عوامی مفادات اور اقتدار کی جنگ


 

سیاست، جمہوریت، اقتدار اور عوام یا قانون کی حکمرانی کی براہ راست تعلق عوامی مفادات پر مبنی حکمرانی سے جڑا ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر اقتدار کی سیاست کا تعلق عوامی مفادات سے جڑا ہوا نہ ہو تو ایسی سیاست ایک مخصوص طاقت ور طبقہ کے مفادات کو تو فائدہ دے سکتی ہے مگر اقتدار کی اس سیاست کا کوئی تعلق عوامی مفادات کے خلاف ہوتی ہے۔ اس طرز کی سیاست مجموعی طور پر عوام کا ریاست، حکومت اور اداروں سے تعلق کو کمزور بنانے کا سبب بھی بنتی ہے۔

پاکستان کا سیاسی مقدمہ اسی نقطہ کے گرد گھومتا ہے اور یہاں کی مجموعی حکمرانی پر مبنی سیاست کا تعلق عوام سے کم اور ایک طاقت ور طبقہ کے مفادات سے زیادہ جڑا ہوا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا حکمرانی کا نظام لوگوں میں محرومی، مایوسی یا غیر یقینی کی سیاست سمیت سیاسی، سماجی، معاشی مسائل کو پیدا کرنے میں معاون ثابت ہو رہا ہے۔

منصفانہ اور شفاف حکمرانی کا نظام بنیادی طور پر عام آدمی کے مفادات کو ترجیحی بنیادوں پر فوقیت دیتا ہے۔ اس نظام کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ طاقت ور طبقہ کے مقابلے میں کمزور یا محروم طبقات کے مفادات کو اہمیت دے کر ان کے مقدمہ کو ریاست اور حکومت کے ساتھ مضبوط بنیاد پر استوار کرے۔ مگر لگتا ایسا ہی ہے کہ ہمارا حکمرانی کا مقصد استحصال یا تفریق کی سیاست کو اہمیت دینا ہے اور اسی بنا پر ”طبقاتی بنیادوں پر قائم حکمرانی کے نظام“ کو قائم کرنا ہے۔

یہاں ہمیں ایک مخصوص طاقت ور طبقہ یا کمپنیوں کے مفادات پر مبنی حکمرانی کے نظام کے مقابلے میں عام آدمی کے مفادات کو فوقیت دینی ہے۔ مگر بنیادی نوعیت کا سوال یہ ہے کہ یہاں عام آدمی کے مفادات کی جنگ کون لڑے گا اور جن لوگوں نے یا طبقات نے عام آدمی کے مفادات کی جنگ لڑنی تھی وہ کہاں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہماری موجودہ حکمرانی کے نظام میں عام یا کمزور طبقہ کی پالیسی ”خیراتی ماڈل“ پر بنتی ہے۔ یعنی ہم ان کی سیاسی اور معاشی صلاحیتوں کو بڑھانے یا ان کو باعزت روزگار دینے یا ان کو معاشی سطح پر مختلف معاشی سرگرمیوں میں حصہ دار بنانے کی بجائے ان کے لیے خیراتی بنیادوں پر راشن، ادویات، کھانا کھلانے کو ہی غربت کا علاج سمجھتے ہیں۔ اس عمل میں حکمران طبقہ لوگوں کی عزت و نفس سے کھیلتا ہے اور ان کو مسلسل بنیادوں پر مانگنے والا بنا کر خود ہی اپنی حکمرانی کے نظام کو عملاً مذاق بنا دیتا ہے۔

پاکستان میں جو اقتدار کا جنگ کا کھیل ہمیں بڑے بڑے سیاسی طبقات یا طاقت کے مراکز میں دیکھنے کو مل رہا ہے اس کے پیچھے بھی ملکی ترقی یا عام آدمی کے مفادات کے مقابلے میں طاقت ور طبقہ کی اپنی حکمرانی کی جنگ بالادست نظر آتی ہے۔ اس کھیل میں عام آدمی اسی طاقت ور طبقہ کے مفادات میں خود کو قربان کرتا ہے یا یہ امید لگا لیتا ہے کہ شاید اس جنگ سے اس کی زندگی میں بھی کوئی بڑی نمایاں تبدیلیاں آ سکیں گی۔ مگر حکمرانی کا موجودہ نظام عملاً عام یا کمزور طبقہ کے خواب کو توڑتا ہے اور اس میں اس احساس کو تقویت دیتا ہے کہ حکمرانی کے اس نظام میں عام آدمی کی کوئی گنجائش نہیں۔

ہمارا سیاسی نظام بنیادی طور پر ”کارپوریٹ ماڈل“ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ یعنی اس سیاسی ماڈل میں جو بھی بڑی مالی سرمایہ کاری کرے گا اس کا اتنا ہی بڑا حصہ حکمرانی کے نظام میں قائم ہو گا۔ سیاست جب منافع یا تجارت کی بنیاد پر چلانے کی حکمت عملی سے جڑی ہو تو عوامی مفادات کی سیاست بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ کیونکہ جو لوگ سرمائے کی بنیاد پر ہمارے سیاسی و معاشی نظام کو یرغمال یا اپنے مفادات سے جوڑتے ہیں تو ایسی صورت میں عام آدمی کا مقدمہ بہت پیچھے چلا جاتا ہے۔

عام آدمی کا مسئلہ محض سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادتیں یا حکمرانی میں شامل طبقات ہی نہیں بلکہ ریاست کے ادارے اور وہ ادارے جو رائے عامہ کو تشکیل دینے یا عوامی مفادات کے ساتھ جوڑ کر حکمرانوں پر دباؤ بڑھانے سے جڑے ہوتے ہیں، وہ بھی عام آدمی کے مسئلہ کی بجائے طاقت و ر طبقات کے ساتھ جوڑ کر اپنے ذاتی مفادات کو اہمیت دیتے ہیں۔ سول سوسائٹی اور میڈیا خود بھی طاقت کی حکمرانی میں کہیں پھنس کر رہ گیا ہے اور عوامی دباؤ کی سیاست بہت پیچھے چلی گئی ہے۔

عوامی مفادات کے مقابلے میں طاقت کی حکمرانی عملی بنیادوں پر ایک ایسے بڑے مافیا پر مبنی حکمرانی کے گٹھ جوڑ سے جڑ گئی ہے جس میں عام آدمی کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم اگر اپنے سیاسی و سماجی مباحث پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس میں بھی عام آدمی کو محض ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کیونکہ زیادہ تر مباحث کی بنیاد طاقت ور طبقات یا شخصیات کے گرد گھومتی ہے اور ہم یا پڑھا لکھا طبقہ شعوری یا لاشعوری طور پر اس کھیل کا حصہ بن کر عام آدمی کے مفادات کو فائدہ پہنچانے کی بجائے اس کو ہی نقصان پہنچاتا ہے۔

اگر واقعی اس ملک میں عام آدمی کا مقدمہ درست کرنا ہے یا اسے درست سمت میں لے جانا ہے تو ہمیں روایتی اور شخصی حکمرانی یا مرکزیت پر مبنی حکمرانی کے نظام سے باہر نکلنا ہو گا۔ ہمیں بنیادی طور پر پانچ باتوں پر توجہ دینی ہوگی۔ اول حکمرانی کے نظام میں ہماری ضرورت مرکزیت پر مبنی حکمرانی کے مقابلے میں عدم مرکزیت یعنی سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات کی اوپر سے لے کر نیچے تک منصفانہ اور شفاف تقسیم اور اس کا عملی اقدام ایک مضبوط اور مربوط ملک میں تیسری حکومت کے طور پر ”مقامی حکومتوں کی خود مختاری پر مبنی نظام“ ہے۔

دوئم ہمیں اپنے سیاسی اور معاشی نظام میں وسائل کی منصفانہ تقسیم یا وسائل کو مختص کرنے کے نظام میں بنیادی ترجیح پہلے سے موجود کمزور یا محروم طبقات کی زندگیوں میں ترقی یا خوشحالی کو پیدا کرنا اور ان کو معاشی طور پر خیراتی نظام کا حصہ بنانے کی بجائے معاشی خود مختاری کی طرف لانا ہو گا۔ سوئم جب تک ہم ادارہ جاتی اصلاحات جن میں بیوروکریسی اور مقامی انتظامی صلاحیتوں میں بڑے پیمانے پر سرجری نہیں کریں گے اور ایسی کڑوی گولیوں کو ہضم نہیں کریں گے جو نظام کی اصلاح کے لیے ناگزیر ہو گئی ہیں، کچھ نہیں ہو سکے گا۔

چہارم ملک کے نظام میں شفافیت کے لیے منصفانہ اور شفاف نگرانی، جوابدہی یا احتساب کے نظام کو فوقیت دینی ہوگی۔ پنجم ہماری مجموعی قومی منصوبہ بندی اوپر سے لے کر نیچے تک ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہونی چاہیے تاکہ ایک مربوط منصوبہ بندی کا پہلو نمایاں ہو اور سب ہی فریقین یا ادارے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوں تاکہ بہتر نتائج پر مبنی حکمرانی کا نظام سامنے آ سکے۔

اب سوال یہ ہے کہ عام آدمی کے مفادات کی بنیاد پر حکمرانی کا نظام کیسے قائم ہو گا اور کون اس میں پہل کرے گا۔ پہلی ترجیح تو ایسے سیاسی عمل یا نظام کی تشکیل نو ہے جو ہمیں روایتی طرٖز سیاست اور حکمرانی سے باہر نکال سکے۔ اس میں بنیادی کردار تو سیاسی نظام سے ہی جڑے ہوئے فریقین کا ہے جن کو آگے بڑھ کر اپنے موجودہ طرز عمل میں اصلاح پیدا کرنا ہوگی۔ لیکن یہ کام سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں اس کے لیے ہمیں غیر معمولی صورتحال میں غیر معمولی اقدامات اور تمام سیاسی، انتظامی، معاشی اور قانونی فریقین کو مل بیٹھ کر موجودہ بحران کا علاج تلاش کرنا ہو گا۔

آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں کی پالیسیاں یا ان کی شرائط اپنی جگہ، لیکن ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ ہم کس حد تک اپنی عوام یا کمزور طبقات پر معاشی بوجھ ڈال سکتے ہیں۔ یہ سوچ اور فکر کہ ہم عالمی مالیاتی اداروں یا اپنی غلط معاشی پالیسیوں کا بوجھ طاقت ور طبقات یا غیر معمولی سطح کی پالیسیوں کو اختیار کرنے کی بجائے عام آدمی پر اس کا بوجھ ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے پورے حکمرانی کے نظام کی اصلاح کے لیے ایک بڑے جاندار اور بے لگ تجزیے اور اس کی بنیاد پر کچھ سخت گیر فیصلوں کی ضرورت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عملی طور پر ہمارا ریاستی یا حکومتی حکمرانی کا نظام عام آدمی کو بنیاد بنا کر کچھ نئی سوچ و بچار کر رہا ہے تو جواب نفی میں ملتا ہے۔

یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ موجودہ سیاسی، انتظامی، قانونی اور معاشی نظام اپنی اہمیت یا ساکھ کھو رہا ہے اور لوگوں میں اس نظام کے بارے میں ایک بڑی لاتعلقی کا احساس بڑھ رہا ہے۔ اس احساس کو کیسے کمزور کیا جائے کہ ہمارے ریاستی نظام میں عام آدمی کی ترجیحات نہیں ہیں اور اس کی عملی شکل یہ ہی ہے کہ ہمیں عملی طور پر ریاستی پالیسیوں، قانون سازی، ادارہ جاتی عمل اور عملی اقدامات میں یہ واضح اور شفاف نظر آنا چاہیے کہ عام آدمی ہی ہماری قومی ترجیحات کا حصہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments