بادشاہی الفریڈ اعظم کی: پڑھنا لاطینی، جلانا کلچے، اور ایجاد کرنا لالٹین کا


(1)

گول میز والے کنگ آرتھر کے بعد انگلستان میں دوسرا مشہور بادشاہ الفریڈ ہوا ہے۔ اس کی میز کس شکل کی تھی یہ تاریخوں میں مذکور نہیں۔ اسے الفریڈ اعظم بھی کہتے ہیں۔ جس طرح سکندر اعظم کو سکندر اعظم اکبر اعظم کو اکبر اعظم اور جنرل اعظم خاں کو ۔ ۔ ۔ خیر ان کا معاملہ دوسرا ہے۔ سید ہاشمی فرید آبادی مرحوم کو تحقیق کا موقع ملتا تو یہی بتاتے کہ الفریڈ اصل میں الفرید ہے اور یہ خاندان بنو امیہ کا کوئی شہزادہ تھا جو شوق تبلیغ میں تلوار مارتا ہوا انگلستان جا نکلا تھا۔ اتفاق سے اس بادشاہ کے شوق تبلیغ کا تاریخ میں ذکر ملتا بھی ہے۔

جب اس نے ڈینش سردار گوتھرم کی شورش کو رفع کیا اور وہ پکڑا آیا تو الفریڈ نے اس کی گردن پر تلوار رکھ کر کہا کہ برضا و رغبت دین مسیحی کی حقانیت کا اقرار کر ورنہ ابھی بھٹا سا سر اڑاتا ہوں۔ چنانچہ وہ صدق دل سے بلا جبر وا کراہ مسیحی ہو گیا اور خداوند خدا کی مناجات گانے لگا۔ اسے مزید پکا کرنے کے لیے شاہ ممدوح نے بپتسمہ کے بہانے اسے سمندر کے برفانی پانی میں غوطہ بھی دیا۔ بعد ازاں الفریڈ یعنی ہمارا شہزادہ الفرید اموی اسے مسلمان بھی ضرور کر تا جو عیسائیت کے بعد کا قدرتی مرحلہ ہے۔ (کسی کو ایک ہی ہلے میں مسلمان نہیں بنا لینا چاہیے ورنہ گرم سرد ہو جا تا ہے ) اگر گوتھرم کی زندگی نے وفا کی ہوتی اور وہ بپتسمہ کی وجہ سے نمونیا میں مبتلا ہو کر قبل از وقت خدا کی بادشاہت میں داخل نہ ہو گیا ہوتا۔

یاد رہے یہ ہمارے سید ہاشمی مرحوم ہی تھے جنہوں نے کراچی کے بارے میں اس گمان کی تردید کی تھی کہ اسے کلاچی کے نام کے ایک مچھیرے نے اٹھارہویں صدی میں آباد کیا تھا۔ آپ نے فرمایا بھلا مچھیرے بھی شہر بسایا کرتے ہیں؟ اسے ضرور محمد بن قاسم کے ساتھ آنے والے قریشیوں نے آباد کیا ہو گا اور قراشی نام رکھا ہو گا جو بگڑ کر کراچی ہو گیا۔ اتفاق سے صدر ایوب قریشیوں سے بہت گھبراتے تھے۔ انہیں اس تحقیق کا معلوم ہوا تو اپنا پایہ تخت کراچی سے اٹھا کر راولپنڈی لے گئے جس کے معرب کیے جانے کا امکان بہت کم تھا۔

(2)

الفریڈ کے زمانے میں لوگ تعلیم کے مضر اثرات سے واقف تھے لہذا بچوں خصوصاً شرفا اور رؤساء اور والیان مملکت کے بچوں کو اس سے حتی الوسع دور رکھا جاتا تھا۔ الفریڈ کے والد ماجد کنگ ایتھل ولف نے بھی اس کی کماحقہ احتیاط کی۔ چنانچہ الفریڈ بارہ سال کی عمر تک خواندگی سے مامون اور محفوظ رہا لیکن ہونی ہو کر رہتی ہے۔ اس کی ماں دوسری قسم کی تھی۔ اس نے ایک روز چاروں بھائیوں کو اکٹھا کر کے ان کو کہانیوں کی ایک مصور قلمی کتاب پڑھ کر سنائی اور کہا تم چاروں میں سے جو پڑھنا سیکھے گا یہ کتاب اسے انعام میں ملے گی۔ باقی تین بھائی سمجھدار تھے لیکن الفریڈ لالچ میں آ گیا۔ اس نے صرف لاطینی زبان ہی نہ سیکھی بلکہ اپنی مادری زبان انگریزی بھی پڑھی۔ الفریڈ کے تین بھائیوں کا بعد میں کیا ہوا اس کا ذکر انگریزی تاریخوں میں بہت آیا لہذا قارئین کرام کو اپنے خاندان مغلیہ کے کسی بھی بادشاہ کے بھائیوں کا حال پڑھ لینا چاہیے۔

(3)

الفریڈ نے اپنی زندگی میں بہت سی لڑائیاں لڑیں اور بہت سے شورہ پشت باغیوں کی سرکوبی کی۔ یاد رہے کہ گکھڑ کسی نہ کسی نام سے ہر ملک میں ہوتے ہیں۔ جب سب دشمن مطیع ہو گئے۔ کوئی نہ رہا جسے زک دے سکتا اور تیغ کے گھاٹ اتار سکتا تو اس نے لوگوں کو قلم کے گھاٹ اتارنے کا منصوبہ بنایا اور لاطینی کی کچھ آسان آسان کتابیں لے کر ان کا مشکل مشکل انگریزی میں ترجمہ کیا۔ لیکن اسے پبلشر کوئی نہ ملا۔ حالانکہ آج کا زمانہ ہوتا تو نہ صرف مقامی پبلشر بلکہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس والے بھی دوڑے دوڑے آتے اور اس کتاب کے افتتاحی جلسے نیشنل سنٹر میں ہوتے اور ان کتابوں کا بہت سی زبانوں میں حتی کہ واپسی لاطینی میں بھی ترجمہ کیا جاتا۔

کوئی پبلشر ملا بھی تو اس نے عذر کیا کہ جہاں پناہ ہم کتابیں کیسے چھاپیں۔ ابھی تو کیکسٹن نے چھاپہ خانہ ہی ایجاد نہیں کیا۔ کہتا ہے پندرہویں صدی کے آخر میں کروں گا۔ آپ چار صدیاں انتظار کرنا چاہیں تو مسودے چھوڑ جائیں۔ اس میں بھی مصلحت خداوندی تھی۔ چھاپہ خانہ ہوتا تو ساری رعایا کو ناحق یہ کتابیں پڑھنی پڑتیں۔ انگلستان میں اسکول بھی سب سے پہلے الفریڈ نے ہی قائم کیے۔ لیکن زندگی نے اتنی مہلت نہ دی کہ انہیں نیشنلائز بھی کر سکتا۔

(4)

الفریڈ کا سب سے بڑا کارنامہ جو کتابوں میں آیا ہے یہ ہے کہ اس نے ایک بڑھیا کے کیک جلا دیے تھے۔ کیک تو کیا ہوں گے روٹیاں یا کلچے ہوں گے۔ ہوا یوں کہ بادشاہت کے ابتدائی دنوں میں دشمنوں نے ایکا کر کے اس کی افواج قاہرہ کو تو ڈنڈے مار مار کر بھگا دیا اور خود اس کی جان کے در پے ہوئے۔ ہر چند کہ ہمارا ممدوح بہت نڈر اور بے خوف تھا تاہم چوٹ پیٹ کے ڈر سے بھیس بدل کر جنگل میں ایک دہقان کے جھونپڑے میں جا چھپا۔

دہقان کی بڑھیا نے اسے دلاسا دیا اور کہا لے بیٹے میں روٹیاں توے پر ڈالتی ہوں تو ذرا انہیں سینک دے لیکن آنچ کا دھیان رکھنا اور پلٹتے رہنا۔ اب پکانا ریندھنا کوئی بادشاہی تو ہے نہیں کہ تاج سر پر رکھ لیا اور لباس فاخرہ پہن کر تخت پر فروکش ہو گئے اور الٹے سیدھے حکم دینے لگے یا آرڈی ننس نکالنے لگے۔ اس کے لیے تجربہ اور آنچ کی پہچان چاہیے۔

ہمارے بادشاہ سلامت اپنے خیالوں میں مگن بیٹھ رہے۔ مورخوں کا کہنا ہے کہ رعایا کی فکر میں منہمک تھے لیکن یہ دریافت نہیں ہوسکا کہ مورخوں کو اس کا کیسے علم ہوا۔ بہرحال روٹیاں جل گئیں اور نیک بی بی نے اسے بہت سخت سست کہا کہ بڑا بادشاہ بنا پھرتا ہے۔ کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا ۔

اس کے بعد سے یہ ڈگر بن گئی کہ جو بادشاہ آیا اس نے رعایا کی روٹی ضرور خراب کی۔ یا تو جلا دی یا کچی چھوڑ دی یا اس میں کنکر ڈال دیے یا پھر سیدھے سیدھے چھین کے اپنے مال خانے میں بھجوا دی کہ تم لوگ اسے کیا کرو گے۔ بھلا روٹی بھی کوئی کھانے کی چیز ہے۔ اس کے کھانے سے نفخ ہوتا ہے۔ کیا ہمارے وطن عزیز میں پتھروں کی کمی ہے۔ ایک ایک اٹھا کر پیٹ پر باندھ لو۔ کم پڑ جائیں گے تو باہر سے منگا لیں گے۔

(5)

الفریڈ نے دشمنوں کی سرکوبی کر لی اور لاطینی کتابوں کو انگریزی میں ترجمہ کر لیا تو سوال پیدا ہوا کہ اب کیا کرے۔ اپنا خالی وقت کیسے بتائے؟ چنانچہ اس نے لوگوں کے لیے منصفانہ قانون بنانے شروع کیے۔ اس زمانے میں پارلیمنٹ وغیرہ کا ٹنٹا نہیں تھا نہ لوگ مقدمے لے کر عدالتوں میں دوڑے جاتے تھے کہ فلاں قانون قانونی ہے یا غیر قانونی ہے۔ نہ بنیادی حقوق کا کھڑاگ تھا۔ جب بادشاہ کو سارے حقوق حاصل ہیں تو رعایا کو فرداً فرداً حقوق لینے کی کیا ضرورت ہے۔

الفریڈ اعظم کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ اس نے چوروں اور ڈاکوؤں کا قلع قمع کیا۔ چنانچہ روایت ہے کہ لوگ سونا اچھالتے چلے جاتے تھے کوئی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتا تھا۔ کچھ ایمانداری کی وجہ سے کچھ حکومت کے خوف سے بعض لوگوں نے تو سونا اچھالنا اپنا کل وقتی شغل بھی بنالیا تھا۔ بعد میں سونے کی قلت ہو گئی تو لوگ یہ کام ٹوپیوں اور پگڑیوں سے لینے لگے وہ بھی دوسروں کی ٹوپیوں اور پگڑیوں سے۔

الفریڈ نے وقت کو ناپنے کے لیے موم بتیاں ایجاد کیں لیکن ہوا چلنے سے بعض اوقات بتی جلد بڑھ جاتی تھی اور وقت میں گڑ بڑ ہو جاتی تھی لہذا بادشاہ نے موم بتیوں کے گرد کھڑکیاں لگا کر لالٹین ایجاد کی۔ سوچنے کی بات ہے کہ شاہ الفریڈ نہ ہوتا تو صدر ایوب کے زمانے میں اپوزیشن کیا کرتی۔ اسے نشستیں تو ایک طرف انتخابی نشان تک دستیاب نہ ہوتا۔

مشہور ہے کہ شاہ الفریڈ کی اپوزیشن نے بھی لالٹین کا نشان مانگا تھا لیکن شاہ نے اس کو دھتا بتایا۔ تاریخوں میں آیا ہے کہ شاہ الفریڈ اعظم کی تمنا تھی کہ انگلستان خوش اور خوش حال رہے۔ لیکن انسان کی ہر خواہش تھوڑا پوری ہوتی ہے؟

(6)

الفریڈ اعظم کو مذہب سے بہت شغف تھا۔ اس نے جا بجا خانقاہیں بنوائیں تا کہ لوگ وہاں جائیں اور راہب بن کر اپنی زندگی خدا کی بندگی میں بسر کر میں لیکن انگریزوں کا رجحان اس زمانے میں بھی دکانداری کی طرف زیادہ اور رہبانیت کی طرف کم تھا۔ لہذا الفریڈ کو فرانس سے راہب منگا کر ان خانقاہوں میں بسانے پڑے۔

ہمارے ہاں بھی ایمان کی حرارت والے اپنی نیک اور بعض اوقات غیر نیک کمائی سے مسجد میں تو بنا دیتے ہیں لیکن نمازیوں کا بندوبست نہیں کر پاتے۔ چنانچہ بعض علاقوں میں ایک ایک نمازی کے حصے میں تین تین مسجد میں آ جاتی ہیں۔

الفریڈ اعظم نے ایک نامعلوم مرض سے 901 ء میں انتقال کیا۔ ابھی میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی نہ کی تھی ورنہ اس کے اتنے ٹیسٹ ہوتے، اتنے ایکس رے ہوتے، اتنے مختلف ڈاکٹروں کے نسخوں پر اتنی جنرک اور غیر جنرک دوائیں اسے کھانی پڑتیں کہ دسویں صدی میں قدم رکھنے کی نوبت نہ آتی۔ نویں صدی کے آخر ہی میں علاج کی تاب نہ لا کر دنیا سے رخصت ہو گیا ہوتا۔ لوگوں کا مرنا جینا نوشتہ قسمت کی بجائے نوشتہ ڈاکٹر پر منحصر ہو جانا بہت بعد کی بات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments