ٹیکساس میں بچوں کا بہیمانہ قتل اور امریکہ میں ‘گن راج’


ٹیکساس، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی دوسری بڑی ریاست ہے۔ وسط جنوب میں واقع اور خیلجِ میکسکو سے ملحق 268596 مربع میل پر محیط ریاست ٹیکساس 3کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ آبادی کی تقسیم میں 21 فیصد ہسپانوی، 20 فیصد سیاہ فام، 19 فیصد بحرالکاحل کے جزائر کے باشندے، 17 فیصد مقامی، 10 فیصد ایشیائی، 9 فیصد سفید فام باشندے اور 4 فیصد متعدد شہریت کے حامل افراد بستے ہیں۔ ریاست کے مشہور شہر آسٹن (دارلخلافہ)، ساحلی شہر ہیوسٹن، اوکلو ہامہ، ڈیلس اور سان انٹونیو شامل ہیں۔

24 مئی 2022ء کو دن گیارہ بجے، سان انٹونیو سے 80 میل مغرب میں واقع ‘یو والدی کنٹری’ کے صدر مقام ‘یو والدی’ میں ایک اٹھارہ سالہ نوجوان آٹومیٹک گن سے لیس ہو کر ایک پرائمری سکول میں داخل ہوتا ہے اور سکول کے اندر درس و تدریس میں مصروف 19 بچوں اور دو معلمات کو گولیوں سے بھُون دیتا ہے۔ جبکہ اٹھارہ لوگ زخمی ہو جاتے ہیں۔ مگر خود بھی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں جائے وقوع پر ہلاک ہو جاتا ہے۔

یہ بات باعثِ تعجب ہے کہ ریاست ٹیکساس میں سگریٹ نوشی، شراب نوشی اور جنسی تعلق قائم کرنے کی کم سے کم عمر 21 سال ہے۔ مگر جان لیوا اسلحہ پاس رکھنے اور استعمال کرنے کی حد عمر 18 سال ہے۔ سگریٹ نوشی اور شراب نوشی وغیرہ پر ہر ریاست نے اپنی اپنی قانون سازی کر رکھی ہے۔ مگر تمام ریاستوں میں اسلحہ خریدنے اور پاس رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ گزشتہ سال نومبر کے صرف ایک مہینے میں 17 لاکھ امریکیوں نے 21 لاکھ گن (زیادہ تر پستول) خریدے۔ (امریکہ میں “گن” سے مراد پستول اور ریوالور سے لیکر رائفل تک ہر طرح کا آتشیں اسلحہ لیا جاتا ہے۔) 

اس واقعے سے 10 دن قبل ریاست نیو یارک کے شمالی شہر ‘بفلو’ میں آٹو میٹک گن سے لیس ایک سفید فام شخص ایک گروسری سٹور میں داخل ہو کر 10 سیاہ فام باشندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ اور دیگر 4 افراد زخمی ہو جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ بفلو میں سیاہ فام باشندوں کی تعداد 39 فیصد جبکہ سفید فام باشندوں کی تعداد 49 فیصد ہے۔ بقیہ 11 فیصد آبادی دیگر افراد پر مشتمل ہے جن میں زیادہ تعداد ایشیائی لوگوں کی ہے۔ یہاں پر بھی شوٹنگ کے ذریعے جرائم کی شرح باقی امریکہ کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

گزشتہ 7 برس میں امریکہ میں شوٹنگ کے کل 600 سے اوپرواقعات ہوئے جن میں 13000 سے زائد  افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے باوجود وہاں کے سیاستدانوں کی اکثریت ہتھیار رکھنے کے حق میں ہے۔ اس وقت 393 ملین امریکیوں کے پاس آتشیں اسلحہ موجود ہے۔ امریکہ کی سیاسی قیادت میں موجود لیڈر لوگوں کے اسلحہ رکھنے کے حق میں ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ان میں سےکئی رہنما اسلحہ پیداوار کی انڈسٹری سے منسلک ہوں۔ کیونکہ ایک عرصے سے اسلحہ کے خلاف احتجاج کے باوجود اس کی خرید و فروخت کی حدود و قیود متعین کرنے سے متعلق کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو سکی۔ یا پھر عوام اپنی حکومتی پالیسیوں سے تحریک لیتی ہے جو دنیا بھر میں اسلحے کی بنیاد پر پولیس بنی بیٹھی ہی۔

شوٹنگ کی وجوہات میں امریکہ کی عوام کی اکثریت کا نفسیاتی مسائل سے دو چار ہونا بھی ہے۔ ایک سروے کے مطابق امریکہ کی آبادی 26 فیصد ذہنی امراض میں مبتلا ہے۔ جس کی وجوہات امریکہ کی 52 میں سے 37 ریاستوں میں “کینی بس” (بھنگ۔ چرس یا میروآنہ کی مختلف اقسام ) استعمال کرنے کی اجازت بھی ہے۔ یہ اجازت بظاہر تو میڈیکل وجوہات کی بنا پر دی گئی تھی۔ مگر یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون کس وجہ سے اس نشے کا استعمال کر رہا ہے؟ اور کتنی مقدار میں کر رہا ہے کیونکہ ‘کینی بس’ بغیر طبی تشخیص کے (آف دی شیلف) جگہ جگہ دستیاب ہے۔ عوام میں بڑھتے ہوے ڈیپریشن، مایوسی اور نا امیدی کی وجہ کووڈ 19 کی وجہ معیشت کی زبوں حالی بھی ہے۔ جس کی وجہ سے بے روزگاری بڑھی ہے۔ دوسری طرف امریکہ ہر سال 6 کھرب دفاعی بجٹ پر خرچ کرتا ہے۔ امریکہ کے 70 ممالک میں 800 ملٹری بیس ہیں۔ جن پر 716 ارب ڈالر ہر سال خرچ ہو جاتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ نے یوکرین کو 800 ملین ڈالر کے دو پیکج دئیے ہیں۔ وہ یہی ڈالر کینیڈا کی طرز پر یونیورسل ہیلتھ سسٹم پر خرچ کیوں نہیں کرتا؟ اس وقت امریکہ دنیا بھر میں پولیس مین کردار ادا کر رہا ہے جب کہ اس کی اپنی عوام صحت کی سہولتوں سے محروم ہے۔ بے روز گاری کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہاؤسنگ کی شدید مشکلات ہیں، اور بے روزگاری کا دور دورہ ہے۔

ایسی صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکی حکومت اپنی ترجیحات بیرون ملک سے اندررون ملک کی طرف منتقل کرے۔ ایسی قانون سازی کرے جس میں اپنی عوام کی فلاح و بہبود ترجیح ہو۔ آتشیں اسلحہ کے استعمال کے حوالے قانونی اصلاحات کرے۔ اسلحہ رکھنے پر پابندی لگائے اور ذہنی صحت اور عام صحت کی سہولتوں کی فراہمی کا بندوبست کرے۔ اور منشیات سے پرہیز کی آگاہی کو فروغ دینے کا بندوبست کرے تاکہ ذہنی بیماریوں میں کمی ہوسکے۔ جب کسی کا بچہ اس دنیا سے جاتا ہے۔ ان والدین کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ اہلِ اقتدار اس احساس کو اپنے دل میں محسوس کریں۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments