ترقیاتی کاموں سے آگاہی اور اس کا عالمی دن


جب سے حضرت انسان نے اس دنیا میں اپنا قدم رکھا۔ یعنی زمین پر انسان نے اپنا ڈیرہ لگایا تب سے ہی انسان نے اپنے کل کے یعنی مستقبل کے لیے بہتر سے بہتر سوچا اور یہ انسان کی فطرت بھی ہے کہ انسان ہر دور میں ہی ترقی کی طرف بڑھنا چاہتا ہے تا کہ وہ جس حالت میں ہے اس سے بھی زیادہ سکون، راحت میسر ہو آج سے ہزاروں سال پہلے بھی انسان نے اس دور میں ایسی ایسی کاریگری دکھائی کہ وہ عجوبے دیکھ کر عقل دھنگ رہ جاتی ہے آج بھی عرب کے کئی ممالک میں فرعونوں کے دور کے بنے محل پہاڑوں کو تراش کر وادیوں، جنگلوں، دریاؤں کو چیر کر اپنی زندگی کو خوبصورت بنانے کے لیے اور اپنے آنے والے کل کو سکون سے گزارنے کے لیے دنیا بھر کے خزانوں کو اکٹھا کر کے ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد آج بھی ایک عبرت اور مثال نظر آتی ہے۔

ترقیاتی منصوبے ہر دور میں ہی انسان نے سوچے اور ان پر کام کیا اگر آج کی صدی کی ترقی کو دو صدی پہلے سے کسی بھی شعبے میں موازنہ کیا جائے تو ہم یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہو جائیں گے کہ انسان واقعی فرمان الہٰی کے مطابق اللہ پاک کا اس زمین پر خلیفہ ہے اور اشرف المخلوقات ہے انسان کو اللہ پاک نے ایسے اختیارات اور عقل و علم سے نوازا ہے کہ انسان نے سمندر کی تہوں سے لے کر چاند کی بلندیوں تک کا سفر طے کیا اس کے ساتھ ساتھ انسان ایک معاشرتی حیوان بھی ہے انسان کی بقاء کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان کا مسکن ایسی جگہ پر ہو جہاں پر اس جیسے اور انسان موجود ہوں اکیلا انسان کا زندہ رہنا ناممکن ہے اسی طرح ایک انسان کے ساتھ ساتھ خاندان، معاشرہ، شہر، اور ملک آباد ہوتے ہیں پوری دنیا میں اس وقت 196 آزاد ممالک ہیں دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا۔ اقوام متحدہ ایک ایسا ادارہ ہے کہ جہاں دنیا کے سفارت کار جمع ہو کر مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اقوام متحدہ کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔ مثلاً سیاسی بحرانوں کا حل تلاش کرنا، انسانی حقوق، تعلیم و صحت کے مسائل پر توجہ دینا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اقدامات اٹھانا۔

اقوام متحدہ اور دیگر تنظیمیں اور ادارے ہر سال مخصوص تاریخوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں تاکہ دنیا کے انسان اس خاص دن یا تاریخ کے پس منظر کو ذہن میں رکھ کر دنیا کی صورت حال پر نظر ڈالیں۔ تاکہ یہ دنیا خوب صورتی کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے رہنے کے قابل رہے۔ عالمی دن دنیا بھر میں مشترکہ طور پر منائے جاتے ہیں اور یہ ان ایام، مواقع، خیالات یا نظر انداز ہونے والی باتوں کو بخوبی یاد دلاتے ہیں۔

یہ ایام ہمیں سوچ، فکر اور عمل کا احساس دلاتے ہیں ایسے ہی 24 اکتوبر کو ترقیاتی منصوبوں سے آگاہی کا عالمی دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ جس کے منانے کا مقصد ترقیاتی کاموں کے حوالے سے درپیش مسائل سے آگاہی اور اسی ضمن میں عوامی رائے عامہ کی توجہ بین الاقوامی تعاون کی ضرورت و اہمیت کی طرف مبذول کروانا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ترقی کسے کہتے ہیں اور ترقیاتی کام، منصوبے معاشرے یا ریاست کے لیے کیوں ضروری ہیں

ترقی سے مراد صرف سائنس یا ٹیکنالوجی کی موجودگی نہیں، بلکہ ترقی کا اصل پیمانہ اس معاشرے میں رہنے والے انسانوں کی حالت و روزمرہ زندگی میں سہولت ہے۔ راحت الوجود کا مطلب محض ذاتی آسائش یا مالی خوشحالی نہیں بلکہ اس سے مراد انسانی وجود کی وہ کیفیت ہے جس میں ایک مکمل شخصیت کی نشو و نما ہو اور وہ شخص معاشرے کا فعال اور مثبت رکن بن سکے اور اس کی شخصی نشو و نما کا ثمر معاشرے کی ترقی کی صورت میں ظاہر ہو۔ یعنی مختصراً یوں کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں سائنسی، تکنیکی، معاشی و اخلاقی معاملات میں بہتری یوں واقع ہونا کہ اس میں رہنے والوں کی کیفیت حیات کے درجات میں اضافہ ہوتا رہے، ترقیاتی کام معاشرے میں اس لیے ضروری ہیں تاکہ انسان اس زمین پر رہتے ہوئے اپنے لیے، اپنے معاشرے، وطن کے لیے ایسی گرفت اور طاقت رکھتا ہو کہ اس کے ساتھ رہنے والے تمام انسان ایک ایسی پر سکون ماحول بنا سکیں جس میں زندگی گزارنے کے لیے تمام سہولیات میسر ہوں، اگر میں یہاں وطن عزیز میں ترقیاتی منصوبوں پر بات کروں تو اپنے منصوبہ سازوں اور لیڈران پر لکھتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کہ پاکستان میں نہ تو وسائل کی کمی ہے اور نہ ہی ایسے علم یا دماغوں کی کمی ہے کہ آج ہم ان صفوں میں نہیں کھڑے ہیں جن صفوں میں ہمارے پڑوسی ممالک یا وہ ممالک کھڑے ہیں جو دنیا میں وطن عزیز کے ساتھ ساتھ وجود میں آئے۔

لیکن ان ممالک نے اتنی ترقی کی۔ کہ آج وہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہیں۔ وطن عزیز کے ترقیاتی کاموں کے کسی ایک شہر کے ایک پروجیکٹ کی مثال ہی کافی ہے مثلاً کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل کے حل کے لیے گرین لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کا فروری 2016 میں سنگ بنیاد رکھا گیا تھا یہ منصوبہ ایک سال میں مکمل ہونا تھا لیکن آج اکتوبر 2021 ہے اور شہری تا حال منصوبے کی تکمیل کے منتظر ہیں۔ کراچی کا گرین لائن بس پروجیکٹ تا حال تاخیر کا شکار ہے ہر شعبے میں یہ ہی حال ہے اگر نجی شعبے کی بات کی جائے تو پاکستان میں ایسے ایسے نجی ادارے ہیں کہ پاکستان کی تقدیر بدل سکتے ہیں لیکن میں نے دیکھا کہ پاکستان میں جب کوئی پروجیکٹ تکمیل کے آخری مراحل میں ہوتا ہے اور سینکڑوں لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بننے والا ہوتا ہے تو حکومتی ادارے حرکت میں آتے ہیں اور اس پروجیکٹ کو بلیک لسٹ قرار دے کر نا کارہ کر دیتے ہیں ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ اگر وہ پروجیکٹ غیر قانونی تھا تو ایک بھاری جرمانہ کر کے اس پروجیکٹ کو چلنے دیا جائے لوگوں کو بیروزگاری سے بچایا جائے لیکن ہمارا آئین اور ادارے کہتے ہیں کہ نہ خود کچھ کرو اور نہ دوسرے کو کچھ کرنے دو، تب ادارے سو رہے ہوتے ہیں جب پروجیکٹ شروع ہو رہا ہوتا ہے ایسے ہتھکنڈوں سے سرمایہ کاری کرنے والے حضرات دوسرے ممالک میں جا کر سرمایہ کاری کرتے ہیں اور ہم ایسے کئی پروجیکٹس بند کر کے وطن عزیز کی ترقی روک دیتے ہیں، لیکن آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا کیا ہمیں اپنے سسٹم کو تبدیل کرنا پڑے گا۔

کاش! ہم اپنے کسی دوست ملک کی ترقی کی نقل ہی کر لیتے مثال کے طور پر چین! معیاری تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں سرمایہ کاری کرنے والی قومیں تیزی سے آگے بڑھتی ہیں اور عالمی معاشی رہنما بن سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ چین نے خام مال اور قدرتی وسائل کی برآمد کو بہت کم کر دیا ہے، اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی مشترکہ پیداوار اور برآمد کے لئے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو اولین ترجیح دی ہے۔

1978 کے بعد سے چین نے جی ڈی پی میں واقعی قابل ذکر ریکارڈ قائم کیا ہے جو 8 سے 11 فیصد کے درمیان رہی ہے۔ جی ڈی پی میں یہ حیرت انگیز ترقی بیرونی ممالک سے جدید ٹیکنالوجی کے حصول اور اعلیٰ غیر ملکی جامعات میں افرادی قوت کی تربیت سے ممکن ہو سکی، ہر سال کم و بیش چھ لاکھ چینی طلبہ امریکہ اور یورپ اعلیٰ تعلیم کے لئے جاتے ہیں۔ نتیجتاً تقریباً پانچ لاکھ تربیت یافتہ طلبہ ہر سال چین واپس آتے ہیں، ان کی وجہ سے ہی چین متعدد جدید ٹیکنالوجی میں عالمی رہنما بن گیا ہے اور بہت اعلیٰ درجے کی جامعات کا قیام عمل میں لایا ہے۔

1985 ء میں چین میں سائنس اور ٹیکنالوجی مینجمنٹ سسٹم کی اصلاحات سے متعلق چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ اس کمیٹی کے قیام کا مقصد تحقیق و ترقی اور صنعتی سرگرمیوں کے درمیان فاصلے ختم کر کے ایک دوسرے سے منسلک کرنا تھا، خصوصاً تحقیقاتی اداروں کو اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی ترقی کے لئے بڑی مالی اعانت فراہم کرنا۔ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے سائنسدانوں اور انجینئروں کو فارغ وقت میں مشاورتی خدمات اور نجی کام کرنے کی ترغیب دی گئی۔

منسلک اداروں کو سہولتیں مثلاً آلات اور کیمیکلز وغیرہ استعمال کرنے پر انسٹیٹیوٹ کو اس کام سے حاصل ہونے والی آمدنی کا حصہ دینے کا پابند کیا گیا۔ اس نقطہ نظر نے تحقیقی اداروں کو اپنے تجارتی بنیادوں پر تحقیقی منصوبے، تنہا یا مقامی صنعت کے ساتھ شراکت میں قائم کرنے کی ترغیب دی تاکہ تحقیق اور صنعت کے مابین روابط کو مضبوط کیا جا سکے۔ لہٰذا چینی اکیڈمی آف سائنسز نے ایک سرکاری ادارہ ہوتے ہوئے بھی 1990 کی دہائی میں تحقیقی کاروباری اداروں کی ایک بڑی تعداد قائم کی۔ ریاست پاکستان کے قانون سازوں، حکومتی اداروں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جب تک ہم تعلیم، صنعت، اور ایسے تمام اداروں کو جو ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں حکومتی سطح پر مدد نہیں کریں گے تب تک ترقی کرنا اور آگے نکلنا بہت مشکل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments