اور اب پشاور میں مدفون احمدی کی ہڈیوں کی توہین


لاہور کے ایک انگریزی ہفت روزہ جریدے کی رپورٹ کے مطابق پشاور میں ایک احمدی کی قبر کو کھود کر اس کی پہلے بے حرمتی کی گئی اور بعد ازاں مرحوم کی باقیات (اعضا) کو باہر پھینک دیا گیا۔ یہ انسانیت سوز واقعہ انیس، بیس مئی کی درمیانی رات کو جو پشاور کے علاقہ ”سنگوا چینی پایاں“ میں رونما ہوا۔ خبر کے مطابق 1995 میں وفات پانے والے احمدی نوجوان اشفاق احمد کی قبر کو نامعلوم افراد نے کھودا اور پھر اس کے اعضاء باہر پھینک دیے۔

جریدے کی خبر کے مطابق مرحوم کی 27 سال قبل یوکرائن میں وفات ہوئی تھی اور بعد ازاں اس کے آبائی گاؤں کے قبرستان میں تدفین ہوئی، تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ یہ انسانیت سوز حرکت کرنے والے کون ہیں لیکن مسلم اور انسانی عقل حیرت زدہ اور دم بخود ہے کہ ہم کس دور میں داخل ہو چکے ہیں؟ اسلام تو انسان کو عزت و احترام کے ساتھ جینے کا حق دیتا ہے لیکن یہاں ایسے انسان جو قبروں میں ابدی نیند سو رہے ہیں ان کی نیند میں خلل ڈال کر ان کی بے حرمتی کی جا رہی ہے اور بات مزید آگے بڑھتی ہوئی یہاں تک پہنچ گئی کہ اب مدفن شخص کے اعضاء بھی نکال کر باہر پھینکے جانے لگے ہیں۔

اس سے زیادہ گھناؤنی حرکت اور کیا ہو سکتی ہے۔ واضح طور پر زمانہ جاہلیت کی ایک یاد ہے جو اکیسویں صدی میں زندہ کی گئی ہے۔ باشعور اور امن پسند طبقے ایسے واقعات سے فکر مند ہیں کیونکہ ہم پہلے ہی اندرونی عدم استحکام اور دیگر مسائل سے دوچار ہیں جبکہ بیرونی سطح پر تنہائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جو کچھ ہوتا ہے وہ سب دنیا کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ احمدی پاکستانی شہری ہونے کے باوجود ہر قسم کے ریاستی حکومتی تحفظ سے محروم ہیں جس بنا پر وہ خوف و ہراس کے سائے تلے زندگیاں بسر کرنے پر مجبور ہیں اور آئے روز اپنے مخالفین کے انفرادی اور اجتماعی حملوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ ان کو نہ سیاسی تحفظ میسر ہے نہ سماجی نہ انسانی حقوق کا۔

گزشتہ ہفتہ ہی اوکاڑہ میں ایک 36 سالہ احمدی نوجوان عبد السلام کے اس کے گھر کے سامنے خنجر سے وار کر کے قتل کر دیا گیا تھا جب وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ دروازے پر کھڑا تھا۔ قتل کرنے والے کا تعلق ایک بڑی مذہبی جماعت سے بتایا جاتا ہے۔ قتل ہونے والے احمدی نوجوان کے بچوں کی عمریں بیٹے چار، چھ سال اور بیٹی چھ ماہ کی تھیں۔

پاکستان بھر میں اب احمدیوں کے لئے کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں رہی۔ نہ گھر، نہ جیلیں، نہ ہسپتال اور نہ ہی قبرستان اور نہ ہی قبر۔ زندہ رہنا تو پہلے ہی محال ہوا تھا اب مرنے کے بعد قبر میں ابدی نیند سونا مشکل کر دیا گیا ہے اور ہڈیاں تک بھی محفوظ نہیں رہیں۔ اسی سال ایک اسی سالہ احمدی شخص جو توہین مذہب کے کیس میں بہاولپور جیل میں بدترین حالات سے دوچار تھا بالآخر شدید سٹریس اور ناروا سلوک کے باعث حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث انتقال کر گئے۔ کوئی بھی ان واقعات کی مذمت کرنے کی جرات نہیں کرتا۔

ایک عمومی سوال ہے کہ کیا اسلامی آئین پاکستان کسی کو اس کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی احمدی کی میت کو قبر سے نکال کر یوں اس کی توہین کریں؟ کیا شریعت اس قسم کی گھناؤنی حرکتیں کرنے کی اجازت دیتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر ملکی قانون کے تحت ان حرکتوں کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی ہونی ضروری ہے۔ کچھ نہ ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ چلے جا رہا ہے۔

تاریخ اسلام کی کتب کے مطابق ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو رسولﷺ کھڑے ہو گئے۔ صحابہؓ نے عرض کی یہ تو یہودی کا جنازہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا آخر وہ بھی انسان تھا ( ”ان فیہ لنفسا“ صحیح بخاری، بہ حوالہ مشکوات ) یعنی ہم نے انسانیت کا احترام کیا ہے۔ اب چونکہ یہ واقعات ایک اسلامی ملک میں رونما ہو رہے ہیں اور کرنے والے یقیناً مسلمان ہی ہیں لہذا قرآن اور سنت کا ایک آدھ حوالہ مضمون کی ضرورت بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی تاریخ اسلامی اور فقہا ء کی کتابوں میں احترام قبر کے ارشادات موجود ہیں۔ المیہ یہی ہے کہ اسلام بس کتابوں تک محدود رہ گیا ہے، اس حالت زار کو شعراء کرام شعروں میں بیان کر چکے ہیں۔

پاکستان کے اندر مذہب کو راہنمائی کے رنگ میں کم اور سیاسی مقاصد کے لئے زیادہ استعمال کیا گیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ پاکستان کے اندر مذہب کارڈ کے استعمال کی سب سے زیادہ اور بھاری قیمت احمدیوں کو چکانی پڑی ہے اور پڑ رہی ہے۔ ہر طاقتور سیاست دان اسی کارڈ کو کامیابی اور مقبولیت کی کنجی سمجھتا ہے کیونکہ پاکستانیوں کی اکثریت اپنی کم اسلامی شرح خواندگی کے باعث جذباتی ہو کر انسانیت کے دائرہ سے نکل جاتے ہیں اور دوسروں کی جان و مال کے درپے ہو جاتے ہیں۔ کم از کم ایسے واقعات کے مرتکب افراد کو پکڑنے اور سزائیں ملنے کا سلسلہ شروع ہونا چاہیے۔ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ماسوائے اپنی کمزوریوں اور اپنے مفادات کے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments