زندہ کو تکلیف اور مردہ کی تعریف


ہمارے معاشرے میں زندہ کو اذیت اور مردہ کو محبت دینے کا رواج ہے۔ بہت سے ماں باپ اولاد کے ہاتھوں زندگی میں تکلیف اٹھاتے ہیں، جب موت آ جائے تو وہی بچے جنازے پر آنسو بہاتے ہیں اور دفنانے کے بعد تعریفوں کے پل باندھتے نظر آتے ہیں۔ بہت سے بھائی بہن ہمیشہ لڑتے جھگڑتے دیکھے گئے ہیں، ان میں سے جو مظلوم ہوتا ہے وہ الفاظ کے تیروں کا مستقل سامنا کرتا ہے، تکلیف برداشت کرتا ہے اور موت کا وقت آنے پر زخمی دل کے ساتھ دنیا کو خدا حافظ کہہ جاتا ہے، ظالم شخص ضمیر کی عدالت سے خود کو باآسانی بری کر کے اپنی زندگی میں پھر سے مصروف ہو جاتا ہے۔

دولت کی ہوس، انا سے پیار، اپنی ذات سے عشق اور رشتوں سے مقابلہ۔ ایسی کون سی جیت کی تمنا ہے جو اپنے خونی یا انسانیت کے رشتوں کو تکلیف، اذیت اور شکست دے کر حاصل ہوتی ہے؟

دنیاوی خواہشات تو دنیا میں رہ جانی ہیں، تو کیوں نہ انسان انسان سے پیار کرے، زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی۔ بقول شاعر

دھجیاں اڑنے لگیں انسانیت کی چار سو
دل درندہ ہو گیا انسان پتھریلے ہوئے

گزشتہ سال ستمبر کے مہینے کی خبر نظر سے گزری۔ لاہور کے ایک علاقے میں نوجوان نے جائیداد کے تنازع پر ماں اور بھائی کو کلہاڑی کے وار کر کے قتل کر دیا تھا۔ پولیس کے مطابق قاتل کا اپنی ماں اور بھائی سے کئی ماہ سے 6 مرلے کے مکان پر جھگڑا تھا، قاتل نے ابتداء میں پولیس کو بلا کر بتایا کہ ڈاکوؤں نے قتل کیا لیکن مشکوک بیان پر تفتیش کے دوران اس نے جرم کا اعتراف کیا جس پر اسے گرفتار کر لیا گیا۔ سننے میں بہت آسان اور مختصر لیکن پیغام بہت گہرا ہے۔ لالچ میں چھینا گیا گھر قاتل کو موت سے یا قبر میں جانے سے نہیں روک سکے گا۔ اس شخص کا انجام سوچیں جس نے اپنے ہاتھ سے جنت کھو دی۔

جنت کی تلاش میں کہیں جانے کی ضرورت نہیں، جنت تو ماؤں کے قدموں تلے موجود ہے

کسی نے حضرت محمد ﷺ سے سوال کیا کہ باپ کا کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، جب تک وہ حیات ہے اس کی اطاعت کرنا، پھر پوچھا گیا کہ ماں کا کیا حق ہے تو فرمایا، اگر صحراؤں میں ریت کے ذرات کے برابر اور بارش کے قطرات کی مقدار میں بھی اگر ماں کی خدمت سرانجام دی جائے تو پھر بھی ماں کے پیٹ میں ایک دن رہنے کا حق ادا نہیں ہو سکتا ۔

دوسروں کو تکلیف پہنچانا خواہ عمل سے ہو یا زبان سے، بہت بڑا گناہ ہے۔ کوئی بے اولاد ہے تو اس کے ذاتی معاملے کی فکر ہمیں زیادہ ہوتی ہے کہ کہیں فیملی پلاننگ تو نہیں چل رہی یا بیوی نخرے تو نہیں کر رہی، ڈاکٹر کو دکھایا یا نہیں، سوالات کی ایسی بوچھاڑ ہوتی ہے کہ بے چارہ جوڑا خود کو گھر میں قید کر لے اور ملنا جلنا چھوڑ دے۔

ایک دوست نے اپنے جاننے والے کا بتایا کہ وہ اللہ کی تخلیق اور فیصلوں کا تمسخر کرتا ہے، کسی بے اولاد رشتے دار جوڑے نے بچہ گود لیا تو اس کی پردہ داری کا خیال نہ کرتے ہوئے خاندان میں اسے بے پردہ کر دیا، اور کوئی بے اولاد ہو تو اسے محرومی کا احساس دلانے میں سکون محسوس کرتا ہے کہ وہ خود صاحب اولاد ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس میں اس کا کوئی کمال نہیں ہے۔

آسمانوں اور زمین میں اللہ ہی کی بادشاہی ہے، جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہے۔

یا لڑکے اور لڑکیاں ملا کر دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے، بے شک وہ خبردار قدرت والا ہے۔
سورۃ الشورٰی ( 49,50 )

ہمارے معاشرے میں نہ موٹا انسان آسانی سے جی سکتا ہے نہ پتلا، آپ کا وزن زیادہ ہے تو دنیا جینا مشکل کر دے گی، آپ سے موٹاپے کی وجوہات پوچھی جائیں گی، اس آٹے کا نام پوچھا جائے گا جو کھاتے ہیں، جس کی وجہ سے موٹے ہیں۔ اگر آپ کا وزن کم ہے تو بھی آس پاس رہنے والوں کو آپ سے زیادہ فکر ہو گی کہ کھانا جسم کو کیوں نہیں لگتا۔ کوئی مفت مشورے دے گا تو کوئی ڈاکٹر یا حکیم کی معلومات۔

کالے کو کالا کہہ کر پکارنا، لمبے کو لمبا یا کھمبا کہنا اور چھوٹے قد والے کو بونا کہنا ہمارے معاشرے میں عام ہے جو رب کی بہترین تخلیق کا مذاق اڑانا ہے۔ یہ انسانیت کی موت ہے۔ انسان، جس کی پہچان ہی انسانیت اور ہمدردی ہے، اس سے کیسے دل آزاری اور غرور کی امید کریں اور کیسے یقین کریں جب کوئی اللہ کے فیصلوں کا انسانوں سے جواب مانگے؟

ایک اور برائی جس کو ہم برائی سمجھتے ہی نہیں وہ ایسا سوال ہے جو ہم ایک بے روزگار انسان سے بار بار کرتے ہیں

”نوکری ملی یا نہیں“

وہ انسان جو اللہ کی طرف سے آئی آزمائش پر خود کا سامنا نہیں کر پاتا، ہم اپنے سوالات سے اسے جیتے جی مار دیتے ہیں۔

لوگوں کی بے حسی کے مناظر ہیں چار سو
فرصت ملے تو چشم ندامت اٹھائیے

اگر کسی بیٹی کا رشتہ نہ آ رہا ہو تو ہم نے بار بار پوچھنا فرض سمجھ رکھا ہے کہ شادی کیوں نہیں ہو رہی۔ کسی خاتون کی شادی کی عمر گزر جائے اور وہ شادی نہ کرنا چاہے تو بھی خاندان کی بوڑھی عورتوں کو شادی نہ کرنے کی وجوہات بتاتی رہے۔ غالب تو ہمارے لئے کہہ گئے

شرم تم کو مگر نہیں آتی

ہم بہت بے حس ہو گئے ہیں۔ اگر کسی کو خوشی اور آرام نہ دے سکیں تو دکھ میں تو اضافہ نہ کریں۔ اگر ہم خوش رہنا سیکھ لیں، دوسروں کو خوش رکھنا بھی آ جائے گا۔ اذیت پسندی دراصل حسد، لالچ اور بغض کی پیداوار ہے جو خوش رہنے نہیں دیتی ہے۔ خوش رہنا ہر انسان کی خواہش ہے لیکن خوش رہنے کا طریقہ ہر کسی کو نہیں آتا۔ مسکراہٹ کی قیمت نہیں لیکن یہ بہت قیمتی چیز ہے، اسے بانٹیں، لوگوں کے ساتھ بھلائی کریں، حقیقی خوشی کو پہچانیں اور خوش رہنا سیکھیں تاکہ خوشی تقسیم کرنا آ جائے۔

سوچیں ضرور اور ایک بہتر معاشرے کی تعمیر میں پہلی اینٹ آج رکھ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments