محترم وزیر اعظم! کیا میری لاش کو پاکستان میں رہنے کی اجازت ہو گی؟


محترم وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف صاحب

امید ہے کہ آپ بخیروعافیت ہوں گے۔ میں اس خط کو السلام علیکم سے شروع کر کے نیک تمنائوں کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ اس نازک دور میں ہمارے پیارے پاکستان کے وزیر اعظم کو ہم سب کی نیک تمنائوں کی ضرورت ہے لیکن ایک انجانے خوف نے میرے ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لے لیا کیونکہ یہ عاجز پاکستان کا شہری ہونے کے علاوہ عقیدہ کے اعتبار سے ایک احمدی بھی ہے۔اور آپ جانتے ہیں ہوں گے کہ پاکستان میں بہت سے احمدیوں پر صرف اس پاداش میں مقدمہ درج کیا گیا ہے کہ انہوں نے السلام علیکم کہہ کر یا لکھ کر اپنی نیک تمنائوں کا اظہار کیا تھا۔ بہرحال یہ خط لکھنے کا مقصد احمدیوں کے متعلق قوانین کا شکوہ کرنا نہیں ہے اور نہ ہی اپنی زندگی کی ان ساٹھ سالوں کا رونا رونا ہے جو اس قسم کے خوفوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔سودا نے یہ کہہ کر سب شکووں کا دفتر لپیٹ دیا تھا

جو گزری مجھ پہ مت اس سے کہو ہوا سو ہوا

بلا کشان محبت پہ جو ہوا سو ہوا

کہے ہے سن کے مری سرگزشت وہ بے رحم

یہ کون ذکر ہے جانے بھی دو ہوا سو ہوا

اس خط کا مقصد تو صرف آپ سے ایک سادہ سا سوال پوچھنا ہے جو کہ خاکسار اس خط کے آخر میں پوچھنے کی جسارت کرے گا۔ شاید آپ کو خبر ملی ہو کہ دو ہفتہ قبل ضلع سرگودھا کے ایک گائوں گھوگھیاٹ میں احمدیوں کی کچھ قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔ ان کی قبروں کے کتبے مسمار کئے گئے۔ پیغام واضح تھا کہ مر کر یہ نہ سمجھو کہ تم محفوظ ہو گئے ہو، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تمہاری لاشوں کو بھی یہ احساس دلایا جائے گا کہ تم احمدی ہو اور تمہاری قبر کو بھی وہ حقوق حاصل نہیں ہوں گے جو کہ مہذب دنیا میں کسی انسان کی لاش کو حاصل ہوتے ہیں۔

اس کے چند روز بعد 17 مئی 2021 کو اوکاڑہ کے ایل پلاٹ میں ایک احمدی عبد السلام کو ان کے بچوں کے سامنے چاقو سے وار کر کے قتل کر دیا گیا۔ قتل کرنے والا حال ہی میں ایک قریبی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والا علی رضا تھا۔ جب علی رضا مدرسہ سے فارغ ہوا تھا تو مدرسہ کے استاد نے اپنی الوداعی تقریر میں احمدیوں کی سرکوبی کرنے کی نصیحت کی تھی۔ چنانچہ چند ہی روز میں علی رضا نے ایک احمدی کو بہیمانہ انداز میں قتل کر کے بزعم خود اپنے لئے جنت کا ٹکٹ حاصل کر لیا۔ پیغام واضح ہے کہ ہم تمہیں پاکستان میں جینے کا حق بھی نہیں دیں گے۔

ابھی عبد السلام صاحب کی لاش ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی کہ 19 اور 20 مئی کی درمیانی رات کو پشاور کے قریب ایک گائوں سانگو میں ایک احمدی اشفاق احمد صاحب ولد ڈاکٹر سرور کی قبر کو کھود کر اشفاق احمد کے جسد خاکی کے باقی ماندہ ٹکڑے باہر پھینک دیئے گئے۔ اشفاق احمد صاحب کا انتقال 1995 میں یوکرین میں ہوا تھا۔ ان کے ورثاء سے یہ غلطی ہوئی کہ وہ ان کے جنازے کو مادر وطن لے کر آئے اور یہاں دفن کر دیا۔ تاکہ اشفاق احمد کا جسد خاکی اس خاک میں آرام کرے لیکن افسوس عزیز اہل وطن کو یہ بھی گوارا نہیں ہوا۔ پیغام واضح ہے کہ ہم تمہاری لاش کو بھی اس ملک کی زمین میں آرام سے نہیں رہنے دیں گے۔

یہ سلسلہ ایک طویل عرصہ سے چل رہا ہے۔3  دسمبر 2012 کو ماڈل ٹائون لاہور میں احمدیوں کی قبرستان میں پندرہ کے قریب نقاب پوش حملہ آور داخل ہوئے اور ان میں سے کئی حملہ آوروں نے ہتھیار اٹھائے ہوئے تھے۔انہوں نے وہاں پر موجود افراد کو ایک کمرہ میں بند کیا اور سو سے زائد قبروں کے کتبے مسمار کر دیئے۔ یہ حملہ آور فون پر ہدایات بھی وصول کر رہے تھے کہ یہ کارنامہ کس طرح سرانجام دینا ہے۔محترم وزیر اعظم اس وقت آپ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور یہ مقام آپ کے گھر سے زیادہ فاصلہ پر نہیں ہے۔ شاید آپ کو یہ سانحہ یاد نہ ہو لیکن جن کے عزیزوں کی قبروں کی بے حرمتی کی گئی تھی، کم از کم وہ اسے ابھی تک نہیں بھولے۔

گذشتہ دو سال کے دوران پہلے سے زیادہ احمدیوں کی قبروں پر حملے کئے گئے ہیں۔ فروری 2020 میں فتح دریا جھنگ میں دو احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔اور اسی مہینے کے دوران خود پولیس کے اہلکاروں نے چک 2 ٹی ڈے اے ضلع خوشاب میں احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی۔ مئی 2020 میں پچاس مولوی صاحبان اور کچھ پولیس اہلکاروں نے شوکت آباد ننکانہ صاحب میں احمدیوں کی قبروں کو مسمار کیا۔ جون 2020 میں چک 79 نواں کوٹ ضلع شیخوپورہ میں احمدیوں کی قبروں کے خلاف مہم چلائی گئی اور آخر کار خود پولیس والوں نے احمدیوں کی درجنوں قبروں کے کتبوں کو مسمار کر دیا۔اس سے اگلے ماہ ایک شکایت پر عمل کرتے ہوئے گوجرانوالہ کینٹ کے پولیس سٹیشن کے اہلکاروں نے ایک گائوں کے احمدی قبرستان پر دھاوا بول کر 69 احمدیوں کی قبروں کو مسمار کیا۔ دسمبر 2020 میں پولیس سٹیشن کلر کہار کی حدود میں ایک گائوں میں احمدیوں کے قبرستان میں تین قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔

2021 شروع ہوا تو تھانہ گوجرہ صدر ٹوبہ ٹیک سنگھ کی حدود میں احمدیوں کے ایک قبرستان میں داخل ہو کر خود ایس ایچ او، پٹواری اور تحصیلدار  نے ایک احمدی کی قبر کا کتبہ مسمار کیا۔ اسی مہینے میں بھوئیوال ضلع شیخوپورہ میں تین احمدیوں کی قبروں کے کتبے توڑ دیئے گئے۔ یہ واقعہ تھانہ شرقپور کی حدود میں پیش آیا۔ فروری 2021 میں 565 گ ب جڑانوالہ ضلع فیصل آباد میں خود پولیس افسران نے 25 احمدیوں کی قبروں کو مسمار کروایا۔مارچ میں پولیس نے ایک مرتبہ پھر ایک شکایت پر چابکدستی دکھاتے ہوئے کوٹ دیالداس ضلع ننکانہ میں 16 احمدیوں کی قبروں کو مسمار کیا۔

 اسی طرح اپریل 2021 میں چک 604 ضلع مظفر گڑھ میں پولیس کے اہلکاروں نے ایک احمدی کی قبر کے کتبہ سے کچھ عبارتیں مٹائیں۔یہ چند مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ عزیز از جان وطن میں اب دل کی دھڑکن رکنے کے بعد بھی احمدی محفوظ نہیں رہ سکتے۔ ان کی قبریں بھی دل آزاری کا باعث بن جاتی ہیں۔ ان کی لاشوں اور ان کی قبروں سے بھی انتقام لیا جائے گا۔اور خود حکومتی ادارے اس بربریت میں دل کھول کر اپنا حصہ ڈالیں گے۔

اور یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ مذہبی تعصب میں قبروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہو۔ بربریت کی یہ تاریخ بار بار دہرائی گئی ہے۔ اور اگر اس سلسلہ کو جاری رہنے دیا جائے تو کسی کی بھی قبر محفوظ نہیں رہتی۔ مثال کے طور پر جب سپین میں پہلے مسلمانوں اور پھر یہودیوں کو نشانہ بنایا گیا تو قبریں بھی اس نام نہاد کی تطہیر کے عمل سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ 1580 میں Seville میں یہودیوں کی قبروں کو بھی اکھیڑ دیا گیا۔ اور ان میں موجود قیمتی اشیا کو لوٹا گیا۔اور ایسے واقعات بار بار ہوئے۔ اس وقت کیتھولک چرچ قبروں کی اس بے حرمتی کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔

لیکن 1936 میں اسی سپین میں خود کیتھولک چرچ اسی بربریت کا شکار بنا۔ سپین کی خانہ جنگی کے دوران بہت سے چرچوں میں قبرستانوں کو نشانہ بنایا گیا۔اور ایسے بہت سے واقعات ہوئے۔ مثال کے طور پر بارسلونا میں 19 کیتھولک ننز کی لاشوں کو ان کی قبروں سے نکال کر کئی روز کے لئے باہر نمائش پر رکھ دیا گیا۔اور ہزاروں لوگ ان کے سامنے سے گذر کر انہیں دیکھتے اور بعض تو ان لاشوں پر تحقیر آمیز جملے بھی کستے۔ اور آپ اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ پیرس کے قریب مسلمانوں کی قبروں کی بے حرمتی کے اندوہناک واقعات منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ہر صاحب ضمیر کو ایسے واقعات کی مذمت کرنی چاہیے۔

میں نے اس خط کے شروع میں عرض کی تھی کہ اس خط کے آخر میں آن مکرم سے ایک سادہ سا سوال کرنے کی جسارت کروں گا۔ خاکسار کو جیتے جی تو اس ملک میں برابر کے شہری بننے کا موقع نہیں ملا۔ نثار میں تیری گلیوں پر اے وطن۔۔۔ مگر مجھے یہ اعزاز نہیں ملا کہ وطن کی گلیاں مجھے قبول کرتیں لیکن اب میں عمر کے اس حصہ میں ہوں جب موت زیادہ دور نہیں ہوتی۔ مجھے اب اپنی زندگی سے زیادہ اپنی لاش کی فکر ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں میری لاش کو سکون سے دفن رہنے کی اجازت ہو گی؟ کیا مجھے یہ تسلی دلائی جا سکتی ہے کہ جب میں دفن ہوجائوں گا تو کوئی پولیس کا اہلکار یا تحصیلدار میری قبر کو مسمار کرنے یا میرے کتبہ کو توڑنے کے فرائض سرنجام نہیں دے گا۔یا کوئی جنت کے حصول کے لئے میری لاش کی باقیات کو اکھیڑ کر باہر نہیں پھینکے گا۔اگر حکومت پاکستان یہ سہولت نہیں مہیا کر سکتی تو کوئی بات نہیں۔ میں اسے بھی قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لوں گا اور اپنے ان بچوں کو جو ملک سے باہر رہائش پذیر ہیں یہ وصیت کر دوں گا کہ میری موت کی خبر سن کر خاموشی سے پاکستان آئیں اور میری لاش کو اسی خاموشی سے ملک سے باہر  لے جائیں۔ اور اس وقت کا انتظار کریں جب وطن کی خاک اس غریب الو طن لاش کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو۔ آدمی جیتے جی اپنے سے ہونے والے امتیازی سلوک کا بوجھ اٹھا کر زندہ تو رہ سکتا ہے لیکن مرنے کے بعد اپنی لاش کو خود اپنے کندھوں پر اٹھا کر کہیں نہیں لے جا سکتا۔ محترم وزیر اعظم مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔

 میں جس طرح خط شروع کرتے ہوئے ایک الجھن کا شکار تھا، اسی طرح خط کو ختم کرتے ہوئے بھی ایک الجھن کا شکار ہوں کیونکہ میرے نام کا آخری حصہ ایسا ہے جس پر اسلام آباد ہوئی کورٹ ایک تفصیلی فیصلہ میں اس تحفظ کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ کسی احمدی کے نام کا حصہ ہونا چاہیے۔ شاید ان کے نزدیک یہ بھی قانون شکنی اور دل آزاری ہے۔ بہرحال اتنی جلدی نام تو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے

سب باتوں کے باوجود خیر اندیش


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments