پاکستان ریلوے کے پینشنر اور ملازمین کی بیوائیں تا حال اپنے واجبات سے محروم


پاکستان ریلوے وہ ادارہ ہے جو معاشی طور پر ملک عزیز کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

پاکستان ریلوے ملک میں نقل و حمل کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جو کہ آمد و رفت کی صورت میں پاکستانی عوام کی 70 فیصد سے زیادہ ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ یہ سب سے زیادہ آرام دہ، پرسکون اور محفوظ ترین سفر مہیا کرتا ہے۔ اگر چہ موجودہ جدید دور میں اسے نقل و حمل کا برق رفتار ذریعہ تو تصور نہیں کیا جاتا ہے مگر آج اس کمر توڑ مہنگائی اور حادثاتی دور میں بھی یہ اپنی جگہ محفوظ اور کم خرچ سفر کی ضمانت ضرور ہے۔ اس میں پیسنجرز اور سامان کو لے جانے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ہاتھی، گھوڑے، اونٹ خچر اور کتے سے لے کر گائیں، بھینس، بھیڑ بکریوں اور ان کو خوراک کے طور پر دیے جانے والے چارہ تک لے جانے کی سہولیات موجود ہیں۔ اسی طرح بائی سائیکل، موٹر سائیکل، موٹر کار اور ٹرک سے لے کر ٹینکوں اور لمبی رینج کی فائرنگ کرنے والی ہیوی آرٹلری تک کی مشینری اور کنٹینرز کے ساتھ ساتھ ان میں استعمال ہونے والے ایندھن کے لیے ایک خاص قسم کا رولنگ اسٹاک دستیاب ہے۔ ٹریک پر ہر چلتی ہوئی گاڑی ایک اشتہار ہے۔ یہ سلوگن ہے حفاظت، رفتار اور وقت کی پابندی کا ۔ اس میں ایک بہت ہی قابل اعتماد اور کامل اکاؤنٹنگ سسٹم ہے۔ حادثات کی روک تھام کی نگرانی کا ایک منظم اور مضبوط حفاظتی نظام موجود ہے۔ ان تمام معیاری ترجیحات کے ساتھ، یہ حکمت عملی کے لحاظ سے ملکی سلامتی اور ملکی دفاع کے لیے دوسری سب سے بڑی دفاعی لائن کی اہمیت کا حامل ادارہ ہے جسے ہم نے مانا تو ہے مگر کبھی اسے دل سے تسلیم نہیں کیا ہے۔

آج پاکستان ریلوے اور اس ادارے سے منسلک محنت کش جس بد حالی اور زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ یوں تو یہ کہانی کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ مگر بد قسمتی سے گزشتہ ساڑھے تین/چار سال پر محیط تحریک انصاف کی حکومت نے اس ادارے اور اس کے محنت کشوں کے ساتھ جو ناروا سلوک رکھا اس رویے نے ادارے کو مکمل تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ناقص منصوبہ بندی سیاسی بندر بانٹ اور اس کے وسائل کے بے جا، بے دریغ اور غلط استعمال نے جہاں ادارے کونا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے وہیں اس کے محنت کشوں کو ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ ایک طرف تو اربوں روپے کے خسارہ کا رونا رو کر اور بہانہ بنا کر چھوٹے ملازمین کے لئے تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین، بیواؤں اور یتیم بچوں کی پنشن کا حصول مشکل بنا دیا گیا تھا تو دوسری جانب محکمہ ریلوے کی جانب سے دفاتر کی تزین و آرائش کی مد میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا تھا تو دوسری جانب درجنوں من پسند افسران اور دیگر ملازمین کو لاکھوں روپے کے کیش انعامات سے نواز جا رہا تھا۔ ان تمام حالات اور واقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا تھا کہ پاکستان ریلوے ابھی بھی اس سطح تک زوال پذیر نہیں ہوا تھا کہ تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی بھی محکمہ کے لیے مسئلہ بن جائے۔

ریل کے محنت کش اور مزدور کے حالات زندگی انتہائی نا گفتہ بہ ہوچکے تھے۔ محنت کشوں کے ساتھ انتہائی ناروا برتاؤ کیا جاتا رہا۔ محنت کشوں کو ایسے القاب سے نوازا گیا جس کی داستان کو قلم لکھنے سے قاصر ہے۔

پاکستان ریلوے کے محنت کش دوران سروس اپنے گھروں سے سینکڑوں میل دور رہ کر یہ اپنی ڈیوٹیاں، ذمہ داریاں جس محنت، لگن اور ایمان داری کے ساتھ نبھاتے ہیں اس کی کوئی مثال نہیں ملے گی۔ ڈیوٹی کے دوران بوڑھے ماں باپ، بیوی اور بچوں سے دوریاں ماں باپ کی بیماری بچوں کی تعلیم یا ان کے کوئی بھی دکھ و تکلیف ان کی اپنی چھوٹی موٹی تکلیف یا پریشانی میں یہ دوران ڈیوٹی اپنے فرائض کی انجام دہی میں کبھی بھی آڑے نہیں آنے دیتے بلکہ یہ اپنی ڈیوٹی نہایت ہی ذمہ داری اور خندہ پیشانی کے ساتھ سر انجام دینے کو اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔

آندھی آئے یا طوفان۔ سرد ٹھٹھرتی ہوئی راتیں ہوں یا پھر جھلساتے ہوئے سورج کی گرمی ہو یہ ان تمام موسمی شدت اور اثرات سے بے نیاز ہو کر بس ریل کے پہیے کو رواں دواں رکھنے ہی میں مگن رہتے ہیں۔ ریل کے پہیے کو رواں دواں رکھنے کی خاطر اس ادارے کے محنت کشوں نے اپنے ہاتھ اور پاؤں کٹوا ڈالے اور کتنے ہی محنت کشوں نے اپنے جانوں کے نذرانے پیش کیے ۔ مگر کبھی اس کے پہیے کو رکنے نا دیا۔ ادارے کی فلاح ادارے کی بقاء پر کبھی حرف نہ آنے دیا۔

اپنی اور اپنے اہل و اعیال کی چھوٹی سے چھوٹی خواہشات کو اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی کی خاطر ادارے پر قربان کر ڈالا۔ اپنی جوانی پہاڑوں صحراؤں اور ریگستانوں میں گزار دی۔ اب تو بالوں میں چاندی چمکنے لگی ہے۔ زندگی بڑھاپے کی طرف بڑھنے لگی۔ کچھ کے ماں باپ اس دار فانی سے رحلت فرما چکے ہیں جو زندہ ہیں وہ اب ضعیف العمری کی حالت میں ہیں۔ اولادیں جواں ہو چکی ہیں۔ انسانی فطرت بھی ہے اور فطری تقاضا بھی ہے کہ جب ذمہ داریاں بڑھتی ہیں تو عمر کے ساتھ ساتھ انسان کی سوچ بھی بدلتی ہے۔

خواب، امید، تمنائیں، تعلق، رشتے
جان لے لیتے ہیں آخر یہ سہارے

نئی امیدیں اور تمناؤں کے خواب سجا کر اپنے رشتوں کی طرف پلٹنے کا وقت آن پہنچتا ہے۔ دماغ میں نئے ولولے نئی خواہشیں جنم لیتی ہیں۔ کہ اب اپنے بچوں کا سر ڈھانپنے کے لئے اپنی چھت ہوگی۔ جہاں وہ اپنے اہل و اعیال کے ساتھ زندگی کے آخری لمحات پرسکون گزارے گا، اپنی بیٹیوں کے ہاتھوں پر مہندی سجا کر ان کو باعزت طریقے سے ڈولی میں بیٹھا کر رخصتی ہوگی۔ بیٹوں کے ماتھے پر سہرے سجائے جائیں گے۔ ان کے بہتر مستقبل کے لیے ان کو اعلٰی تعلیم دلوائی جائے گی۔ یہ وہ خواب ہیں جنہیں ایک محنت کش اپنے ذہنوں میں سجا کر اپنی زندگی کے قیمتی 35 سے 40 سال اپنے ادارے پر قربان کر دیتا ہے۔

جیسا کہ میرے وطن عزیز میں وزیروں، مشیروں، افسر شاہی، ججز، وکلاء اور مقتدر اداروں کو استحقاق حاصل ہے۔ کیا مجال ہے کہ ان کے استحقاق میں کوئی بال برابر بھی فرق آ جائے۔ آندھی آئے یا طوفان ان کے استحقاق میں کوئی کمی واقع نہیں ہو سکتی۔ مگر یہاں پر استحقاق نام کی کوئی چیز اس ملک کے محنت کش اور مزدور کو حاصل نہیں ہے جس کا زندہ اور جاگتا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان ریلوے سے یکم جولائی 2020 سے لے کر اب تک ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین اور دوران سروس وفات پا جانے والے ملازمین کی بیوائیں یتیم بچوں کو ان کو ادا کیے جانے والے تمام واجبات سے محروم رکھا گیا ہے جو کہ سراسر نا انصافی اور ظلم کے مترادف ہے

نہایت ہی دکھ اور افسوس دہ امر ہے کہ وہ ملازمین جنہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی ماہ و سال نہایت ایمانداری، محنت اور لگن کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی میں محکمہ ریلوے اور وطن عزیز کی خدمت کے نذر کیے۔ ان کی ان تمام خدمات کو یکسر فراموش کر کے ان کو ان کے جائز حقوق سے ابھی تک محروم رکھا گیا ہے ۔

ان کے واجبات کی ادائیگی نہ ہونے کے سبب یہ ریٹائرڈ ملازمین اپنی زندگی انتہائی کسمپرسی کے حالات میں گزارنے پر مجبور ہیں عمر کے اس حصے میں اب یہ کوئی دوسری محنت مشقت کرنے سے بھی قاصر ہیں۔

کمر توڑ بے لگام مہنگائی، قلیل آمدنی اور اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے محرومی کے سبب یہ مسلسل ذہنی انتشار اور دباؤ کی وجہ سے مہلک بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ مالی مشکلات کے سبب اپنا مناسب علاج نہ کروا سکنے کی وجہ سے اکثریت چارپائی پر ہیں اور کتنے ہی بیماریوں کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے اس دنیائے فانی سے رحلت فرما چکے ہیں۔ وفات پا جانے والے ملازمین کی بیوائیں اور یتیم بچے بے سروسامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بچے اپنی تعلیم سے محروم اور اپنی ادھوری تعلیم کو مکمل کرنے سے قاصر ہیں۔ جوان بچیاں گھروں پر بیٹھی ہیں جن کے سروں میں چاندی اتر چکی ہے۔ گھروں کے چولہے بجھ چکے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وفات پا جانے والے کے گھر سے کفن دفن کے پیسے بھی ملنا محال ہوچکے ہیں۔

انتہائی رقت آمیز مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ زندگی اجیرن بن چکی ہے اور مرنا محال ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں خادم پاکستان وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان اور وفاقی وزیر ریلوے سے التماس ہے کہ خدارا اس طرف توجہ فرمائیے گا۔ ان ضعیف العمر پینشنرز بیواؤں اور ان کے یتیم بچوں کی داد رسی فرمائیے گا۔ ان کو ان کے جائز حقوق دلوائیے گا۔ ان کو بھی معاشرے میں جینے کا حق دیجئے گا۔

امید واثق ہے کہ درج بالا حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے خادم پاکستان میاں محمد شہباز شریف وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان اور وفاقی وزیر ریلوے ان تمام انسانیت سوز مسائل کو دیکھتے ہوئے ریلوے سے ریٹائرڈ ہونے والے اور دوران سروس وفات پا جانے والے ملازمین کی بیواؤں اور یتیم بچوں کی ان پریشانیوں اور مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے بقایا واجبات کی ادائیگی کے لیے فوری احکامات صادر فرمائیں گے۔ جو کہ گزشتہ تین سال سے اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہوئے بیٹھے ہیں۔ ضعیف العمر پینشنرز، بیوائیں اور یتیم بچے آپ کی درازی عمر کے لیے ہمیشہ دعا گو رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments