لفظوں کے روپ بہروپ


لفظ اور خیال کی بحث اہل علم کے ہاں بہت پرانی ہے میرے جیسے کم علم آدمی کو بھی لفظوں کی بنت کاری اور معنویت کی لپک رہی ہے۔ کوئی لفظ کس زبان کا ہے، یہ لفظ کس طرح بنا اور اہل زیاں کے ہاں کیسے رواج پذیر ہوا اور کسی لفظ کے لفظی اور مرادی پہلو کتنے اور کون کون سے ہیں؟ یہ اور ان سے جڑے سوالوں کو ماہرین لسانیات بہت اہمیت دیتے ہیں، مجھے بھی ذاتی طور پر لفظوں کے اس جادوئی کھیل سے قدرتی دلچسپی ہے۔ اردو کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے میری یہ رائے ہے کہ وہ احمد دین کی کتاب ”سرگزشت الفاظ“ مطالعہ کریں۔ اس کتاب کی تیاری میں Richard Chenerix Trench کی کتاب On the Study of Words سے مدد لی گئی ہے، اس کا موضوع لفظوں کے Roots تک پہنچنا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر اپنے ذخیرہ علم میں اضافہ کرنا ہے تو لازم ہے کہ لفظوں کے ماخذ کا علم حاصل کیا جائے۔

گزشتہ روز ہم شعبے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ صدر شعبہ ڈاکٹر سہیل عباس بلوچ صاحب نے ( آج کل نظیر اکبر آبادی کے کلیات پر کچھ کام کر رہے ہیں ) نے حسب عادت بآواز بلند کہا کہ او یار دیکھو نظیر کتنا شاندار آدمی ہے، اس نے بغیر خمیر کی روٹی کے لیے ایک نیا لفظ باندھا ہے، ہمارے کان کھڑے ہوئے تو پوچھا : حضور کون سا۔ دان کیجیے، تو کہنے لگے یہ لفظ ہے ’فطیر‘ ۔ ڈاکٹر صاحب کی اور میرے دوسرے ہمکار دوست مختلف موضوعات پر اکثر چھیڑ دیتے ہیں اور ہلکے پھلکے ماحول میں گویا علمی باتوں کی پھوار شروع ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب نے جونہی یہ لفظ ہماری طرف لڑھکایا تو میری رگ لفظ شناسی پھڑک اٹھی۔ لفظ فطیر کا حدود اربعہ نکالا تو بڑے حیران کن نتائج سامنے آئے، معاً یہ خیال آیا کہ کیوں نہ اہل علم و ادب اور لفظوں کے مزاج شناسوں کو بھی اس تجربے میں شامل کر لیا جائے۔

پہلے تو میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مذکورہ لفظ فطیر کو نظیر نے اپنی کس نظم میں برتا ہے، حوالہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ لفظ نظیر کی نظم ’روٹی کی فلاسفی‘ کے آخری بند میں استعمال ہوا ہے :

روٹی کا اب ازل سے ہمارا تو ہے خمیر
روکھی بھی روٹی حق میں ہمارے ہے شہد و شیر۔
یا پتلی ہووے موٹی خمیری و یا فطیر
گیہوں کی جوار باجرے کی جیسی ہو نظیر۔
ہم کو تو سب طرح کی خوش آتی ہیں روٹیاں۔

نظیر اکبر آبادی نے بھوک اور افلاس کے لیے روٹی کو استعارہ بنایا ہے۔ بھوک سے جڑی کیفیات کو انہوں نے بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ نظیر کی نظموں سے افلاطون کے اس خیال کی تائید ہوتی ہے کہ ہر شہر میں ہوتے ہیں ایک امیروں کا غریبوں کا دونوں کے اخلاق و عادات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ بقول نظیر اکبر آبادی: پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے

یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سن کے بولا: بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں۔

تاریخ شاہد ہے کہ بھوک اگر ایک طرف تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے تو دوسری جانب یہ جرم اور مکر و فریب کو بھی جنم دینے کا باعث بنتی ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں :

ایک آدھ روٹی کے واسطے کیسے کیسے چکر چلا رہا ہوں
میرے خدا تو تو جانتا ہے میں جس طرح گھر چلا رہا ہوں۔ ( رحمان فارس)

بیسن کی روٹی پر کھٹی چٹنی جیسی ماں
یاد آتی ہے! چوکا، باسن چمٹا پھکنی جیسی ماں۔ (ندا فاضلی)

اسے کھلونوں سے بڑھ کر ہے فکر روٹی کی
ہمارے درد کا بچہ جنم سے بوڑھا ہے ( عبدالصمد تپش)

کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو۔ ( نظیر باقری)

بیچ سڑک اک لاش پڑی تھی اور یہ لکھا تھا
بھوک میں زہریلی روٹی بھی میٹھی لگتی ہے (بیکل تساہی) ۔

فطیر کا لفظ عربی سے اردو اور فارسی زبان میں آیا۔ فطیر کے اسی لفظ سے ’نان فطیر‘ کی ترکیب وضع ہوئی۔
شکر حق لائے بجا مرد فقیر
اس کو مل جائے اگر نان فطیر
( چشمہ فیض، 1859، ص 12 )

مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ ’عید فطیر‘ یہودیوں اور مسیحیوں سے وابستہ ایک مذہبی تہوار کا نام بھی ہے۔ انجیل مقدس میں لکھا ہے : ”سو فطیر کے پہلے روز عیسیٰ کے شاگردوں نے آ کر اسے کہا، کیا چاہتا ہے تو کہ ہم فسح کو تیرے لیے کہاں تیار کریں تاکہ تو کھا وے؟“

عید فطیر یا عید فسح کو ایسٹر (Easter ) بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں ’فسح‘ سے مراد بھیڑ کی قربانی ہے۔

فطیر، نان فطیر اور عید فطیر سے باہر نکلنے ہی تھے کہ اسی قبیل کا ایک اور لفظ سامنے آ کھڑا ہوا۔ فطیرہ۔ جس کے معنی سموسہ اور پراٹھا کے ہیں :

” ہمیشہ ہی مرغ کیوں ہو؟ مرغ کے فطیرے کا فیشن کتنا ہی کیوں نہ ہو مگر جو سب سے پہلے بیزار ہوتا ہے وہی کسی دوسری شے کی طلب کا اظہار کرتا ہے۔“

(فکشن :فن اور فلسفہ، ص 62 )
ف، ط، ر کے مادے سے مزید الفاظ اور ان کے مفاہیم کے پہلو کھلے :
فطر ( اشتقاق : فطر) ۔ *چیرنا، پھاڑنا، توڑنا، پیدا کرنا، وجود میں لانا، آغاز کرنا، ابتدا کرنا
* روزہ کشائی، عید الفطر
* ایک قسم کی روئیدگی جو برسات میں اگتی ہے، سانپ کی چھتری پھپھوندی وغیرہ
فاطر : لفظی معنی پڑھنے والا، مرادمی معنی پیدا کرنے والا، خالق۔ دیکھیے سورۃ فاطر کی آیت نمبر 1 :
( سب تعریف اللہ کے لیے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے۔ الخ)

میر انیس نے فاطر کو کو اپنے ایک مرثیہ میں اس طرح باندھا ہے :
فاطر سے فاطمہ ہے اور اعلیٰ سے علی
محسن سے ہے حسن، یہ شرافت ہے منجلی۔ (منجلی بمعنی روشن ہونا)
فطر اور فاطر کی رعایت سے فطرت کا لفظ بھی توجہ طلب ہے۔

اہل اسلام کے ہاں عید الفطر مذہبی جوش اور تشکر کے جذبات کے ساتھ ہر سال منائی جاتی ہے۔ عید الفطر میں لفظ ’فطر‘ اساسی ہے کہ جس سے ’فطرانہ‘ اور ’افطار‘ جیسے الفاظ بھی متشکل ہوئے۔ علمائے اسلام نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ یکم شوال المکرم کو عید الفطر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ افطار اور فطرہ ہم معنی ہیں۔ جس طرح ہر روزہ کا افطار غروب آفتاب کے بعد کیا جاتا ہے اسی طرح رمضان المبارک کے پورے مہینے کا افطار اسی عید سعید کے روز ہوتا ہے۔ لفظ ’افطار‘ ثلاثی مزید فیہ کے باب افعال کا مصدر ہے اور کہا جاتا ہے ”افطر الصائم“ جس کے معنی ہیں پینا اور افطار کا وقت قریب ہونا۔ اس کی صفت ’مفطر‘ اور اس کی جمع ’مفاطیر‘ ہے۔

قصہ مختصر علم تاریخ الفاظ یعنی اشتقاقیات (Etymology) سے جڑے رہنے سے ہی ادب کی تفہیم میں سہولت رہتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments