شری متی خوشونت سنگھ


ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے فرمان ”ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں“ کو جو مستند نہ مانے، بے بہرہ ہی کہلائے گا۔ یہی مشتاق احمد یوسفی بیان کرتے ہیں کہ میرے جاننے والوں میں ایک صاحب تھے جو مجھے شاہ جی کہہ کر پکارتے تھے۔ میں اس پہ مخمصے کا شکار تھا۔ بس ایک دن ہمت کی اور پوچھ لیا کہ صاحب آپ مجھے شاہ جی کیوں کہتے ہیں جبکہ میں سید نہیں ہوں۔ بولے حضور مجھے آپ بہت اچھے لگتے ہیں اور چاہتا ہوں کہ آپ کی بے حد عزت کروں۔ اب عزت کرنے کے لیے کسی جائز یا ناجائز جواز کا سہارا تو لینا ہی پڑتا ہے۔ میں ایسا چپ ہوا کہ بس مت پوچھیے۔

محاورے کے مطابق ایسی بات کرنے والے کو منہ پھٹ کہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی یہ صفت ایسی بے مثال ہوتی ہے کہ دوسرے تو کیا ان کے اس ”شر“ سے بعض اوقات وہ خود بھی محفوظ نہیں ہوتے۔ واہگہ کے اس پار ایک قدیم بستی ہے، جسے قسام ازل نے کچھ یوں قسمت کیا کہ ادوار ہائے آشوب کے معاملے میں کبھی تنگ دست نہ پائی گئی۔ اس بستی کے ایسے ہی ایک دور میں ایک مسافر نے جو میر تقی میر کہلاتے تھے، اس کا ذکر یوں کیا تھا،

دلی جو اک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب جہاں روزگار کے۔

دلی جس کے کوچے ایک طرف اوراق مصور تھے وہیں اس کے باشندگان میں نابغہ اور نایاب ہستیاں ہر زمانے میں اپنی دھج دکھاتی رہیں۔ اب سے چند سال ادھر اسی شہر میں اپنے ہنر قلم کاری میں یکتا ایک شخصیت ہوتی تھی جو خشونت سنگھ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ان کے بارے میں تو آپ نے کیا کچھ نہیں پڑھا ہو گا لیکن لگتا نہیں کہ ان کی بیگم کے بارے میں بھی کچھ پڑھا ہو۔ آئیے انہوں نے اپنی شری متی کی جو تصویر کشی اپنے مضمون ”اپنی ذات کے بارے میں“ کو رقم کرتے ہوئے کی ہے اسے پڑھیے اور بتائیے کہ شری متی جی، شری جی کے برابر کی تھیں یا دو ہاتھ آگے۔ یہ بھی بتائیے کہ یوسفی صاحب کے دوست کی پیروی میں اگر کوئی مداح خوشونت سنگھ جیسے لکھاری کو ”عزت“ دینے کی سوچے تو کیا سابقہ یا لاحقہ استعمال کرے؟

” میری موجودہ زندگی کا خاکہ نامکمل رہے گا اگر میں نے آپ کا تعارف اپنی بیوی سے نہ کروایا۔ بہت سے لوگ جو مجھے یا میرے خاندان کو نہیں جانتے۔ ان کا یہ تاثر ہے کہ یا تو میری بیوی کا وجود ہی نہیں یا ہمارے بہت سے وزیروں کی بیویوں کی طرح کسی گاؤں میں ٹکی ہوئی ہے۔ یہ ایک سنگین غلطی ہے۔ میری بیوی ایک ہیبت ناک کردار ہے اور گھر میں اتنے ہی مضبوط ہاتھوں سے حکمرانی کرتی ہے جیسے کہ اندرا گاندھی نے ہندوستان پر کی۔ وہ ان ماڈرن لڑکیوں کی طرح نہیں جو باب کٹ بال رکھتی ہیں، ٹی شرٹ اور جینز پہنتی ہیں اور ہندی جیسی چی چی بولتی ہیں۔ پھر جب شادی کا موقع آتا ہے تو شوہر کے انتخاب کا حق کسی پالتو جانور کی طرح اپنے والدین کے حوالے کر دیتی ہیں۔ آج سے پچاس سال قبل اس نے بذات خود یہ انتخاب کیا۔

جلد ہی مجھے پتہ چل گیا تھا کہ میں اپنی بیوی پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتا۔ وہ اگر میرے کسی دوست کو پسند نہیں کرتی تھی تو اس کے منہ پر صاف الفاظ میں بتا دیتی تھی۔ جتنی عورتوں کو میں جانتا ہوں ان سب میں ارادے کی مضبوط ہے۔ جب اس کی ماں کو پتہ چلا کہ وہ شراب پیتی ہے تو وہ بہت سٹپٹائی۔ ایک دن وہ کمرے میں طوفان کی طرح گھسی، اس کا گلاس اٹھایا اور پٹخ دیا۔ گلاس ٹوٹا نہیں۔ میری بیوی نے جلدی سے اسے اٹھا کر یہ کہتے ہوئے دوبارہ بھر لیا کہ میں ایک بالغ اور شادی شدہ عورت ہوں۔ آپ کا کوئی حق نہیں کہ ایسا کریں۔

جب اس کی ماں کینسر میں مبتلا تھی تو اس نے میری بیوی سے وعدہ لینا چاہا کہ وہ باقاعدگی سے عبادت کیا کرے گی۔ اپنی مرتی ماں سے میری توجیحات کے باوجود اس نے ہاں کہنے سے انکار کر دیا۔ کہا میں ایسا وعدہ نہیں کروں گی جسے میں نباہ نہ سکوں۔ دوسری طرف اس نے کئی مہینے اپنی ماں کی بیماری میں اس کی خدمت کی۔ ساری ساری رات اس کا سر گود میں رکھ کے دباتی رہی۔ جب اس کا انتقال ہوا تو وہ اس کے پاس تھی۔ وہ اٹھی، نہائی اور کافی ہاؤس میں ناشتے کے لیے چلی گئی۔ وہاں کچھ دوستوں نے اس سے ماں کے بارے میں پوچھ تو بتایا کہ وہ ٹھیک ہے۔

جب وہ گھر آئی تو نوکروں کو کہا کہ وہ ان لوگوں سے نہیں ملے گی جو اس کی ماں کی تعزیت کے لیے آئیں گے۔ اس نے ایک آنسو بھی نہیں بہایا اور نہ ہی آخری رسومات میں شرکت کی۔ اس کے برعکس جب ہمارا کتا سمبا بیمار پڑا تو اس کی دیکھ بھال کے لیے ساری ساری رات جاگتی رہی۔ جب وہ چودہ سال کی پختہ عمر میں مرا تو میری بیوی بہت دلبرداشتہ ہوئی۔

وقت کی پابندی کا اہتمام ہمارے گھر میں اسی کی وجہ سے ہے۔ میں نے ابھی حال ہی میں سیکھا ہے کہ ایسے مہمانوں کو جو لمبے قیام کا ارادہ رکھتے ہوں انہیں کیسے تیز رفتاری سے روانہ کیا جائے۔ اس نے کبھی بھی ان کی پذیرائی نہیں کی۔ کوئی بھی ہمارے گھر میں پیشگی اطلاع کے بغیر نہیں آتا۔ اس کے پاس دو شیلف کھانا پکانے کی کتابوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ ان تراکیب کو کک چندن سے ڈسکس کر کے کھانا بنواتی ہے جو ہمارے ہاں تیس سال سے کام کر رہا ہے۔

وہ نوکروں کے بچوں کو پڑھانے اور ہوم ورک میں ان کی مدد کا کام بھی کرتی ہے۔ کسی کو بھی عشائیے پہ بلائیں چاہے سفرا اور وزیر ہی کیوں نہ ہوں انہیں پابندی وقت کی یاددہانی کرائی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ہم یہ امید نہیں رکھتے کہ ہمارے مہمان رات نو بجے کے بعد بھی قیام رکھیں۔ ایک دفعہ جرمن سفیر اور ان کی بیگم آئے۔ پونے نو بجے تھے جب کھانے سے کچھ دیر بعد سفیر نے سگار نکالا اور میری بیوی سے پوچھا، کیا میں روانہ ہونے سے پہلے سگار پی سکتا ہوں جبکہ روانگی کا وقت بھی قریب ہے۔ میری بیوی بولی، مسٹر ایمبیسیڈر مجھے یقین ہے کہ کار میں آپ اس سے زیادہ لطف اندوز ہوں گے۔ اب واقف حال سفیر صاحب یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ

ع۔ تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

اسی مضمون کے آخری حصے میں انہوں نے اپنی والدہ کو بھی اپنی بے مروت تحریر کا موضوع بنایا ہے۔ ان کی بہر حال خوش قسمتی کہ ذکر کافی مختصر ہے۔

میری والدہ میرے والد کی وفات کے بعد 94 سال کی عمر میں چل بسیں۔ بے ہوشی میں جانے سے پہلے انہوں نے بہت کمزور اور بمشکل سنائی جانے والی آواز میں جو خواہش کی تھی وہ تھی وہسکی۔ یہ انہیں مہیا کر دی گئی۔ انہوں نے وہسکی چڑھائی اور پھر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئیں۔

وہ باتیں جو ہمارے ہاں روایت کی پاسداری کے نام پر تہذیب کے غلاف سے باہر لانا ناپسندیدہ گردانا جاتا ہے انہیں موضوع بنانا اور چسکے لے لے کے بیان کرنا خشونت سنگھ کی تحریروں کا خاصہ رہا ہے۔ اس باب میں ان کے بدمست و بے لگام قلم نے، اپنے ہوں یا پرائے، کسی کے ساتھ کبھی بھی استثنائی سلوک نہیں برتا۔

لہٰذا میرے خیال میں تو سردار جی کی شخصیت کے احاطہ کے لیے چچا کے اس مصرعہ کا سہارا لینا پڑے گا۔
ع۔ ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments