کیا شرم سے ڈوب مرنے کا وقت آ گیا ہے؟


ہم نے کئی بار سڑکوں پر ٹائر جلتے دیکھے۔ آنسو گیس کی شیلنگ، بہیمانہ گولیوں کی بوچھار، بچوں کی گود میں ماؤں کا قتل، لاٹھیوں کی بوچھاڑ، عوام اور ریاست کی رسہ کشی، جلاؤ گھیراؤ، اور سر بکف ”مردان حر“ ۔ کئی بار دیکھا کہ جن عوام کے حفظ و امان کا حلف ریاست کے مستکبرین اٹھاتے رہے ہیں، اسی عوام پر زمین تنگ کرنے کی ریت بھی نبھاتے رہے ہیں۔ مگر عوام ہر حال میں ناموس رسالت کے نام پر ماریں کھانیں، شہادتیں وصول کرنے، اور آگ لگانے نکلتے رہے ہیں۔

عمائدین نے جب بھی رسالت مآب ﷺ کے نام پر آواز دی، اپنے اپنے فرقے کے مطابق عوام سر پٹ دوڑتے چلے آئے۔ ریاست کے لیے عوام سے زیادہ اہم ریاستی اداروں کی رٹ ہونے کے باعث جنگ کا سماں بندھتا رہا، سر پھٹتے رہے، ہڈیاں ٹوٹتی رہیں، جانیں جاتی رہیں، مقبرے تعمیر ہوتے رہے، اور عمائدین کی سیکیورٹی کا خرچ، ان کی مشہوری، اور ان کی گاڑیوں کی تعداد بڑھتی رہی۔

عوام اور ریاستی اداروں میں تناؤ کی صورت میں کون حق پر اور کون باطل پر ہوا کرتا تھا، اس سے قطع نظر، لا تعداد دھرنوں اور مارچوں کے بعد ہمارا آج کا طرز عمل کیسا ہے، دیکھ کر شرم سے ڈوب مرنے کو جی چاہتا ہے۔

بوقت تحریر تین روز گزرنے کو ہیں۔ بھارت کی حکومتی جماعت کے اہم نمائندے نے رسول عربی ﷺ کی شان میں دن دیہاڑے مجمعے کے سامنے خرافات بکی ہیں۔ بھارتی مسلمان صحافیوں کے احتجاجی سماجی پیغامات دیکھ کر معلوم پڑا کہ مودی حکومت نہ صرف اس گھٹیا شخص کے جملوں پر نادم نہیں ہے، اس کے دفاع میں پیش پیش ہے۔ تمام مسلم امہ میں سے کسی ایک بھی حکومت کی جرات نہیں ہوئی کہ بھارتی سفیر کو بلوا کر واجبی احتجاج ہی ریکارڈ کروا دے۔

اور پاکستان! سبحان اللہ۔ ہمارے ہاں تو جمہوریت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام بھی ہے۔ ایمان مزاری نے کسی کو بے غیرت کہہ دیا ہے اور غیرت کی تعریف دنیا کا سب سے بڑا آئینی مسئلہ بن چکا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے لیے کسی نے کوئی بکواس کی ہے تو اس سے عمائدین کو کیا فرق! سب حکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اور جو باہر ہیں، وہ حکومت کے مزے دینے والوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے، تا کہ فٹافٹ واپس آ کر حکومت کے مزے لوٹ سکیں۔ کسی ایک بھی مذہبی تحریک نے مذمتی مارچ تو کیا، مذمتی بیان بھی جاری نہیں کیا۔

عوام بھی شہنشاہ ہیں۔ بالخصوص ہماری یوتھ کہ جس نے اتحاد کی ایسی مثال پیش کی ہے، جو پہلے نہیں دیکھی تھی۔ نوجوان نسل نے ہر قسم کی تفریق کو ترک کر دیا ہے۔ نوجوان کا تعلق کسی بھی رنگ، نسل، فرقہ، گروہ، یا خاندان سے ہو، مکمل طور پر اتحاد قائم ہے کہ آواز اٹھانی ہے تو فقط ان کے لیے جن کی شکل ٹی وی پر آتی ہے۔ جو یا تو ایکٹنگ کی وجہ سے، یا سنگیت کی وجہ سے، یا کم از کم اپنے بازاری افئیرز کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔

مثلاً، سید علی گیلانی گزشتہ برس اس جہاں سے کوچ کیے تو کسی کو معلوم بھی نہ تھا کہ یہ صاحب کون ہیں۔ مگر اسی دن اتفاق سے ایک بھارتی ٹی وی پروگرام سے شہرت پانے والا کوئی نوجوان فوت ہوا تو اس طرح سوگ منایا گیا جیسے اپنے گھر کا جی چلا گیا ہو۔ کئی روز تک سوگ منایا جاتا رہا۔ یٰسین ملک کو عمر قید کی سزا دی گئی تو کسی نوجوان کو معلوم نہیں کہ اس شخص نے کیسے عمر بھر بھارتی مظالم کا مقابلہ کیا ہے، ماریں کھائی ہیں، جیلیں کاٹی ہیں۔

ایک گلو کار کا قتل ہوا ہے، ہر فرد سوگ منا رہا ہے۔ سنا ہے اس گلوکار نے اقلیتوں کے حق میں بہتیری آواز اٹھائی، جس کی وجہ سے ہندوتوا کے ماننے والوں نے قتل کروا دیا۔ یقیناً ایک انسان دوست آدمی تھا۔ گلوکار بھی کمال کا ہو گا۔ اس آدمی کا قتل آدمیت کا قتل ہے۔ مگر شرم سے ڈوب نہ مریں ہم کہ ہم تب تک کسی کا دکھ نہیں مناتے، اسے گھر کا فرد نہیں سمجھتے، جب تک وہ ایکٹر، سنگر، یا پلے بوائے نہ مشہور ہو۔

کیا مذہب و ریاست و آزادی کے لیے، حق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو، نوجوانوں کے مستقبل کے لیے اپنا حال قربان کرنے والوں کو اب یہی پیغام ہے کہ باطل کے سامنے ڈٹ جانے سے زیادہ اپنی پی آر بنانے میں زور لگائیں؟

کراچی میں ایک معصوم کا پاؤں کٹ گیا۔ پاؤں دراصل ایسکیلیٹر میں پھنس گیا۔ کھینچ کر چیرتے ہوئے نکالا گیا۔ اس خاندان کا جینا حرام کر دیا ہے پلازے کے مالکان نے۔ مجال ہے کوئی اس کے لیے آواز اٹھائے۔ ان ہی دنوں میں عامر لیاقت کے گل چھروں پر آواز اٹھانا زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ کچھ ہی دن پہلے کراچی بحریہ ٹاؤن میں ایک نوجوان کو دن دیہاڑے گولیاں ماری گئیں۔ سبحان اللہ! کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہیں۔ کی بورڈ واریئرز بھی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ ایک آدھ خبر کوئی ایک آدھ فرد شیئر کر دیتا ہے۔ مگر دکھ تو کسی کو بھی نہیں۔ کیوں کہ یہاں مظلوم کوئی مشہور سنگر، ایکٹر یا پلے بوائے تھوڑا ہی تھا کہ اس کے لیے سڑکوں پر جایا جائے۔

لگتا ہے، قدرت بھی ہمیں منہ چڑھا رہی ہے۔ جب بھی کوئی حق کے لیے جان کی بازی لگاتا ہے، کسی نا کسی میڈیا پرسن کا انتقال ہو جاتا ہے۔ پوری قوم حق کے لیے جان لڑانے والے کو چھوڑ کر اس فرد کا سوگ مناتی ہے۔ یوں ہم قلم کی نوک سے اپنا دل چیرنے والے اپنا سا منہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس تکلیف کا اظہار مایوسی کے باعث نہیں ہے۔ دعا ہے کہ ہمارے آئینے میں اپنے چہرے پر لگے داغ کو دیکھ کر قوم ایک دفعہ منہ دھونے کی کوشش ضرور کرے گی۔

؎ پرندے اڑنے والے بھی، زمیں بھولا نہیں کرتے
یہ خصلت آدمی کی ہے، یہ عادت آدمی کی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments