انڈیا: ڈاک خانے کے ڈپٹی پوسٹ ماسٹر نے عام لوگوں کا پیسہ آئی پی ایل سٹے میں لگا دیا

شریح نیازی - بی بی سی ہندی، بھوپال


32 سالہ ورشا سولنکی دو چھوٹے بچوں کی ماں ہیں اور اس وقت انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے بینا شہر میں اہلکاروں سے ملنا ان کے روزمرہ کے معمول کا حصہ بن چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شوہر کے انتقال کے بعد ساڑھے چھ لاکھ روپے کا وہ فکسڈ ڈیپازٹ جو گزشتہ سال بینا پوسٹ آفس میں ان کے نام پر جمع کرایا گیا تھا، ڈپٹی پوسٹ ماسٹر سٹے میں اڑا چکے ہیں۔

ورشا اکیلی نہیں ہیں۔ ایسے کئی لوگ اور بھی ہیں جو اس مشکل میں پھنس چکے ہیں۔

پولیس کے مطابق یہ رقم ایک کروڑ روپے سے زیادہ ہے جو ڈپٹی پوسٹ ماسٹر وشال نے غبن کر کے آئی پی ایل کی سٹے بازی میں لگا دی۔ پولیس وشال کو گرفتار کر چکی ہے۔

ورشا نے بتایا کہ ’میرے شوہر کی گزشتہ سال کورونا سے موت ہوئی تھی۔ اس کے بعد رشتہ داروں نے پوسٹ آفس میں ساڑھے چھ لاکھ روپے بطور فکسڈ ڈیپازٹ جمع کروائے تھے۔ لیکن جب یہ معاملہ سامنے آیا اور ہم ڈاک خانے گئے تو پتہ چلا کہ ہمیں جو کاغذات دیے گئے تھیں وہ سب جعلی تھے۔‘

ورشا کے دو بچے ہیں جن کی عمریں پانچ اور دس سال ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میرا گھر مکان سے ملنے والے کرائے سے چلتا ہے اور یہ رقم بچوں کے مستقبل کے لیے رکھی گئی تھی لیکن اس شخص نے ساری رقم غلط طریقے سے حاصل کر ہمارے لیے پریشانی کھڑی کردی ہے۔‘

ورشا کی پریشانی یہ ہے کہ وہ جس بھی افسر سے ملاقات کرتی ہیں وہ ان سے ہمدردی تو رکھتے ہیں لیکن ان کے اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ ان کا پیسہ واپس کیسے آئے گا۔

شوہر کی موت کے بعد یہ پیسہ ان کے لیے بڑا سہارا تھا لیکن اب ان کو سمجھ نہیں آ رہا کہ آگے کیا ہو گا۔

کشوری بائی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ کشوری بائی کی چار بیٹیاں ہیں۔

انھوں نے اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے پانچ لاکھ روپے جمع کرائے تھے۔ لیکن اب ان کی آنکھوں میں آنسو ہیں کیونکہ ان کو بھی یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ان کے پیسے کب اور کیسے ملیں گے۔

کشوری بائی نے بتایا کہ ’ہمیں ایک فون آیا جس سے پتہ چلا کہ ہمیں جو کاغذات دیے گئے ہیں وہ جعلی ہیں۔ جب ہم پوسٹ آفس گئے تو پتہ چلا کہ ہمارے پیسے ہڑپ لیے گئے ہیں، پتہ نہیں ہمیں پیسے کیسے واپس ملیں گے۔‘

ان تمام لوگوں نے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے یہ رقم پوسٹ آفس میں جمع کرائی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ سرکاری ڈاک خانہ ہے تو ان کا پیسہ ہر طرح سے محفوظ رہے گا۔ لیکن یہی ان کے لیے ایک مسئلہ بن گیا ہے۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو پوسٹ آفس سے جو پاس بک ملی تھی اسے اب جعلی کہا جا رہا ہے۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ جو بھی رقم جمع کراتے تھے وہ پوسٹ آفس میں جمع ہی نہیں کی جاتی تھی بلکہ ان کو جعلی رسیدیں دی جاتی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا: سابق بوائے فرینڈ کا تحفہ جس نے دلہے کو اندھا کر دیا

اپنے والد کے قاتلوں کو انجام تک پہنچانے کے لیے وکیل بننے والی خاتون کی کہانی

انڈین فوجی پر پاکستانی خفیہ ایجنسی کی مبینہ ایجنٹ کو معلومات فراہم کرنے کا الزام

پولیس سپرنٹنڈنٹ ہتیش چودھری نے بتایا کہ اس کیس میں اب تک تقریباً 15 لوگ سامنے آئے ہیں جن کی طرف سے ایک کروڑ سے زیادہ رقم جمع کرائی گئی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ’اب پورے معاملے کی تفتیش کی جا رہی ہے۔ گرفتار ملزم کا کہنا ہے کہ اس نے یہ رقم آئی پی ایل سٹے بازی میں لگائی ہے۔ لیکن اس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد بھی لی جائے گی تاکہ معلوم ہو سکے کہ کیا اس نے واقعی یہ رقم وہاں یا کہیں اور لگائی۔‘

سب سے پہلی شکایت ہتیش چودھری کے پاس اس وقت پہنچی جب ایک شخص کو معلوم ہوا کہ رقم جمع کرانے کے بعد بھی ان کے اکاؤنٹ میں ظاہر نہیں ہو رہی۔ اس کے بعد مقدمہ درج کیا گیا۔

پولس یہ جاننے کی بھی کوشش کر رہی ہے کہ آیا اس معاملے میں وشال اکیلا ہے یا اس کے ساتھ اور بھی لوگ شامل تھے۔

ساتھ ہی پولیس کی یہ بھی کوشش ہے کہ یہ خبر زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ جائے تاکہ دوسرے لوگ بھی آ کر دیکھیں کہ کہیں یہ ان کے پیسوں کے ساتھ بھی ایسا تو نہیں۔

بتایا جا رہا ہے کہ بینا کے قریب خملاسہ پوسٹ آفس میں تقریباً 50 لاکھ روپے کا غبن کیا گیا ہے۔ لیکن اب تک پولس نے اس معاملے میں ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔ خملاسہ بینا سے تقریباً 19 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

خملاسہ کے راجیش باتھری کا کہنا ہے کہ ’لوگوں نے پوسٹ آفس میں پیسے اس لیے جمع کرائے تھے کہ وہاں پیسہ محفوظ ہے۔ لیکن اب جو صورتحال پیدا ہو رہی ہے، اس سے لگتا ہے کہ لوگوں کا پیسہ وہاں بھی محفوظ نہیں ہے۔‘

وہ پوچھتے ہیں کہ ’اب لوگ اپنا پیسہ رکھیں تو کہاں رکھیں؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments