عمران خان بے نظیر بھٹو سے سیکھ لیں


اگر کوئی شخص کسی خوفناک خوش فہمی یا تباہ کن حماقت کی بنیاد پر یہ سمجھنے لگا ہے کہ عمران خان ہر قسم کی طاقت اور اقتدار کے حصول کے مواقع سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ان کا سیاسی مستقبل ختم ہو چکا ہے تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ وہ شخص پاکستان کی تاریخ سیاست اور گرد و پیش کے سماجی مزاج سے مکمل طور پر نا واقف ہی ہے۔

عمران خان کی سیاست سے اتفاق یا اس کی انتظامی صلاحیت کی داد دینا کسی پروفیشنل صحافی کے لئے فی الحال گو کہ ایک مشکل امر ہے لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل یہ ہے کہ آپ عمران خان کی مقبولیت سے انکار کریں۔ بلکہ ماننا پڑے گا کہ وہ پاکستانی سیاست کے ان مقبول ترین رہنماؤں کی لسٹ میں شامل ہیں جن میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد فاطمہ جناح بھٹو ائر مارشل اصغر خان ( ایک مخصوص وقت تک) بے نظیر بھٹو اور نواز شریف شامل ہیں۔

عمران خان پورے پاکستان میں صرف سندھ کے علاوہ مرکز پنجاب خیبر پختونخوا بلوچستان آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں نہ صرف اپنی حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے بلکہ اب بھی کئی وفاقی اکائیوں میں عمران خان کی ہی جماعت برسر اقتدار ہے اور سیاسی و انتظامی طاقت بھی انہی کے ہاتھ میں ہے۔

جبکہ ”طاقت کے مراکز“ میں بھی اسے ایک موثر حمایت حاصل ہے جہاں سے اس کی استدلال سے محروم سیاست کو بھی طاقت اور توانائی فراہم ہو رہی ہے۔

جس کی تازہ ترین مثال ایک بے وقت اور بے بصیرت لانگ مارچ کے دوران پی ٹی آئی کو انہدام سے بچاؤ کی شکل میں سامنے آئی۔

لیکن کیا کیا جائے کہ خان صاحب نے اس شاندار ”موقع“ کو سیاسی فائدہ اٹھانے کی بجائے اس بد نما ایجی ٹیشن کی طرف موڑ دیا جس سے پولیس پر حملے اے ٹی ایم مشینیں کاٹنے اور ہرے بھرے درخت جلانے کی سیاست بلکہ حماقت برآمد ہوئی۔

کاش کہ علی امین گنڈاپور قاسم سوری اور شہباز گل جیسے مشیروں کی بجائے کوئی رجل رشید بھی عمران خان کے آس پاس موجود ہو اور وہ انہیں سمجھا سکیں کہ ان کی مقبولیت کا حجم کیا ہے اور سامنے موجود مواقع کون سے ہیں

اور ان دونوں (مقبولیت اور مواقع ) کے اشتراک سے سیاسی فوائد کی سمت پیش قدمی کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے۔

کیا اسلامی ٹچ جذباتی نعروں اور سطحی گالم گلوچ کے مشورے دینے کے علاوہ کسی مشیر کو دیکھا گیا جس نے موجودہ حکومت خصوصاً پی ٹی آئی کے طاقتور سیاسی حریف مسلم لیگ نون کی پے درپے غلطیوں اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی طرف خان صاحب کی توجہ دلائی ہو۔

کس مشیر نے خان صاحب کے کان میں کہا کہ موجودہ حکومت اور برسراقتدار جماعت سیاسی انتظامی اور مالی معاملات میں کہاں کہاں پنجاب کو ضرورت سے زیادہ ترجیح دے کر سیاسی توازن کھو رہی ہے۔

کس مشیر نے انہیں سمجھایا کہ خیبر پختونخوا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں نہ صرف پی ٹی آئی کی حکومت ہے بلکہ سینیٹ اور پنجاب اسمبلی میں بھی ممبران کی ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں

اس لئے صرف قومی اسمبلی سے استعفے دینا نہ صرف ایک سیاسی حماقت ہے بلکہ اپنے ہی اراکین قومی اسمبلی کے اندر منفی اور لیڈر شپ مخالف سوچ پروان چڑھانا بھی ہے

اس فیصلے کا ایک جذباتی عیاشی کے علاوہ فائدہ تو کوئی نہیں لیکن پارٹی کے لئے نقصانات بے حساب ہیں۔

خان صاحب کو جلسوں کے دوران سٹیج پر لالٹین تباہ دے اور اسلامی ٹچ کے مشورے دینے والے ”اعلی ذہانت کے حامل“ مشیروں نے ایک مقبول سیاسی لیڈر کو اس طرف دھکیلا جہاں سے گالم گلوچ بہتان طرازی الزامات جھوٹ اور فریب کاری کے علاوہ کچھ برآمد ہی نہیں ہو رہا ہے۔

عمران خان کے آس پاس اس بیدار مغز اور ذہین مشیروں کو کہاں تلاش کیا جائے جنہیں عوام کی نفسیات کا مشاہدہ ہونے کے ساتھ ساتھ خبر تک رسائی بھی ہو اور تجزیے پر دسترس بھی۔

جو خان صاحب کو مشورہ دے کہ برسراقتدار جماعت مسلم لیگ نون توہین آمیز انداز میں برے وقت کے کس کس ساتھی کو نظر انداز کر رہی ہے۔

حکومتی اتحاد میں شامل کس رہنما کے بعض قریبی عزیزوں نے کہاں کہاں ہاتھ مارنے شروع کیے ہیں،

نواز شریف کے مقبول بیانیے یعنی سول سپر میسی کے بخیے کہاں کہاں ادھیڑے جا رہے ہیں اور شوق اقتدار کی غبار آلود دبیز لہر بیانیے کو کس حد تک عنقا کر چکا ہے۔

نواز شریف کے مشکل دنوں کے ساتھی اور رفقاء (سیاستدان صحافی دانشور اور سول سرونٹس ) تحفظات اور ناراضگی کا شکار کیوں ہیں اور تحریک انصاف اس سلسلے میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے۔

موجودہ حکومت کی کمزوریاں کون کون سی ہیں اور عوام کن کن مسائل کا سامنا کر رہے ہیں
اپنی کمزوریوں کا اعتراف اور ان پر قابو پانے کے لئے ٹھوس اقدامات
مسائل کے حل کے لئے ہوائی باتوں کی بجائے نئے آئیڈیاز کی تلاش اور سنجیدہ طرز عمل!
یہ وہ مشورے ہیں جو عمران خان کی سیاسی انہدام کو تعمیر اور اٹھان کی طرف موڑ سکتے ہیں

بشرطیکہ عمران خان کے ارد گرد بچگانہ حرکتوں اور سطحی سوچوں والے مشیروں کی جگہ وژنری اور سنجیدہ مشیر لے کر عمران خان کی شخصیت اور سیاست کو کامیابی کی طرف موڑ دیں۔

اس ”تبدیلی“ پر کچھ زیادہ خوش ہونے کی ضرورت بھی نہیں کہ عمران خان کا اقتدار بھی چلا گیا اور اسٹیبلشمنٹ کے معتوب بھی ٹھہرے کیونکہ تاریخی حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں۔

(اور سچ تو یہ ہے کہ تحریک انصاف جیسی موثر ”نادانی“ کو مقتدر قوتیں اپنے لئے کسی نعمت سے کم سمجھتے بھی نہیں سو انہیں کھونے کا نقصان کیوں اٹھائیں )

انیس سو نوے میں اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کو نہ صرف اقتدار سے نکالا بلکہ اس کے شوہر آصف علی زرداری پر مقدموں کی بھرمار کر کے جیل میں بھی ڈالا جبکہ سندھ میں بھٹو خاندان کے سفاک دشمن جام صادق کو وزیر اعلی بنوا کر پیپلز پارٹی پر ایک قہر کی صورت نازل کیا۔

ان برے حالات میں الیکشن ہوئے تو ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی کو صرف پینتالیس قومی اسمبلی کی سیٹیں ملیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ نواز شریف نے پورے ملک میں صفایا کر دیا اور وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔

لیکن واقعی بے نظیر بھٹو کیا جہاندیدہ خاتون سیاستدان تھی!

چند دن بعد پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہوا تو بے نظیر نے سختی کے ساتھ اجتماعی استعفوں کا آپشن رد کر دیا اور آ کر قومی اسمبلی کی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر ”انتظار“ کرنے لگی

رفتہ رفتہ مقبول نواز شریف اور آمریتوں کے پروردہ غلام اسحاق ایک دوسرے کے مقابل آنے لگے جس کا فائدہ زیرک بے نظیر بھٹو چابکدستی کے ساتھ اٹھانے لگی

اور پھر صرف ڈھائی سال بعد ایک شام غلام اسحاق خان بے چینی کے ساتھ ایوان صدر کی راہداریوں میں ٹہلتے ہوئے بے نظیر بھٹو کا انتظار کرتے رہے۔ بے نظیر قدرے تاخیر سے پہنچیں تو غلام اسحاق خان کا ”ملزم“ آصف علی زرداری بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ تھے جس نے بیٹھتے ہی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر صدر اسحاق کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ ہمارے مطالبات سن لیں!

اگلا منظر نامہ یوں تھا کہ نواز شریف بھی معزول ہو چکے تھے نئے الیکشن بھی ہو چکے اور بے نظیر بھٹو وزیراعظم کا حلف بھی اٹھا چکی تھی۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مشکل دنوں میں بے نظیر بھٹو کا تدبر اور ذہانت ہی اس کے کام آیا اور یہ یہی وہ ذہانت ہی تھی جس نے شیخ عبد الرشید سے پروفیسر این ڈی خان اور رضا ربانی سے واجد شمس الحسن تک جیسے جہاندیدہ اور مخلص مشیر اس کے اردگرد کھڑے کر دیے تھے۔

سو عمران خان بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں کئی گنا کم مشکلات کا شکار ہیں لیکن ذاتی ذہانت اور مشیروں کے مشوروں میں زمین آسمان کا فرق ہے اور عمران یہاں پر مار کھا رہے ہیں

حرف آخر یہ کہ یہی وہ المیہ ہے جو عمران خان کی سیاست کو ایک سوالیہ نشان بنا رہی ہے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments