محبت کی سادگی اور پیچیدگیاں


محبت ایک ایسا موضوع ہے جو بے حد پرانا ہوجانے کے باوجود کبھی پرانا نہیں ہوتا- نا صرف ہر دور کے شعراء اور مصنفین اس موضوع پر بہت کچھ  لکھ  چکے ہیں بلکہ اس ایک لفظ میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے کروڑوں افراد کے لئے دلچسپی کے ہزاروں سامان موجود ہیں ۔ عام الفاظ میں یہ ایک ایسی جذباتی لہرکا نام  ہے جو کسی بھی فرد کو کسی بھی وقت کسی بھی معلوم یا نامعلوم وجہ یا وجوہات کی بناء پرکم یا زیادہ شدت کے ساتھ اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ محبت کی بہت سی اقسام ہوتی ہیں، جیسا کہ مخلوق کی اپنے خالق کے ساتھ محبت یا والدین اوراولاد کی باہمی محبت ، کسی فطرت پرست کی فطرت کے ساتھ محبت، کسی مذہب پرست کی مذہب کے ساتھ محبت ، انسانیت کے علمبرداروں کی انسانیت سے محبت اور علوم و فنون کے متوالوں کی علوم و فنون سے محبت وغیرہ ۔ ان میں سے کچھ محبتیں درحقیقت محبتیں نہیں  ہوتیں بلکہ محبتوں کے مغالطے ہوتے ہیں جن کی بنیاد خوف، لالچ یا ضرورت پر قائم ہوتی ہے ۔

جہاں تک محبت کی مذکورہ بالا اقسام اور مغالطوں کا تعلق ہے،  میں اس مضمون میں ان پر بات کرنے سے حتی الامکان احتراز کروں گی اوراس محبت کو زیر بحث لاؤں گی جو دنیا کے بیشتر معاشروں میں آج کے دور میں بھی اشجار ممنوعات کے زمرے میں آتی ہے یعنی وہ محبت جو ایک عورت مرد سے کرتی ہے یا ایک مرد عورت سے کرتا ہے۔ اس محبت کی ابتداء عمر کے کسی بھی حصے میں ہوسکتی ہے یعنی اس وقت بھی جب کم عمری کے باعث کسی لڑکے یا لڑکی کو اسکا شعور نا ہو اور اس وقت بھی جب طویل العمری کے باعث اظہار محبت کے راستے میں دیگر رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ جگ ہنسائی کا خوف بھی آڑے آتا ہو۔

 اقرار محبت اور اظہار محبت کے راستوں میں حائل لاتعداد رکاوٹوں کی موجودگی سے قطع نظر محبت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کسی سے بلاوجہ نہیں ہوتی ۔ حتی کہ وہ محبت بھی جسے پہلی نظر کی محبت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر آپ کسی کو ایک نظر دیکھتے ہی اس کی محبت میں گرفتار ہوچکے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کے قائم کردہ حسن کے معیار پر پورا اترتا ہے۔  یعنی اس کا چہرہ، اس کے جسمانی خدو خال، اسکے چلنے ، بات کرنے اور ہنسنے مسکرانے  کا انداز سب کچھ آپ کے شعوری یا لاشعوری طور پر قائم کردہ حسن کے معیار کے عین مطابق ہے۔ اب پہلی نظر کی یہ محبت کس حد تک دیرپا ہوگی ، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کے قائم کردہ حسن کے معیار پر پورا اترنے والے شخص کا مزاج آپ کے مزاج کے ساتھ میل کھاتا ہے یا نہیں؟ اگر اس کا مزاج آپ کے مزاج کے ساتھ میل کھاتا ہے تو محبت کی زندگی طویل ترین بھی ہوسکتی ہے ورنہ یہ محبت محض چند ساعتوں کی مہمان بھی ہوسکتی ہے۔

صورت حال اس وقت کہیں زیادہ پیچیدہ ہوجاتی ہے جب آپ کا کسی مخصوص معاملے میں کوئی مخصوص نکتہ نظر ہو اور اسی نکتہ نظر کے زیر اثر آپ  نے ایک اچھوتا اخلاقی  معیار قائم کر رکھا ہو جو معاشرے کے اکثر و بیشتر افراد کے نزدیک کسی خاص وجہ سے سخت نا پسندیدہ ہو اور جس پر پورا اترنا محض خال خال افراد ہی کے بس کی بات ہو۔ اس اچھوتے اخلاقی معیار کی موجودگی  میں شعوری یا لاشعوری طور پر قائم کردہ حسن کے تمام تر معیارات  یا تو بے معنی ہوجاتے ہیں یا کم ازکم اس حد تک بامعنی نہیں رہتے کہ آپ محض ظاہری خدوخال سے متاثر ہوکر کسی پر محبت کے خزانے لٹانے پر آمادہ ہوجائیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ بھی ان افراد میں شامل ہیں (جن کے نزدیک ظاہری حسن کی نسبت نکتہ نظر اور مزاج  زیادہ اہم  ہے ) تو کیا آپ کبھی محبت کر پائیں گے ؟ اتنی بڑی دنیا میں موجود کروڑوں افراد کے درمیان ایسے شخص کی تلاش کیونکر ممکن ہوسکے گی  جو آپکے قائم کردہ اخلاقی معیار پر پورا اترتا ہو؟ اس کا جواب غالبا یہ ہوسکتا ہے کہ اگر آپ  شعوری طور پر ایسے شخص کو تلاش کرنا چاہتے ہیں  تو کامیابی کا امکان کم وبیش صفر ہے۔ یہ محض اتفاقات ہی ہوتے ہیں جو آپ کو ایسے شخص سے روشناس کراتے ہیں ، اور ان اتفاقات کی نوعیت میں عموما رنگینی کم  مگر سنگینی بہت زیادہ ہوتی ہے۔

 قبل از محبت جسمانی  تکلیف ، دکھ ، بیچارگی ، احساس تنہائی وغیرہ کا اگرچہ محبت سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن ان حالات سے گذرنے والے افراد اگر کسی طرح زندہ رہنا مینج کرلیں تو نتیجہ محبت ہی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے یا دوسرے الفاظ میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایسے افراد زندہ رہنا صرف اسی صورت میں مینج کر پاتے ہیں جب وہ خود کو کسی کی محبت میں مبتلا پاتے ہیں ، خاص کر اس شخص کی محبت میں جو ان کے  خیالات سے مکمل آگاہی رکھنے کے باوجود انھیں جینے کی ترغیب دے رہا ہو۔ اگر آپ حالات سے پریشان ہوں مگر ایک مثبت سوچ رکھتے ہوں تو یقینا  ان چند افراد کی قدر ضرور کرتے ہیں  جو اپنے قیمتی وقت میں سے فقط آپ کی دلجوئی کے لئے وقت نکال رہے ہوں اور ایسے ہی افراد میں سے کسی میں اگر آپ جبلی تقاضوں کے زیر اثر جنسی کشش بھی محسوس کر بیٹھیں اور اپنا سب کچھ غیر مشروط طور پر اسے سونپنے کے لئے لاشعوری طور پر راضی بھی ہوجائیں تو یقینا اسے محبت کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا ۔

اب آگے سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں کہ آپ نے اگر کسی کی محبت میں مبتلا ہوکر زندگی کو ایک موقع دے ہی دیا ہے تو اب آپ کو محبوب سے مزید کیا چاہئے؟  جو کچھ آپ کو محبوب سے چاہئے کیا وہ آپ کو دے سکے گا یا دینا چاہے گا؟ اگر وہ آپ کو نا دے سکے یا دینا ہی نا چاہے تو پھر آپ کے اس سے متعلق کیا محسوسات ہوں گے ؟ کیا آپ میں اتنا ظرف ہے کہ اس کے انکار کے باوجود  اس کی جانب سے خوش گمان رہ پائیں؟ اگر نہیں، تو کیا اس شخص سے بد گمان ہونا آپ کے لئے ممکن ہوگا جس سے آپ بد گمان ہونا ہی نہیں چاہتے؟ اگر اظہار محبت کے باوجود اسے پا نا سکے اور بدگمان ہوکربھی اسے بھلا نا سکے تو زندگی کا دھارا کس نہج پر بہے گا ؟ یہ سوالات اپنے اندر اتنی زیادہ پیچیدگیاں رکھتے ہیں کہ خود کو محبت میں سنجیدہ  گرداننے والے اکثر و بیشتر افراد ان ہی سوالوں کے خوف سے اپنے ہی دل میں پلتی محبت کا اقرار خود اپنے آپ سے ہی نہیں کرپاتے لہذا یہ صورت حال ان کے مزاج پر ایک بار پھر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور وہ ایک بار پھر ذہنی الجھنوں کا شکار ہو کر سکون سے محروم ہوجاتے ہیں۔

 اگر آپ بھی کسی ایسی ہی صورت حال کا شکار ہیں تو بہت سی الجھنوں کا شکار ہونے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ کسی اور سے نا سہی لیکن کم از کم اپنے آپ سے سچ ضرور بولیں – اگر محبت کا اقرار کسی اور کے سامنے ممکن یا مناسب نہیں ہے  تو کم ازکم یہ اقرار اپنی ذات سے ضرور کریں۔ اور اپنی ذات سے یہ اقرار کرنے کے بعد اس محبت کو اپنے لئے ایک اعزاز بے شک سمجھیں لیکن اسے کسی کے لئے سزا ہرگز نا بنائیں۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھی جانی چاہئے اگر کسی کا تصور آپ کو خوشی نہیں دے رہا  یا اس کی خوشی میں آپ خوش نہیں ہیں بلکہ اس کے حصول کی  یک طرفہ خواہش آپ کے دل میں جڑ پکڑتی جارہی ہے اور آپ کو تڑپا رہی ہے  تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس  کی نہیں بلکہ اپنی ذات کی محبت میں مبتلا ہیں اور آپ کا نام نہاد محبوب آپ کے نزدیک ایک بے جان کھلونے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا جس کی  آزادی، رضامندی اور خوشی  آپ کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی اگر کچھ معنی رکھتا ہے تو وہ ہے اسے پا لینے کی آپ کی اپنی خواہش جس کی تکمیل کی خاطر آپ اس شخص کی خوشی کو قربان کر دینے پر آمادہ ہیں جس سے محبت کے آپ دعوے دار ہیں ۔  اس صورت حال میں اپنے جذبے پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ پتا لگایا جاسکے کہ آیا وہ محبت کی تعریف پر پورا بھی اترتا ہے یا نہیں، اور اگر آپ اسے محبت ہی سمجھنے پر بضد ہیں، تو اپنی خواہشات پر قابو پاتے ہوئے اخلاقیات کا دامن تھامے رکھنا اشد ضروری ہے کیونکہ ایسا کرنا کسی اور کے لئے کم اور آپ کےاپنے  لئے زیادہ فائدہ مند ہے۔ خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رو دھو کر، زور زبردستی سے  یا جذباتی بلیک میلنگ کے ذریعے آپ کسی کے لئے مشکلات تو پیدا کرسکتے ہیں، اسے خود سے بدگمان بھی کرسکتے ہیں، اپنا تماشہ بھی بنوا سکتے ہیں اور ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کی ہمدردیاں بھی حاصل کرلیں  لیکن اپنے لئے وہ  خوشی  ہرگزنہیں خرید سکتے جس کے آپ آرزومند ہیں ۔ بڑی حد تک یہ بھی ممکن ہے کہ کسی کو پورا کا پورا پا لینے کی خواہش میں آپ اسے پورا کا پورا ہی کھو دیں، لہذا بہتر یہی ہے کہ  لالچ  سے گریز کریں اورجتنا مل جائے اسی پر اکتفاء کریں۔ 

بہت سے معاشروں میں یہ رویہ عام ہے کہ محبت اور شادی کو لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے ۔ خاص کر لڑکی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ خود کو شوہر کی (یا ہونے والے شوہر کی)  امانت سمجھے اور کسی غیر مرد کا خیال بھولے سے بھی ذہن میں نا لائے۔ اگر آپ معاشرتی روایات کے باغی ہیں اور محبت کرنے والا ہر شخص رنگ ، نسل، جنس ، زبان اور قومیت سے قطع نظر آپ کی نظر میں محترم ہے تو آپ بھی یقینا محبت کرنے کے اہل ہیں لیکن اگر صورت حال اس کے برعکس ہے ، یعنی آپ معاشرتی روایات کو درست مانتے ہیں اور جرم  محبت کا ارتکاب کرنے والوں کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں  تو بہتر ہے کہ آپ خود بھی  محبت نامی ایڈوینچر سے گریز کریں کیونکہ یقین مانیں یہ آپ کے لئے نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments