جھوٹا اسلامی ٹچ دینے والوں کا انجام


یہ بات ثابت شدہ ہے کہ پوری دنیا کے سیاسی لوگ ”نظریہ ضرورت“ اور ذاتی و سیاسی مفادات کے تحت مذہب کا بے دریغ اور بے رحمانہ استعمال کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے انہیں بالکل بھی انسانی زندگیوں کو لاحق خطرات اور معاشرے پر اس کے وقتی اور دیرپا اثرات کا احساس و ادراک تک نہیں ہوتا ہے، زیادہ دور نہیں جاتے ہیں نائن الیون کے وقت بش نے صرف ایک لفظ ”کروسیڈ“ بول کر اپنے اندر کے تعصب کا اظہار کر دیا تھا اور پھر اس تعصب نے ایسے گل کھلائے کہ وہ افغان جو نائن الیون میں کہیں سے بھی حصہ دار نہ تھے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور ان کے ہنستے بستے شہر تورا بورا کر دیے گئے اور انسانی جانوں کا ضیاع الگ سے ہوا اور مذہب ہی کو بنیاد بنا کر اس خطے کو پہلے بھی امریکہ اور اس کے حواریوں نے خوب استعمال اور برباد کیا تھا۔

خیر بڑی طاقتوں کے اس مکروہ کھیل کو شاید کبھی نہ روک سکے لیکن ہم نے اب بات کرنی ہے کہ چند لوگ کیسے اپنے ذاتی و سیاسی فائدے کے لیے اپنے کردار و اعمال سے ہٹ کر مذہب کا استعمال کرتے ہیں اور پھر جب اللہ کی پکڑ میں آتے ہیں تو کس طرح رسوائی ان کا ہمیشہ کے لیے ایسا پیچھا کرتی ہے کہ انہیں کہیں بھی جائے پناہ نہ ملتی ہے۔ خاکسار ماضی قریب کی دو مثالیں یہاں دے گا اور آپ کو پھر تیسرے ”اسلامی ٹچ“ بارے آگاہ کر کے ایک سوال چھوڑ کر اپنی تحریر ختم کردے گا۔

پہلا ”اسلامی ٹچ“ انتخابات جیتنے کے لیے عمران خان کے سیاسی کزن طاہر القادری نے استعمال کیا تھا اور علانیہ کہا کہ ”مجھے حضور اکرمﷺ نے الیکشن جیتنے کی بشارت دی ہے“

اور پھر قادری نے پورے ملک سے اپنے سینکڑوں امیدوار کھڑے کیے اور اس کا ایک بھی امیدوار کہیں سے بھی کامیاب نہیں ہوا اور یہ اللہ کی طرف سے اس کے ڈھٹائی اور بے شرمی سے بولے گئے جھوٹ کی عبرت ناک سزا تھی اور تب سے لے کر اب تک قادری متعدد بار دھرنے بھی دے چکا۔ خود کو، ”شیخ الاسلام“ کہنے والا جھنگ سے دو بار ایم این اے کا الیکشن بھی لڑ چکا ہے لیکن دونوں بار بری طرح شکست کا سامنا کرنا اور ایک بار آمر مشرف نے اسے دو نمبری سے الیکشن میں کامیاب کروایا تھا حالانکہ اس کا مدمقابل نون لیگ کا شاہد اکرم ذکی جیت چکا تھا مگر افسوس کہ ”شوخ الاسلام“ (خاکسار شوخ الاسلام ہی لکھتا ہے) کو اس دو نمبری کے باوجود اسمبلی بیٹھنا نصیب نہ ہوسکا اور استعفی دے کر جانا پڑا تھا کیونکہ اس کے حلقے کے لوگ اس کی نا اہلی، لاپرواہی اور غیر ذمہ داریوں سے بڑے نالاں تھے اور میڈیا میں شور ڈالے رکھتے تھے۔

اس کے بعد ٹوبہ ٹیک سنگھ سے پیپلز پارٹی کے سابق جیالے غیاث الدین جانباز (جس نے پی ٹی آئی جوائن کرلی تھی) نے بالکل قادری والا مکروہ کھیل کھیلا اور جھوٹ بولا کہ ”مجھے حضور اکرمﷺ نے خواب میں آ کر الیکشن جیتنے کی بشارت دی ہے“

اور یہ جانباز بڑا تگڑا امیدوار ہوا کرتا تھا لیکن اس الیکشن میں اللہ نے اسے شکست دلوا دی اور پھر غیاث الدین جانباز ماضی کا رزق ہوتا چلا گیا، حالانکہ اس کا اس علاقے میں ایک نام تھا۔

اب آپ نے قاسم سوری کا عمران خان کو ”اسلامی ٹچ“ دینے والا ”مشورہ“ بھی سن لیا ہو گا اور عمران خان نے بھی مشورہ سنتے ہی فوراً ایسی بڑی چھلانگ لگائی کہ خود کو عاشق رسولﷺ کہہ کر تقریر شروع کردی اور اس سے پہلے موصوف ریاست مدینہ اور امر بالمعروف کے ”اسلامی ٹچوں“ سے بھی عوام کو لبھاتے رہے ہیں اور جہاد تو ان کی دائیں جیب میں ہر وقت پڑا ہوتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے ان کے سامنے صرف عوام کے بیوی بچے ہوتے ہیں اور اپنے نہ تو بچوں کو آنسو گیس کی شیلنگ کے دھوئیں میں لاتے ہیں اور نہ ہی اہلیہ کو، بلکہ اہلیہ بارے ان کی طرف سے جواب آتا ہے کہ ”بشری تو پردہ دار خاتون ہیں“

بہرحال ان کا پونے 4 سالہ دور ان کے اسلامی ٹچوں کی کہانیاں سناتا ہوا ملتا ہے اور توشہ خانے سے اس اسلامی ٹچ والے نے ”کمزور کے لیے الگ اور طاقتور کے لیے الگ قانون“ کی رام لیلائی سناتے سناتے کروڑوں کے غیر ملکی تحائف سستے داموں اٹھائے اور دبئی لے جا کر مہنگے داموں بیچ کر موٹا مال بنالیا اور ایسا کرتے ہوئے اسے ”اپنے لیے نرم قانون“ کا خیال تک نہ آیا تھا۔ منافقت جس کی گھٹی میں پڑی ہو تو وہ ہی ایسے کارڈ کھیلا کرتا ہے اور عمران خان ایسے ہر کارڈ کھیلنے کا ماہر ہے لیکن کیا اس کا انجام دوسرے ”اسلامی ٹچ“ کا سفاکانہ، بے رحمانہ اور بے شرمانہ استعمال کرنے والوں سے الگ ہو گا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر فریبی اور جھوٹے کا انجام ہمیشہ ایک سا ہی ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments