انڈیا میں موٹاپے کا بڑھتا ہوا مسئلہ جو وبا کی شکل اختیار کر سکتا ہے

گیتا پانڈے - بی بی سی نیوز، دہلی


علامتی تصویر
انڈیا میں لوگوں کے پیٹ پر چربی آسانی سے بڑھ جاتی ہے جو کئی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے
ایک نئے سرکاری سروے کے مطابق انڈین موٹے ہوتے جا رہے ہیں اور ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر موٹاپے کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر فوری طور پر توجہ نہ دی گئی تو ہنگامی حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

موٹاپے کو کبھی مغربی ممالک کا مسئلہ سمجھا جاتا تھا لیکن حالیہ برسوں میں یہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں پھیل رہا ہے۔ خاص طور پر انڈیا میں یہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

طویل عرصے سے غذائیت کی کمی کا شکار اور کم وزن والے لوگوں کے ملک کے طور پر دیکھا جانے والا انڈیا پچھلے کچھ سالوں میں موٹاپے کے معاملے میں پانچ ممالک کی فہرست میں پہنچ گیا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 2016 میں 13 کروڑ 50 لاکھ انڈین زیادہ وزن یا موٹاپے کے مسئلے سے دوچار تھے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ملک میں غذائی قلت کی شکار آبادی کی جگہ زیادہ وزن والے افراد لے رہے ہیں۔

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق تقریباً 23 فیصد مرد اور 24 فیصد خواتین کا باڈی ماس انڈیکس 25 ہے جو کہ 2015 اور 2016 کے مقابلے میں 4 فیصد زیادہ ہے۔

اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 2015 اور 2016 میں پانچ سال سے کم عمر کے 2.1 فیصد بچوں کا وزن زیادہ تھا۔ نئے سروے میں یہ تعداد بڑھ کر 3.4 فیصد ہو گئی ہے۔

چنئی کے ایک سرجن اور اوبیسٹی فاؤنڈیشن آف انڈیا کے بانی ڈاکٹر رویندران کومیرن خبردار کرتے ہیں ’ہم انڈیا اور عالمی سطح پر موٹاپے کی بیماری سے لڑ رہے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ اگر ہم نے جلدی ہی اس پر توجہ نہ دی تو یہ ایک وبا بن جائے گی۔‘

مزید پڑھیے:

کیا زیادہ کھانے والا ہر شخص ضرور موٹا ہو گا؟

موٹے افراد میں ممکنہ طور پر دمے کا خطرہ زیادہ

’کمر کی چربی گھلائیں، ٹانگوں کی خیر ہے‘

علامتی تصویر

انڈیا میں لوگوں میں موٹاپے کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں

ڈاکٹر کومیرن کہتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ سست طرز زندگی اور سستے چکنائی والے کھانوں تک آسان رسائی ہے۔ اس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ بالخصوص شہری انڈیا کے لوگوں کا وزن بڑھ رہا ہے۔

لوگوں کے درمیان نارمل، زیادہ وزن، موٹے اور شدید موٹے درجے کی درجہ بندی کرنے کے لیے بی ایم آئی عالمی سطح پر سب سے زیادہ قبول شدہ معیار ہے۔ اس میں کسی شخص کے قد اور وزن کو مدنظر رکھ کر حساب کتاب کیا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 25 یا اس سے زیادہ بی ایم آئی کے حامل فرد کا وزن زیادہ سمجھا جاتا ہے۔

لیکن ڈاکٹر کومیرن اور کئی دیگر ماہرین صحت کا خیال ہے کہ جنوبی ایشیا کی آبادی کے لیے اسے ہر مرحلے پر کم از کم دو پوائنٹس کم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم ’مرکزی موٹاپے‘ کا شکار ہیں۔

’اس کا مطلب ہے کہ ہمارے پیٹ پر چربی آسانی سے بڑھ جاتی ہے۔ پیٹ کی چربی کا بڑھنا جسم کے کسی بھی حصے میں وزن بڑھنے سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک انڈین جس کا بی ایم آئی 23 ہو گا اس کا زیادہ وزن ہو گا۔‘

ڈاکٹر کومیرن کہتے ہیں کہ ’اگر آپ 23 کو زیادہ وزن کے لیے کٹ آف پوائنٹ کے طور پر لیتے ہیں، تو میرے خیال میں انڈیا کی نصف آبادی، خاص طور پر شہری آبادی کا وزن زیادہ ہو گا۔‘

ڈبلیو ایچ او کے مطابق بہت زیادہ جسم کی چربی غیر متعدی بیماریوں کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔ اس میں 13 قسم کے کینسر، ٹائپ ٹو ذیابیطس، دل کے مسائل اور پھیپھڑوں کے کیس شامل ہیں۔ گزشتہ سال دنیا بھر میں موٹاپے کی وجہ سے 28 لاکھ اموات ہوئیں۔

انٹرنیشنل فیڈریشن فار سرجری آف اوبیسٹی اینڈ میٹابولک ڈس آرڈرز (IFSO) کے سابق صدر ڈاکٹر پردیپ چوبے کہتے ہیں کہ ’آپ کا بڑھا ہوا ہر 10 کلو وزن تین سال تک زندگی کو کم کر دیتا ہے۔ لہذا اگر کسی شخص کا وزن 50 کلو زیادہ ہے، تو وہ اس شخص کی متوقع عمر کو 15 سال تک کم کر سکتا ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کووڈ کے دوران زیادہ وزن اور موٹے مریضوں کی شرح اموات تین گنا زیادہ تھی۔‘

سدھارتھ مکھرجی

سدھارتھ مکھرجی جن کا وزن 188 کلو گرام تک پہنچ گیا تھا

ڈاکٹر پردیپ چوبے نے 20 سال قبل انڈیا میں بیریٹرک سرجری کا آغاز کیا تھا۔ یہ سرجری 40 یا اس سے زیادہ بی ایم آئی والے خطرناک موٹاپے کے شکار لوگوں کے علاج کے لیے آخری حربے کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔

ڈاکٹر چوبے کہتے ہیں کہ موٹاپے کے طبی اثرات کے بارے میں سب جانتے ہیں لیکن اس کے نفسیاتی اور سماجی اثرات کے بارے میں کم ہی جانتے ہیں۔

’ہم نے تین سال پہلے ایک ہزار لوگوں کا سروے کیا تھا اور ہم نے جانا تھا کہ زیادہ وزن کا جنسی صحت پر اثر پڑتا ہے۔ یہ ایک بری سیلف امیج ہے جو انسان کے دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ شادی شدہ زندگی میں عدم اطمینان کو جنم دے سکتی ہے۔‘

اس بات کو 56 سالہ اداکار سدھارتھ مکھرجی سے بہتر کوئی نہیں جانتا جن کی 2015 میں یریٹرک سرجری ہوئی تھی۔

وہ ایک ایتھلیٹ تھے اور کچھ سال پہلے تک ان کا وزن 80 سے 85 کلو تھا جب ایک حادثے نے کھیل میں ان کا کیریئر ختم کر دیا۔

انھوں نے بتایا کہ ’میرا کھانا پینا ایک کھلاڑی جیسا تھا۔ میں نے بہت زیادہ تیل والا مصالحے دار کھانا کھایا۔ مجھے پینے میں بھی مزہ آتا تھا جس کے بعد میرا وزن بڑھ گیا اور یہ 188 کلوگرام تک پہنچ گیا تھا۔‘

ایسے میں ان کو ذیابیطس، ہائی کولیسٹرول اور تھائی رائیڈ کے مسائل ہونے لگے۔ 2014 میں ایک چھٹی کے دوران ان کو اچانک سانس لینے میں دشواری ہونے لگی۔

انھوں نے کہا کہ ’میں لیٹتے ہوئے سانس نہیں لے سکتا تھا، اس لیے مجھے بیٹھ کر سونا پڑتا تھا لیکن ڈاکٹر چوبے نے مجھے ایک نئی زندگی دی ہے۔ میرا وزن اب 96 کلو گرام تک کم ہو گیا ہے۔ میں اپنی موٹر سائیکل چلاتا ہوں، سٹیج پر اداکاری کرتا ہوں اور چھٹیاں منانے بھی جاتا ہوں۔‘

ایک وقت تھا جب اداکار سدھارتھ مکھرجی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتے تھے لیکن اب وہ ایک دن میں 17 سے 18 کلومیٹر پیدل چل سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’اب میں مٹھائی کھا سکتا ہوں، فیشن کے کپڑے پہن سکتا ہوں۔‘

علامتی تصویر

انڈیا میں لوگوں میں موٹاپے سے متعلق بیماریوں کے سلسلے میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے

ان کا کہنا تھا کہ ’موٹا ہونا ان کے لیے کسی سزا سے کم نہیں تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے، اور اپنے خاندان کی جانب ہماری کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ میں لوگوں سے کہوں گا کہ وہ خود غرضی چھوڑ دیں اور اپنی صحت کا خیال رکھیں۔‘

ڈاکٹر چوبے کہتے ہیں کہ سدھارتھا مکھرجی جیسے لوگوں کے لیے بیریٹرک سرجری زندگی بچانے والی ثابت ہو سکتی ہے لیکن سب سے اہم چیز وزن بڑھنے کے خطرات کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہے۔ لیکن حکومت موٹاپے کو ایک بیماری سمجھے، اس حوالے سے ڈاکٹر چوبے کی کوششوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’حکومت متعدی بیماریوں پر قابو پانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ان کے پاس طرز زندگی سے جڑی بیماریوں کے لیے بہت کم وسائل ہیں۔ لیکن موٹاپے کو روکنا بہت مشکل اور مہنگا عمل ہے۔ یہ ہیلتھ کیئر سسٹم پر بہت زیادہ بوجھ ڈالتا ہے۔‘

چند سال پہلے ایک ’سِن ٹیکس‘ کی بات ہوئی تھی جس کا مقصد ایسے کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرنا تھا جو صحت کے لیے مضر ہیں۔ قیمتیں بڑھانے کا مقصد لوگوں کو ایسے کام کرنے سے روکنا تھا جو ان کے لیے نقصان دہ ہوں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کیونکہ ایسی چیزوں کی مارکیٹنگ کرنے والی کمپنیوں کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملی۔

ڈاکٹر کومیرن کا کہنا ہے کہ انڈیا کو ایسی چیزوں کی حوصلہ شکنی کے لیے وہی حکمت عملی اپنانی چاہیے جو اس نے تمباکو نوشی کے ساتھ اپنائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments