہ بارش جس نے اس کی کتیا کو بھی بھیگا دیا اور وہ بھی اپنے مالک کو تنہا کر گئیں، ناول کے آخری باب آخری آدمی موت کی سبز چیخوں کو اپنے وجود میں سنتا ہے اور وقت آخر اس امکان کے بارے میں سوچتا ہے کہ اگر اس کا بیٹا ان کو چھوڑ کر نہ جاتا تو اینائی کی، اس کی، سبینا کی آخری امید نہ ٹوٹتی۔

”اگر کبھی آندریاس لوٹ آیا، اگر کسی دن وہ میری پرانی دھمکی کو بھلا بیٹھا یا خود اس کے بڑھاپے نے اس میں درد مندی اور یاد کو جگا دیا، تو شاید وہ ان پتھروں میں اپنے مکان کی باقیات کو تلاش کرے، اپنے ماں باپ کی یادوں کی کھوج میں اس جنگلی گھاس کو کریدے اور، کیا پتا شاید ان خاردار جھاڑیوں میں اس پتھر کو ڈھونڈ ہی نکالے جس پر میرا نام کھدا ہوا ہے او ر اس قبر کے خم کو جس میں بہت جلد، میں اس کے انتظار میں سو رہا ہو گا“ 5 ؎

مازارایس کے ناول کے اس آخری مکین اور اس گاؤں کی اذیت تو یادوں، درد اور وقت کی پیلی بارش ختم کر دے گی لیکن وہ جو اپنی زمیں کو ترک کر دیتے ہیں اپنی جڑوں کو بھلا بیٹھتے ہیں، شہروں کی طرف سفر کرتے ہیں پھر کہیں بھی شجر سایہ دار نہیں بن پاتے جب ان کے جسم زوال کی طرف آمادہ ہوتے ہیں تو وہ اپنی زمین اپنے گاؤں کی طرف مراجعت کرتے ہیں لیکن وہاں پر گرے ہوئے مکانوں، جنگلی جھاڑیوں سے بھرے ہوئے راستے اور قبر کے ٹوٹے ہوئے کتبوں کے سوا کچھ حاصل نہیں کر پاتے اور پھر بے گھری اور پشیمانی کا ناسور ان کو اندر ہی اندر کچوکے لگاتا رہتا ہے ان کی یہ سزا ابدی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments