پی ٹی آئی لانگ مارچ میں ہلاک ہونے والے کارکن: ’مجھے پتہ ہے بابا چلے گئے ہیں، ماما بتا نہیں رہیں‘

عمر دراز ننگیانہ - بی بی سی اردو، لاہور


شفقت محمود، لاہور
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما شفقت محمود لاہور میں فیصل عباس کے گھر تعزیت کرتے ہوئے
اس روز پولیس نے لاہور کے تمام داخلی اور خارجی راستے کنٹینر لگا کر بند کر رکھے تھے۔ سب سے زیادہ رکاوٹیں لاہور سے جی ٹی روڈ پر جانے والے راستوں پر کھڑی کی گئیں تھیں۔ پولیس کی کوشش تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان لانگ مارچ کی صورت میں لاہور سے باہر نہ نکل سکیں۔

انتظام کچھ اس طرح کیا گیا تھا کہ کارگو کنٹینرز کی مدد سے خارجی راستوں کو مکمل طور پر ہر قسم کی گاڑیوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ کنڑینرز ہر کچھ فاصلے کے بعد رکھے گئے تھے۔ ان کنٹینرز کے ساتھ پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی تھی جو پیدل آنے والوں کو روک کر واپس بھیج رہی تھی۔

ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے بھی تھے اور انھیں آنسو گیس کی شیلنگ کرنے والے اہلکاروں اور گاڑیوں کی معاونت بھی حاصل تھی۔

یہ رواں ماہ کی 25 تاریخ تھی اور بدھ کا دن تھا۔ سابق وزیرِاعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اس روز اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا تھا۔ تاہم ان کی جماعت کے کارکنان اور لاہور کی قیادت میں شامل زیادہ تر افراد ابتدائی رکاوٹوں سے آگے نہیں بڑھ پائے تھے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے کارکن فیصل عباس تاہم کسی طریقے دریائے راوی کے پل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ دوپہر کے قریب ان کے بھائی عاطف عباس نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ فون کسی دوسرے شخص نے اٹھایا۔

عاطف نے چھوٹتے ہی پوچھا کہ ’بھائی آپ کہاں ہو۔‘ فون کے دوسری طرف موجود شخص نے بتایا کہ ’جس شخص کا یہ فون ہے وہ راوی کے پل سے نیچے گر گیا ہے۔‘ عاطف کے دریافت کرنے پر انھوں نے بتایا کہ فیصل عباس زندہ ہے لیکن شدید زخمی اور انھیں قریب ہی شاہدرہ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔

نماز جنازہ

فیصل عباس کی نمازِ جنازہ میں تحریکِ انصاف کے رہنماوں نے شرکت کی

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عاطف نے بتایا کہ وہ کوشش کر کے لگ بھگ آدھے گھنٹے کے بعد جب ہسپتال پہنچے تو ان کے بھائی زندہ تھے لیکن ان کی حالت تشویشناک تھی۔ ڈاکٹروں نے انھیں بتایا کہ فیصل عباس کے سر کے پچھلے حصے پر چوٹ لگی تھی۔

ڈاکٹروں نے ان کو میو ہسپتال لاہور منتقل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ عاطف عباس کے مطابق ایمبولینس کا بندوبست بھی ہو گیا تھا لیکن ایمبولینس کے پہنچنے سے پہلے ہی فیصل عباس دم توڑ چکے تھے۔ ان کی عمر 41 برس تھی۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں اور بڑی کی عمر چھ سال ہے۔

عاطف عباس نے بتايا کہ ’ہم انھیں ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال لے تو گئے لیکن وہاں پہنچنے پر ڈاکٹروں نے بتایا کہ وہ پہلے ہی مر چکے تھے۔‘

بعدازاں عینی شاہدین اور وہ افراد جنھوں نے فیصل عباس کو زخمی حالت میں دریائے راوی کے پل کے نیچے سے اٹھا کر ہسپتال پہنچایا، ان کی زبانی عاطف عباس کو ان حالات کے بارے معلوم ہوا جن میں ان کے بھائی پل سے نیچے گرے تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ لوگوں کی زبانی انھیں معلوم ہوا کہ فیصل عباس راوی کے پل پر موجود تھے جب پولیس اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔

فيصل نے لاٹھی چارج سے بچنے کے لیے راوی کے پل پر دو سڑکوں کے درمیان بنے ہوئے میڈیئن کے اوپر چڑھنے کی کوشش کی۔ ’وہ شاید اس کو پھلانگ کر دوسری طرف جانا چاہتے تھے لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ دوسری طرف کا فاصلہ زیادہ تھا اور نیچے کھائی تھی تو وہیں بیٹھ گئے۔‘

عاطف عباس کے مطابق اس دوران پولیس اہلکار لاٹھیاں برساتے ہوئے پہنچے اور فیصل عباس کو لاٹھیاں مارنی شروع کر دیں۔ ’ان پر اتنا زیادہ دباؤ ڈالا گیا اور دھکیلا گیا کہ وہ پل سے نیچے گر گئے جس کی وجہ سے ان کی ہلاکت ہوئی۔‘

جمعے کے روز فيصل عباس کے علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں واقع گھر پر ان کی قل خوانی کروائی گئی۔ ان کے بھائی عاطف عباس نے بتایا کہ فیصل عباس کی بیوہ نے ابھی تک اپنی دونوں بیٹیوں کو یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کے والد مر چکے ہیں۔

’انھوں نے بچوں کو بتایا ہے کہ وہ کہیں گئے ہوئے ہیں۔‘ فیصل عباس کی بڑی بیٹی پہلی جماعت میں پڑھتی ہے۔ سکول میں بچی کی ایک استانی نے ان کی والدہ کو بتایا کہ وہ اپنی ایک سہیلی کو بتا رہی تھیں کہ ’مجھے پتہ ہے میرے بابا چلے گئے ہیں لیکن میری ماما مجھے بتا نہیں رہیں۔‘

عاطف عباس کے مطابق ان کے بھائی سات آٹھ برس برطانیہ میں گزارنے کے بعد واپس پاکستان آئے تھے اور گزشتہ کئی برسوں سے عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف سے وابستہ تھے۔ انھوں نے مقامی طور پر کونسلر کے انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔

عاطف کے مطابق لانگ مارچ سے دو روز قبل رات کے وقت پولیس نے ان کو گرفتار کرنے کی غرض سے ان کے گھر پر چھاپا بھی مارا تھا۔ ان کے دو اور کارکنان ساتھیوں نے بھی گرفتاری سے بچنے کے لیے اس روز ان کے گھر پر پناہ لے رکھی تھی۔

’پولیس دروازے توڑ کر اندر داخل ہوئی۔ وہ دونوں کارکنان نیچے والی منزل میں سو رہے تھے جبکہ میرے بھائی اوپر والی منزل میں تھے۔ جب خواتین نے شور مچایا تو پولیس اوپر نہیں گئی اور نیچے ہی سے ان دو کارکنوں کو گرفتار کر کے لے گئی۔‘

عاطف عباس کے مطابق وہ ہمیشہ سیاسی سرگرمیوں میں اپنے بھائی کے ساتھ جاتے تھے۔ اس روز بھی ان دونوں کو اکٹھے جانا تھا تاہم فیصل بغیر بتائے پہلے ہی نکل گئے تھے۔

عاطف عباس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی جماعت کے کئی قائدین نے فیصل عباس کی آخری رسومات میں شرکت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بھائی کے قتل کے الزام میں پولیس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کی جماعت نے اس حوالے سے ان تمام تر تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔

پی ٹی آئی کے غریب کارکن نے پارٹی کا جھنڈا ہمیشہ بلند رکھا

عزیز اللہ خان،

بی بی سی اردو، پشاور

عمران خان

عمران خان سید احمد کے گھر میں تعزیت کے لیے گئے

وہ غریب تھا، محنت مزدوری کرتا تھا لیکن اپنی جماعت سے دیوانگی کی حد تک محبت تھی۔ اپنے کچے مکان پر پاکستان تحریک انصاف کا جھنڈا سب سے بلند رکھا تھا، پارٹی سے یہی محبت ان کی جان بھی لے گئی۔

سید احمد کی عمر کوئی 30 اور 32 سال کے لگ بھگ تھی، لانگ مارچ میں دوستوں کے ساتھ گئے لیکن واپس ان کی میت آئی۔

ان کے گھر قائدین افسوس کے لیے آ رہے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان بھی وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود شاہ اور دوسرے قائدین کے ہمراہ ان کے گھر تعزیت کرنے گئے۔

عمران خان نے کہا کہ ’سید احمد جان آزادی مارچ کے شہید ہیں اور ان جیسے کارکنوں کی قربانی سے حقیقی آزادی حاصل ہوتی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ سید احمد جان کی قربانی کو بھولنے نہیں دیا جائے گا۔ عمران خان نے یقین دلایا کہ ان کی پارٹی سید احمد کے اہل خانہ کو تنہا نہیں چھوڑے گی اور ان کے بچوں کا ہر ممکن خیال رکھا جائے گا۔

کنٹینر

اسی طرح کے کنٹینر کو دھکا لگاتے سید احمد پل سے نیچے گرے تھے

یہ بھی پڑھیئے

ڈی چوک کی فضا میں اب بھی آنسو گیس کی بُو ہے

پی ٹی آئی کارکنوں کا درختوں کو آگ لگانے کا عمل: کیا دھواں واقعی آنسو گیس کے اثرات کم کرتا ہے؟

پاکستان میں لانگ مارچ: وزرا کے گھروں پر توپوں سے عمران خان کے ’حقیقی آزادی مارچ‘ تک

سید احمد کے چچا انور حسن نے بی بی سی کو بتایا کہ 25 مئی کو سید احمد گھر سے اپنی دوکان پر گیا تھا جہاں دوست آئے کہ وہ لانگ مارچ کے لیے جا رہے ہیں۔ سید احمد نے دوکان دوسرے شخص کے حوالے کی اور وہ خود گاڑی میں دوستوں کے ساتھ سوار ہو کر موٹر وے پر مردان ٹول پلازہ پہنچ گیا۔

انورحسن نے بتایا کہ سید احمد اور دوست دیر سے روانہ ہوئے تھے، عمران خان جب مردان پہنچے اور لانگ مارچ اسلام آباد کی جانب روانہ ہوا تو سید احمد کے دوستوں کی گاڑی شروع کی گاڑیوں میں تھی۔

صوابی سے آگے اٹک کی حدود میں پنجاب پولیس کی جانب سے پہلی رکاوٹ تھی جہاں چھوٹے سے پل پر کنٹینر کھڑے کیے گئے تھے پھر اس سے آگے مٹی کا ڈھیر تھا اور اس سے آگے سڑک پر شیشے کے ٹکڑے پھیلائے گئے تھے۔

سید احمد

سید احمد پاکستان تحریکِ انصاف کے ایک جیالے کارکن تھے اور پارٹی کے لیے ہمیشہ کچھ کر گزرنے کے لیے تیار رہتے تھے

جماعت کے کارکن رکاوٹیں ہٹانے میں مصروف تھے۔ پہلا کنٹیر لوگوں نے دھکے دے کر اور کرین کی مدد سے ہٹا دیا تھا اور اب دوسرا کنٹیر ہٹایا جا رہا تھا۔

جب سید احمد اور ان کے دوستوں کی گاڑی وہاں پہنچی تو سید احمد گاڑی سے نیچے اترے اور بھاگ کر دیگر کارکنوں کے حمراہ کنٹیر ہٹانے لگے۔ ان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کس جانب کھڑے ہوں اور خود کو بھی محفوظ رکھ سکیں کہ اتنے میں ایک زور کا دھکا لگا تو سید احمد کے قدم لڑکھڑا گئے۔

انورحسن نے بتایا کہ اس دھکے سے تین افراد زخمی ہوئے۔ دو کے پاؤں زخمی ہوئے لیکن سید احمد پل سے اوندھے منہ نیچے گرے جس سے چہرے اور جسم پر شدید چوٹیں آئیں۔ لوگوں نے بھاگ کر ان کو اٹھایا لیکن سید احمد جانبر نہ ہو سکے۔

سید احمد مردان کے علاقے کاٹلنگ کے رہائشی تھے۔ اس علاقے میں مختلف سیاسی جماعتیں متحرک ہیں اور ان سیاسی حالات میں علاقے میں تناؤ بھی پائا جاتا ہے لیکن سید احمد اپنی جماعت کی پالیسیوں کا دفاع کرتے رہتے تھے۔

انور حسن نے بتایا کہ سید احمد کے والد فوت ہو چکے ہیں، والدہ بیمار ہیں، تین بھائی ہیں اور سب محنت مزدوری کرتے ہیں۔ سید احمد کے پانچ بچے ہیں جن میں دو بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’گھر میں سوگ ہے، ان کے اپنے بچے تو چھوٹے ہیں بیوی اور والدہ سخت پریشان ہیں۔‘

سید احمد پہلے مزدوری کرتے تھے لیکن کچھ عرصے سے انھوں نے لنڈے کے سامان کی دوکان شروع کی تھی۔ ان کا مکان چھوٹا ہے، اور آدھا ابھی تک نا مکمل ہے۔ مکان پر جماعت کا جھنڈا لگا رکھا ہے اور جھنڈا علاقے میں دیگر سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں سے اونچا لگایا گیا ہے۔

انور حسن نے بتایا کہ سید احمد نے پی ٹی آئی میں شمولیت اس وقت اختیار کی تھی جب 2013 میں پی ٹی آئی بھرپور انداز میں انتخابات میں حصہ لے رہی تھی۔ جماعت سے محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکثر اپنے گھر کے ضروری کام چھوڑ دیتا تھا لیکن جماعت کی ذمہ داریاں بھرپور انداز میں ادا کرتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments