جد و جہد آزادی کشمیر اور آفتاب حریت یاسین احمد ملک


ابتداء آفرینش سے ہی دنیا میں ایسے نامی گرامی انسان آئے جن کا ڈنکا چہار دانگ عالم میں بجتا تھا ان میں شہنشاہ بھی ہوئے، بادشاہ بھی ہوئے، سپہ سالار اور جرنیل بھی ہوئے، شاعر اور ادیب بھی ہوئے، مشہور امراء اور تاجر بھی گزرے، مصلح، دانشور، سیاستدان، انقلابی لیڈر اور آزادی و حریت کا پرچم بلند کرنے والے بھی گزرے، ان میں سے اکثر قصہ پارینہ ہو گئے اور کچھ کا نام رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔ دنیا میں اپنی قوم کے لئے آزادی کی جد و جہد کرنے والے انقلابیوں کی ایک طویل فہرست ہے جن کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے، تاہم موجودہ دور کی تحاریک آزادی میں سے تحریک آزادیٔ کشمیر اور اس کے نمایاں لیڈران کی الگ ہی اہمیت ہے اس لئے کہ مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیا کا نیوکلیئر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے جس پر لاکھوں انسانوں کی بقا کا دار و مدار ہے۔

یوں تو برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی تنازعہ کشمیر نے جنم لیا تھا اور اس کی آزادی کی کوششوں کا آغاز ہو چکا تھا جس کے لئے ان گنت قربانیاں دی گئیں، ہزاروں لوگ شہید ہوئے، بے شمار املاک نذر آتش کی گئیں، کاروبار تباہ ہوئے، ہزاروں عفت مآب خواتین کی عصمت دری کی گئی، پبلک سیفٹی ایکٹ اور ٹاڈا جیسے ظالمانہ قوانین کی آڑ میں ان گنت لوگوں کو مقدمات کے بغیر پابند سلاسل کیا گیا، اس مسئلے کو سیاسی انداز میں حل کرنے کی بھی بھرپور کوششیں کی گئیں ان سیاسی راہنماؤں میں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، سیف الدین کچلو، اشرف صحرائی، عباس انصاری، آغا حسن بڈگامی، شبیر احمد شاہ، عبدالغنی بٹ، امان اللہ خان، آسیہ اندرابی، ایوب ٹھاکر، شیخ عبدالعزیز، مسرت عالم وغیرہ کا نمایاں کردار ہے لیکن انیس سو اسی کی دہائی کے آخر میں تحریک آزادی کشمیر میں ایک ایسا موڑ آیا کہ جس کے بعد عالمی سطح پر یہ مسئلہ پوری شد و مد سے نمایاں ہوا، اور اس کا آغاز نوجوانوں کی مسلح جد و جہد سے ہوا، اس سرد خانے میں پڑے مسئلے کو زندہ کرنے میں مسلح جدوجہد کرنے والے نوجوانوں کا اہم کردار ہے۔

مسلح تحریک کا آغاز کرنے والوں میں مقبول احمد بٹ شہید کا نام سر فہرست ہے جن کو جدوجہد آزادی کی پاداش میں 11 فروری 1984ء کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی بعد میں اس مشن کو آگے بڑھانے والوں میں اشفاق مجید وانی، جاوید احمد میر، یاسین احمد ملک، احسن ڈار، اشرف ڈار، غلام رسول ڈار، علی محمد ڈار، شیخ عبد الوحید، سید صلاح الدین، مسعود اظہر، مشتاق زرگر، شیخ احمد یاسین، ریاض نائیکو، حمید شیخ، افضل گورو، ہاشم قریشی، عاشق حسین فکتو، ذاکر رشید بھٹ، فاروق احمد ڈار، محمد احسان ڈار، عبدااللہ یوسف، برہان مظفر وانی شہید سر فہرست ہیں، بالخصوص جولائی 2016 ء میں برہان وانی کی شہادت سے اس تحریک میں ایک نیا ولولہ اور جوش و جذبہ پیدا ہوا۔

حالیہ دنوں میں، 2019ء سے پابند سلاسل، بطل حریت یاسین احمد ملک کو ، نام نہاد جمہوریت کے دعوے دار ملک، گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے اور امن انصاف کے پرچارک ہندوستان کی جانب سے متعصبانہ، یک طرفہ اور غیر منصفانہ سزا کے فیصلے سے ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے اور تمام مسلمانان عالم بالخصوص کشمیریوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور ان میں سخت بے چینی اور اشتعال پایا جاتا ہے۔

یاسین احمد ملک 3 اپریل 1966ء کو سرینگر میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم سرینگر سے حاصل کی اور ایس پی کالج سرینگر سے گریجویشن مکمل کی، 1980 ء میں زمانہ طالب علمی میں فوج اور ٹیکسی ڈرائیوروں کے درمیان جھگڑے کو دیکھ کر ان کے رجحانات میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور وہ آزادی، مزاحمت اور علیحدگی کے نظریات کے حامی بن گئے اور انھوں نے تالا پارئٹی کے نام سے ایک انقلابی تنظیم کی بنیاد رکھی اس پلیٹ فارم سے انھوں نے انقلابی اور سیاسی مواد پر مبنی لٹریچر کی تقسیم، 1983ء میں انڈیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان میچ اور نیشنل کانفرنس کے جلسے کو درہم برہم کرنے کی کوششوں سمیت مقبول احمد بٹ کی سزا کے خلاف احتجاج کو منظم کرنے جیسے نمایاں اقدامات کیے جن کی پاداش میں انہیں چار ماہ تک قید میں رکھا گیا، 1986ء میں رہائی کے بعد انہوں نے تالا پارٹی کو اسلامک سٹوڈنٹس لیگ کے نام سے از سر نو منظم کیا جو ایک اہم مزاحمتی تنظیم بن گئی جس کے دیگر اہم راہنماؤں میں اشفاق مجید وانی، جاوید احمد میر اور عبدالحمید شیخ شامل تھے۔

1987ء کے ریاستی انتخابات میں اسلامک سٹوڈنٹس لیگ یاسین ملک کی قیادت میں مسلم یونائیٹڈ فرنٹ میں شامل ہو گئی لیکن اس نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا بلکہ اس نے سرینگر کے تمام حلقوں میں مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کے لئے پرزور انتخابی مہم چلائی، یاسین ملک نے امیر اکدل سرینگر سے مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کے امیدوار محمد یوسف شاہ کے حق میں کامیاب انتخابی چلائی اور ووٹوں کی گنتی کے آغاز میں واضح ہو چلا تھا کہ محمد یوسف شاہ کو تاریخی کامیابی حاصل ہو گی لیکن ہندوستانی روایتی فسطائی ہتھکنڈوں کی بدولت انتخابی عمل کو ہائی جیک کر کے نیشنل کانفرنس کے امیدوار غلام محی الدین شاہ کو کامیاب قرار دیا گیا اور دھاندلی کے ذریعے ریاستی انتخابات میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے اتحاد نے باسٹھ نشستیں حاصل کر کے حکومت قائم کر لی اور یاسین ملک اور محمد یوسف شاہ کو بغیر کسی الزام اور مقدمہ قائم کیے گرفتار کیا گیا لیکن کوئی عدالتی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور یاسین ملک 1987ء کے اواخر تک بے گناہ قید رہے۔

رہائی کے بعد انہوں نے کنٹرول لائن پار کر کے آزاد کشمیر میں عسکری تربیت حاصل کی اور 1989ء میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سرکردہ لیڈر کی حیثیت سے مقبوضہ کشمیر واپس گئے اور اپنے ساتھیوں اشفاق مجید وانی، جاوید احمد میر اور عبدالحمید شیخ کے ساتھ حاجی (HAJY) کے نام سے مشہور گوریلا گروپ کے ساتھ مسلح کاروایوں کا آغاز کیا، اس تحریک کو عوام میں زبردست پذیرائی ملی، اس گروپ کی نمایاں کاروایوں میں، حکومتی، فوجی اہلکاروں اور اہم تنصیبات پر حملوں کے علاوہ اس وقت کے وزیر داخلہ مفتی سعید کی بیٹی ربیعہ سعید کے اغوا کا واقعہ سر فہرست ہے۔

مارچ1990ء میں اشفاق مجید وانی بھارتی فوج کے ساتھ جھڑپ میں شہید ہو گئے، اگست 1990ء میں یاسین ملک ایک کارروائی کے دوران زخمی حالت میں گرفتار ہو گئے، 1992ء میں حمید شیخ بھی گرفتار ہوئے یوں یہ مسلح گروپ ختم ہو گیا، 1992ء تک جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے حریت پسندوں کی اکثریت فوج کے ہاتھوں شہید ہو گئی اور مبینہ طور پر ، پاکستانی حکومت اور فوج کی حمایت یافتہ تنظیم حزب المجاہدین کے نام سے ابھرنا شروع ہوئی اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو پاکستان کے ساتھ الحاق کی حمایت نہ کرنے کی پاداش میں اخلاقی اور مالی امداد سے محروم ہونا پڑا یوں یہ تنظیم بہت کمزور ہو گئی اور دیگر مسلح تنظیمیں جیسے حرکت المجاہدین، حرکت الانصار اور لشکر طیبہ وغیرہ نمایاں ہونا شروع ہوئیں، ان تنظیموں کی آپس کی چپقلش سے اس تحریک کو بہت نقصان پہنچا، ان تنظیموں کے ارکان نے، مخالفت میں نہ صرف ایک دوسرے کو قتل کیا بلکہ مخبری کر کے بھارتی فوج کے ہاتھوں گرفتار بھی کروایا۔

1994ء میں رہائی کے بعد یاسین ملک نے یک طرفہ طور پر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی جانب سے مسلح جدوجہد ترک کر کے پرامن جد و جہد کرنے کا اعلان کیا، گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کے مطابق، جمہوری راستہ اختیار کرنے اور بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا لیکن ان کا موقف تھا کہ مسئلے کے تینوں فریق یعنی انڈیا، پاکستان اور کشمیری بات چیت میں شامل ہوں، 1995ء میں ریاستی انتخابات کے خلاف یاسین ملک نے بھوک ہڑتال کا اعلان کیا کیوں کہ ان کے مطابق انتخابات محض ڈھونگ اور بھارت کا جمہوری چہرہ دکھانے کی کوشش ہے، ان کی پرامن جد و جہد کو پاکستان اور آزاد کشمیر میں زیادہ پذیرائی نہیں ملی کیوں کہ وہ ریاست کی تقسیم کے مخالف تھے اور پوری ریاست کی آزادی کی جامی تھے اسی بنا پر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی چیئرمین امان اللہ خان کے ساتھ ان کے اختلافات ہو گئے اور ان کو جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی صدارت سے سبکدوش کر دیا گیا، یوں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی لیکن یاسین ملک نے اپنی متعین کردہ سمت میں اپنی جد و جہد جاری رکھی۔

یاسین ملک کو قید و بند کی صعوبتوں کے دوران شدید جسمانی اور ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑا اور اس دوران ان کی ایک آنکھ کی بینائی بھی ضائع ہو گئی، کئی بار ان کو شدید زخمی ہونے کے باعث مردہ قرار دے دیا گیا لیکن ان کے پائے استقلال میں لرزش نہیں آئی، 2007ء میں انہوں نے۔ سفر آزادی کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد دنیا کے چیدہ چیدہ راہنماؤں سے مل کر ، ہندوستان کے ظلم و جبر سے ٓگاہ کرنا اور کشمیر کی آزادی کے بیانیہ کو تقویت دینا تھا، اس دوران انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے ہندوستان مخالف تحریک اور آگاہی کے لئے، 3500 سے زائد شہروں، قصبوں اور گاؤں کا دورہ کیا۔

آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان بس سروس کے آغاز کے بعد وہ پاکستان آتے رہے اور جدوجہد آزادی کے حوالے سے مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیا، اسی دوران 2009ء میں وہ ایک پاکستانی خاتون محترمہ مشعال ملک کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے، ان کے ہاں 2012ء میں بیٹی کی ولادت ہوئی جس کا نام رضیہ سلطانہ ہے مگر وہ بہت ہی قلیل وقت اپنے خاندان کے ساتھ رہے۔

اکتوبر 1999ء میں یاسین ملک کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا اور پھر مارچ 2002ء میں پاٹا کے تحت گرفتار کر کے ایک سال کے لئے پابند سلاسل کیا گیا، 2019ء میں گرفتاری کے بعد ، مارچ یاسین ملک اور ان کے چھ ساتھیوں پر ٹاڈا، آرمز ایکٹ 1959ء اور رنبیر پینل کوڈ کے تحت 1990ء میں راولپورہ، سرینگر میں چالیس انڈین ائر فورس کے سپاہیوں پر حملہ کرنے کا مقدمہ بنایا گیا جس میں چار سپاہی ہلاک ہوئے تھے، دوسری طرف ان پر ربیعہ سعید کو اغوا کر کے اپنے پانچ ساتھیوں کو چھڑوانے کا مقدمہ بھی چل رہا تھا، 2019ء میں نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (NIA) نے یاسین ملک اور ان کے چار ساتھیوں پر پاکستان سے مالی مدد لے کر 2010ء اور 2016ء کے دوران دہشت گردی، پتھراؤ اور گڑبڑ پھیلانے کا مقدمہ قائم کیا، مارچ 2022ء میں دہلی کی ایک عدالت نے یاسین ملک پر UAPA اور انڈین پینل کوڈ کے تحت پاکستان کی مدد سے دہشت گردی کو منظم کرنے، بڑے پیمانے پر احتجاج کو منظم کرنے کا الزام لگایا جس کے نتیجے میں پڑے پیمانے پر پر تشدد ہنگامے ہوئے اور لشکر طیبہ جیسی دہشت گرد تنظیم کے ساتھ روابط جیسے الزامات کے تحت مقدمہ بنایا، عدالت نے قرار دیا کہ یاسین ملک UAPA کی دفعہ 38 اور 39 کے مطابق پر اس مجرمانہ سازش کے واضح ثبوت موجود ہیں، 10مئی 2022 کو یاسین ملک کو ان پر عائد کردہ الزامات پر فرد جرم عائد کی گئی اور 19 مئی 2022ء کو انہیں سازش اور ریاست مخالف الزامات کا مرتکب قرار دیا گیا اور 25مئی 2022ء کو انہیں عمر قید اور جرمانے کی سزا کا فیصلہ سنایا دیا گیا۔

اس بے رحمانہ، غیر منصفانہ اور یک طرفہ فیصلے کے خلاف تمام دنیا کے مسلمانوں بالخصوص کشمیریوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور کشمیری سراپا احتجاج ہیں، یاسین ملک صاحب نے یہ جانتے ہوئے کہ انہیں انصاف نہیں ملے گا اس کیس میں کسی وکیل کے ذریعے پیروی نہیں کی، آزاد کشمیر کے موجودہ وزیراعظم نے اس کیس کو عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کا عندیہ دیا ہے لیکن قانونی ماہرین کے مطابق یہ کیس عالمی عدالت انصاف میں دائر نہیں کیا جا سکتا، تاہم تمام کشمیریوں کو تمام دنیا میں اس پر احتجاج کر کے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنا چاہیے، اس کے علاوہ اس کیس کے خلاف بھارت کی عدالتوں میں اپیل بھی دائر کی جانی چاہیے، اہم بھارتی قیدیوں کی رہائی کے عوض یاسین ملک کی رہائی کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے۔

یاسین ملک کی بے لوث، ان تھک اور غیر متزلزل جد و جہد آزادی رہتی دنیا تک کے لئے مثال ہے، االلہ تعالٰی انہیں اپنی حفظ و امان میں رکھے اور رہائی نصیب فرمائے! آمین

؂جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments