سکندر اعظم بچپن سے بادشاہ بننے تک


الیگزینڈر دی گریٹ دنیا جسے سکندر اعظم کے نام جانتی ہے 356 قبل مسیح میں یونان کی ریاست مقدونیہ کے شہر پیلا میں پیدا ہوا۔ دنیا سکندر کو صرف ایک عظیم ترین حکمران، بادشاہ اور سپہ سالار کے طور پر تو ضرور جانتی ہے لیکن دنیا کے بہت کم مورخین نے سکندر کی پیدائش اور بچپن کے بارے میں لکھا۔ مورخین نے دنیا کو یہ نہیں بتایا کہ بچپن میں وہ بچہ جو صرف کتابوں کی طرف رجحان رکھتا تھا، وہ ایک دن دنیا کا عظیم سپہ سالار بنا۔

جس کے بارے میں اس وقت کے کمانڈرز، امراء رائے دیتے تھے کہ یہ کبھی بھی اچھا بادشاہ/ سپہ سالار نہیں بن سکتا یا اپنے والد کی طرح کبھی بھی مرد میدان نہیں بن سکتا اس نے ایک دن دنیا کی ایک بہت بڑی سلطنت قائم کی۔ سکندر کا والد فلپ دوم ( فیلقوس) پہلے پہاڑی مقام آئی گائی میں رہتا تھا لیکن پھر اس نے جھیل کے کنارے سمندر سے کچھ فاصلے پر ایک اونچی وادی میں پیلا شہر تعمیر کروایا۔ جس پر کھڑے ہو کہ وہ عظیم شاہراہ نظر آتی تھی جس کو ایران کے بادشاہ خشیار شا نے ایک صدی قبل تعمیر کروایا تھا اور اسی راستے سے وہ مقدونیہ میں داخل ہوا اور اس کو فتح کیا۔

سکندر کی تربیت صحیح معنوں میں اس کی والدہ اولمپیاس نے کی جو اس کے والد کی چوتھی بیوی تھی۔ سکندر کو اپنے دور کے بہترین اتالیق لیونی دس، لسی میچس اور مشہور زمانہ فلسفی ارسطو جیسے اساتذہ نصیب ہوئے۔ جنہوں نے صحیح معنوں میں سکندر کی بہترین تعلیم و تربیت کا انتظام کیا۔ سکندر کی والدہ نے سکندر کے لئے ان تعلیمی ساتھیوں کو چنا جو مختلف طبقات کے لوگ تھے۔ سکندر کے ساتھ دس بارہ لڑکوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا گیا۔

بطلیموس جو کہ ایک طوائف آرسی نوئی کا بیٹا تھا اگرچہ آرسی نوئی کبھی بھی یہ بات اپنی زبان پر نہیں لائی لیکن بطلیموس یہ خیال کرتا تھا کہ وہ فلپ دوم کا ہی بیٹا ہے اور وہ خود کو سکندر کے برابر سمجھتا تھا یعنی کہ سکندر کا ناجائز بھائی۔ نیارکس پہاڑوں سے بہت دور جزیرہ کریٹ میں پیدا ہوا وہ جہاز پر سفر کرتا رہا اور بہترین ملاح تھا سکندر کے اس ساتھی نے ساری زندگی سمندروں پر اس کا ساتھ دیا۔ صحیح معنوں میں اس نے سکندر کی دوستی کا حق ادا کیا۔

نیارکس بہت خاموش طبع شخصیت کا فرد تھا۔ بارپالوس یہ ایک دہقان کا بیٹا تھا مطالعہ سے دور بھاگتا تھا مگر سکندر کا کلاس فیلو کے ساتھ ساتھ بہترین دوست بھی تھا۔ ان لوگوں کا انتظام اس وجہ سے کیا تھا تاکہ سکندر ہر طرح کے فرد کے ساتھ رہے اور معاشرے سے آگاہی حاصل کرے۔ سکندر کی ماں نے سکندر کو فلپ دوم کا بیٹا کم اور دیوتاؤں کا بیٹا زیادہ مشہور کر رکھا تھا۔ وہ کہتی تھی میں شروع دن سے ساموتھرلیس کے مندر کی پجارن ہوں اور اس کی اس بات کو اس وقت کے سب سے بڑے کاہن ایرسٹانڈر کی تائید بھی حاصل تھی۔

سکندر خود کتابوں کا کیڑا تھا مطالعہ کا شوقین تھا۔ اپنے وقت کے مشہور شاعر ہومر کی کتاب ہر وقت اس کے بغل میں دبی رہتی تھی۔ سکندر کے ہر وقت مطالعہ کی عادت سے سکندر کا باپ بھی اس سے تنگ تھا اور بارہ تیرہ سال کی عمر میں وہ کہتا تھا میدان جنگ میں بھی آیا کرو۔ سکندر کو روشنی کے نمودار ہونے سے قبل اٹھا دیا جاتا تھا اور سب سے پہلا کام محل سے لے کر قبرستان تک ایک ہزار قدم دوڑنا ہوتا تھا غلام بھی اس کے ساتھ ہوتے تھے لیکن کبھی غلام اس کو ہرا نہیں سکے ظاہر سی بات ہے وہ غلام جو تھے۔

دوڑ سے واپسی پر روزانہ وہ سیدھا محل سے قربان گاہ جاتا اور جلتی ہوئی آگ میں اپنے ہاتھ سے خوشبوئیں ڈال کر سورج کا خیرمقدم کرتا تھا۔ خوشبوئیں عربستان سے منگوائی جاتی تھیں اور سکندر کو ان خوشبوؤں سے بہت چڑ تھی۔ قربانی کے بعد سکندر کو ناشتہ دیا جاتا۔ ناشتے میں اس کے استاد لیونی دس کہتے ریچھ کی انتڑیاں اور جنگلی سور کا ہڈیوں کا گودا کھاؤ اس سے تم میں طاقت پیدا ہوگی جبکہ ماں کی کوشش ہوتی کہ اس کو شہد یا دودھ کا پیالہ دیا جائے لیکن کبھی بھی ماں کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی۔

اس کے بعد سکندر کو تیغ زنی کے لیے میدان میں پہنچنا ہوتا تھا وہاں اس کے اتالیق نگرانی پر موجود ہوتے اور روزانہ ایک نمائشی جنگ کا اہتمام کیا جاتا۔ بطلیموس ہمیشہ سکندر پر سبقت لے جاتا اور طنزیہ جملے سکندر پر ضرور اچھالتا تھا کیونکہ وہ بھی خود کو ایک شاہی خون سمجھتا تھا۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہی بطلیموس کی ناکامی کا دور شروع ہوا اور سکندر نے اس کی ڈھال توڑ کر اکڑ نکال دی۔ سکندر کو دوڑ میں بھی حیرت انگیز کمال حاصل تھا۔

سکندر کی عقلمندی کا اندازہ اس کے بچپن کے اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ گھوڑ دوڑ کے میدان میں ایک سرکش گھوڑا کسی سے قابو نہیں ہو رہا تھا۔ سکندر کا باپ فلپ دوم بھی وہاں موجود تھا کہ اچانک سکندر نے کہا کہ میں گھوڑے پر سواری کرنا چاہتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ ایک بہترین گھوڑا ہے لیکن افسوس لوگوں کو اس سے کام لینا نہیں آتا، چابک سوار گھوڑے کو قابو میں لانے کے اہل نہیں ہیں۔ میدان میں بے شمار شاہ سوار تھے۔ سکندر کو باپ نے اجازت دی تو سکندر نے بیوسی فالس نامی گھوڑے کا منہ سورج کی طرف موڑ دیا اور اس کو تھپکی دینا شروع کی گھوڑا آہستہ آہستہ پر سکون ہوتا گیا۔

سکندر جب اس پر سوار ہوا تو گھوڑا پرسکون کھڑا رہا سکندر کے باپ نے کہا کہ تم نے یقیناً سائیسوں کو رشوت دی ہے کہ میرے علاوہ کوئی بھی گھوڑے پر سواری کرے تو تم گھوڑے کو بھڑکاتے رہنا لیکن سکندر نے کہا کہ یہ گھوڑا اپنے ہی سائے سے ڈرتا تھا۔ میں نے اس کا منہ سورج کی طرف کر کے اس پر سواری کی اور اب یہ آہستہ آہستہ اس کا عادی ہو جائے گا۔ اینٹی گونس حد درجہ متاثر ہوا۔ یہی گھوڑا سکندر کو والد کی طرف سے انعام میں دیا گیا جو کہ برصغیر تک سکندر کے ساتھ رہا۔

سکندر اپنے باپ کا بھی سخت ناقد تھا۔ سکندر کہتا تھا اس کے باپ کو یونان کے شہرہ آفاق خطیب ڈیما ستھنیز کو پیلا آنا کی دعوت دینی چاہیے اور اس سے بحث و مباحثہ کرے۔ ڈیما ستھنیز جمہوریت کا بہت بڑا علمبردار تھا 384 قبل مسیح میں پیدا ہوا وہ فلپ دوم کے بعد سکندر کے خلاف بھی تقریریں کرتا رہا۔ لیکن سکندر نے ہمیشہ سے درگزر کیا۔ سکندر نے 13 سال کی عمر میں پہلی دفعہ والد کی غیر موجودگی میں ایشیا سے آئے ہوئے ایرانی سفیروں کا اپنی ماں کے کہنے پر استقبال کیا۔

سکندر نے تجسس کے مارے ان کے گھوڑوں، سامان اور لباس پر اتنے سوالات کیے یہاں تک کہ بیٹھنے تک کا نہ کہا جس بنا پر ماں اولمپیاس سکندر پر شدید غصہ اور ناراضگی کا اظہار کیا۔ بعد میں سکندر کو سفیروں کے ساتھ گفتگو کے آداب سکھائے۔ سکندر 13 سال کا ہوا تو اس کو کو پیلا سے دور تعلیم و تربیت کے لیے ارسطو کی تجربہ گاہ میزا کے مندر جو خاص کر صرف سکندر کے لیے بنائی گئی تھی میں بھیجا گیا۔ یہاں سکندر نے طیب اور سیاسیات کی تعلیم حاصل کی۔

یہیں سکندر نے ہومر کی داستان ٹرائے پر بحث و مباحثہ کیا اور یہاں ہی سکندر نے دنیا کا نقشہ دریافت کیا۔ جو تاریخ کے بقول ہیکاٹائیس نے تیار کیا تھا۔ اسی نقشے میں دنیا مشرق کے وہ تمام دروازے دکھائے گئے تھے جو کہ سکندر کی خواہش بنی وہ ان کو سر کرے۔ اسی نقشے میں مشرق کے وہ بلند و بالا پہاڑ دکھائے گئے تھے جو سکندر کے بقول دیوتاؤں کا مسکن ہے۔ اسی درسگاہ میں سکندر کو ہیروڈوٹس کی تاریخ مشرق کے دورافتادہ شہر بابل کے بارے معلوم ہوا اور سکندر کو فتح کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔

ہیروڈوٹس نے بابل کو خدائی دروازہ قرار دیا تھا۔ یہیں سکندر میں، دریائے نیل کا چشمہ کہاں ہے اور ڈینیوب کس مقام سے نکلتا ہے جیسے سوالات کرنے کا تجسس پیدا ہوا۔ اگر کرہ ارض پر پانیوں کے دور و گردش کا نظریہ درست ہے تو دریاؤں کے سرچشمے بھی ہونے چاہئیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ سکندر کو ایشیا ایران مصر کی عظیم سلطنت کا خیال ارسطو نے دیا تو یہ غلط نہیں ہو گا۔ سکندر ابھی اسی درسگاہ میں بحری قوت اور دنیا کی عظیم سلطنت کے نظام ہائے حکومت کے مطالعہ میں ڈوبا ہوا تھا کہ فلپ دوم فیلقوس کا ایک قاصد میزا پہنچا اور سکندر کو اس کے والد کا پیغام پہنچایا کہ آپ کے والد آپ کو فوراً فوج میں بلا رہے ہیں جو سمندر کے کنارے کوچ کرتی جا رہی ہے۔

سکندر نے انکار کر دیا میں کسی بھی جنگ میں بھی شامل نہیں ہونا چاہتا۔ لیکن قاصد نے عرض کیا کہ جناب یہ شاہی فرمان ہے اور آپ کو جانا ہی ہو گا۔ اس کے بعد کبھی بھی سکندر کو پھر مطالعہ کے لئے واپس میزا آنا نصیب نہ ہوا۔ اس جنگ کے دوران کمانڈر ہفا اسشن سکندر کی موجودگی میں جبکہ اسے نہیں پتا تھا کہ سکندر موجود ہے کہا کہ سکندر کا باپ اپنے بیٹے کی زنانہ عادتوں اور کتابوں کے شوق کی وجہ سے خوش نہیں ہے۔ اور وہ ایک ساحرہ اولمپیاس کا بیٹا ہے۔

تمام لوگوں کا خیال تھا کہ سکندر اس کو سزا ضرور دے گا۔ جب ہفا اسشن کو معلوم ہوا کہ سکندر اس کے سامنے موجود ہے تو بہت پریشان ہوا لیکن سکندر نے کہا کہ میں اپنی ذات پر تنقید کی بنیاد پر کسی بھی خون خرابہ کو پسند نہیں کرتا۔ اسی کمانڈر کو سکندر اعظم نے جنگ سے واپسی پر اپنے لیے مانگ لیا۔ اسی جنگ کے دوران ہی سکندر اعظم کے والد نے سکندر کو نائب السلطنت بنایا اپنی شاہی مہر جس پر شیر کی چھوٹی سی تصویر بنی ہوئی تھی اس کے حوالے کی اور اس کو اپنی غیر موجودگی میں مقدونیہ کے سارے اختیارات دیے۔

ساتھ یہ نصیحت کرتے ہوئے کہ میں نے ارسطو کو سونا صرف تمہاری تعلیم کے لیے دیا ہے سیاسی معاملات میں ان سے مشورہ لیتے رہنا۔ ایک فوجی مشیر اینٹی پیٹر اپنے ساتھ لو اور واپس مقدونیہ چلے جاؤ مجھے امید ہے کہ یہ دونوں ( ارسطو، اینٹی پیٹر ) تمہیں زندگی میں کبھی بھی دھوکا نہیں دیں گے۔ سکندر نے اپنی پہلی مہم سرحد پار مائی ٹی قبیلہ کے خلاف جو کہ سرکشی پر اتر آیا تھا اپنے ماں کے کہنے پر سرانجام دی۔ اس فتح کے بعد سکندر نے دنیا کے چار سکندریہ نامی شہروں میں سے پہلے سکندریہ کی بنیاد یہی رکھی۔

جب سکندر بیس سال کا ہوا تو اس کی سوتیلی بہن کی شادی کے موقع پر فلپ دوم کی پشت میں پاسنیاس نامی شخص نے خنجر گھونپ دیا جس سے اس کی موت واقع ہوئی۔ سکندر کے والد نے اردگرد کے قبائل کو، یونان کی کافی ریاستوں کو اپنے زیرنگیں کر لیا تھا۔ اس کی موت کے ساتھ ہی فونقیی کارندے، یونان کے شہری حکومتوں کے نمائندے، قاضیوں کے ہرکارے، تھریس کے بربری قبائل کے جاسوس کھسک گئے اور اپنی اپنی ریاستوں کو یہ اطلاع پہنچا دی کے مقدونیہ میں حکومت ختم ہو گئی ہے۔

سکندر کے والد کی وفات کے بعد قاتل کو تماشائیوں نے فوراً قتل کر دیا۔ چونکہ سکندر کے والد نے اس کی ماں کو طلاق دے دی تھی اور قلوپطرہ سے شادی کر لی تھی۔ قلوپطرہ نے بیٹا کو جنم دیا۔ لہذا تاریخ یہ بھی کہتی ہے کہ سکندر نے خود اپنے والد کو مروایا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ جس خنجر سے سکندر کا باپ مارا گیا وہ خنجر سکندر نے ہی قتل کو دیا تھا مگر سکندر نے تحقیقاتی ممبرز اینٹی پیٹر اور اینٹی گونس کو دیے گئے اپنے بیان میں اس سے انکار کیا۔

جب فلپ دوم کے قتل کی خبر اولمپیاس کے پاس پہنچی تو اس نے ان الفاظ میں کہا شوہر باپ پر اور نئی بیوی پر۔ ایک گروہ یہ بھی کہتا تھا کہ اس خنجر کا ہدف اطالوس تھا جس نے قاتل پر بے پناہ مظالم کیے تھے۔ مگر کسی نے نہایت خوبصورتی سے اس کا رخ فلپ دوم کی طرف پھیر دیا۔ بہر حال اس وقت تینوں سپہ سالارز پارمینیو، اینٹی پیٹر اور اینٹی گونس کے لیے قاتل کی تلاش کی نسبت بادشاہ کا انتخاب زیادہ ضروری تھا۔ نیم پاگل ایمنٹاس یا قلوپطرہ کے نومولود بیٹے کی نسبت نا تجربہ کاری کے باوجود سکندر کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں تھی۔

لہذا سکندر صرف بیس سال کی عمر میں 336 قبل مسیح میں تخت نشین ہوا۔ سکندر طبعاً شرمیلا، ہر وقت اپنے خیالات میں گم رہتا تھا ہر کسی کی بات پر یقین کرتا تھا۔ لیکن جب سکندر بادشاہ بنا تو ایک سال کے اندر ہی اس کی کایا پلٹ گئی وہ ہر مشورے کو اندھا دھند سے درست نہ سمجھتا تھا۔ سکندر کے چھوٹے بھائی کو سکندر کی ماں نے گلا گھونٹ کر مروا دیا۔ فلپ دوم کی بیوی کو زہر دے دیا گیا۔ یہاں تک کہ ہر اس شخص کو راستے سے ہٹا دیا گیا جو سکندر کے راستے کی دیوار تھا۔

سکندر دنیا کو فتح کرنے کے لیے ایران میں داخل ہوا۔ دارا کو شکست دی۔ ایران سے ہوتا ہوا دریائے جہلم کے راستہ برصغیر میں داخل ہوا۔ راجہ پورس کو شکست دی۔ دریائے بیاس کے کنارے پہنچا۔ کشمیر کے پہاڑوں کے ساتھ سفر کیا۔ سکندر ابھی مزید آگے گنگا سے سمندر کے راستے یونان واپس جانا چاہتا تھا لیکن اس کی فوج نہ مانی۔ یہاں سے سکندر نے واپسی کا سفر شروع کیا اور ایران دریائے دجلہ کے کنارے پہنچا۔ یونان، مصر، ترکی، فلسطین، موجود شام، افغانستان، ایران، برصغیر اور عرب کے علاقے زیرنگیں کیے۔

سکندر کی موت کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ زیادہ امکان ہے کہ سکندر کی وفات دریائے دجلہ کے کنارے بخت نصر کے محل ( بوجہ بخار ملیریا) ہوئی۔ سکندر صرف 32 سال اور آٹھ ماہ کے عمر میں دنیا چھوڑ کر چلا گیا۔ ان بارہ سالوں میں سکندر نے لاتعداد دولت یونان بھیجی۔ سکندر کی وفات کے بعد اس کی سلطنت چار حصوں میں بٹ گئی۔ 310 قبل مسیح میں اینٹی پیٹر کے بیٹے کیسنڈر نے سکندر کی ماں اولمپیاس، بیوی روشنک (رخسانہ) اور بیٹے کے ہاتھ پاؤں باندھ کر پانی میں ڈبو کر مار ڈالا۔ سکندر کی وفات کے صرف 13 سال بعد سکندر کی کی نسل کا نام و نشان تک ختم ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments