پاکستانی جمہوریت کی ناکامی


میرے ایک مضمون پر ایک صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ طاقتور قومیں ہم جیسے کمزور ملکوں پر جمہوری نظام کے نفاذ کے لئے زور کیوں ڈالتی رہتی ہیں جب کہ وہ خود غیرجمہوری حکومتوں سے دنیا بھر میں یاری لگاتے اور سودے بازی کرتی پھرتی ہیں۔ ان صاحب کا مزید گلہ یہ بھی تھا کہ جمہوریت کے نفاذ کے یہ مطالبے ہمارے جیسے ملکوں کی تاریخ اور عوام کے مزاج کے برعکس ہیں۔ ہمیں جمہوریت کا تجربہ ہی نہیں ہوا جو امریکہ یا برطانیہ جیسے ملکوں کو صدیوں میں حاصل ہوا ہے۔

جواباً میں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوا کہ سوال میں بہت دم ہے اور سوال نظر بظاہر بالکل حقیقت پر مبنی ہے۔ اس سوال کے جواب میں بہت کچھ کہا اور لکھا جاسکتا ہے۔ اہل علم نے تو ان سوالوں کے جواب میں کتابیں تک لکھ ڈالی ہیں۔ وقتی طور پر میں نے ان صاحب کو بھی ایسی ہی دوچار کہیں پڑھی ہوئی باتوں سے مطمئن تو کر دیا لیکن میں خود اس شش و پنج میں رہا کہ کیا ہم جمہوریت کے اہل ہی نہیں ہیں؟ کیا پاکستان جمہوریت سے بالکل نا آشنا تھا؟ کیوں امریکہ ہم جیسے لوگوں سے جمہوریت نافذ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جب کہ ہم اس سے نابلد ہیں؟

پنجاب یونیورسٹی میں ایک بار سائنس کے فلسفے پر ایک کورس پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ ہمارے استاد محترم مغربی یورپ کے ایک ملک سے پی ایچ ڈی ہیں۔ ملک بھی وہ جو مغرب میں مذہبی آزادی اور سیاست اور مذہب کی تفریق کا پیشرو سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت وہ اسسٹنٹ پروفیسر تھے اب شاید پروفیسر ہو گئے ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے ایک بار یہ دعویٰ کیا کہ یورپ کی سائنسی ترقی نہ صرف مسلمانوں کی مرہون منت ہے بلکہ وہ ممکن ہی تب ہوئی جب یورپی طلبہ نے مسلمانوں کے ملکوں اور ان کی جامعات کا رخ کیا۔ ان کی زبان سیکھی اور ان جیسی وضع قطع بھی اختیار کی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ چودھویں صدی تک مسلمان سیکولر علوم میں یورپ سے آگے تھے۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ میں نے پروفیسر صاحب سے سوال کیا کہ گزشتہ ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اور بلکہ اب تو جوق در جوق مسلمان مغربی ممالک بغرض تعلیم سفر کرتے ہیں، ان کی زبان سیکھتے ہیں، اور ان جیسی وضع قطع اختیار کرتے ہیں۔ تو خود مسلمان کیوں اب تک پسماندہ ہیں؟ وقت کا پہیہ اب ہمارے حق میں کیوں نہیں گھومتا؟ ہمارے پروفیسر اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے پائے۔

واقعہ یہ ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ کچھ لوگ آئے، انہوں نے عربی سیکھی، جبے پہنے، اور ڈگری لے کر چلے گئے اور اپنے ممالک کی قسمت بدل دی۔ اس کی مزید کم از کم تین وجوہات ہیں ؛ ایک یہ کہ یورپ میں وقت کے ساتھ طویل مدتی، مضبوط اور مستحکم حکومتیں قائم ہونے لگیں، دوئم یہ کہ جابجا جنگ و جدل اور سازشوں کے باوجود ریاست اور سیاست کے معاملات میں تجربہ بازی کا دروازہ بتدریج بند کر دیا گیا۔ سوئم یہ کہ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ قوموں کی بقاء اور ترقی صرف ناقابل تسخیر دفاع سے ممکن نہیں بلکہ لوگوں کے حقوق، مال و املاک کے تحفظ کو مضبوط قوانین اور انصاف سے یقینی بنانے میں ہے۔

ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس تجربہ نہیں یا یہ کہ تعلیم یافتہ لوگ سرے سے ناپید ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے۔ اس میں آباد قومیں صدیوں ایک دوسرے کے ساتھ رہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ ہم براہ راست مغلیہ دور حکومت سے 1947 میں ٹپک پڑے۔ ہندو اور مسلمان دونوں نے انگریز کے بنائے نظام میں سیاست سیکھی اور شروع کی۔ کانگریس 1885 میں قائم ہوئی اس میں مسلمان بھی موجود تھے۔ خود مسلم لیگ پاکستان بننے کے وقت 41 برس کی ہو چکی تھی۔

کانگریس کے برعکس مسلم لیگ کی سیاست ہمیشہ قانونی دائروں کے اندر رہی۔ کانگریس کی لیڈرشپ کے مقابلے میں جناح کبھی ایک منٹ کے لئے بھی جیل نہ گئے۔ وہ جلاؤ گھیراؤ، لاقانونیت اور غیر پارلیمانی طور اطوار اور زبان کے کبھی مرتکب نہ ہوئے۔ پاکستانی قوم بھی اپنے مزاج میں کبھی غیر متوازن ثابت نہ ہوئی۔ اس نے ہمیشہ پارلیمانی نظام کو پسند کیا۔ یہاں کبھی بھی شدت پسندی عام نہ ہوئی۔ کبھی بھی مکمل طور پر بائیں یا دائیں بازو کی جماعتیں پاکستان میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ اسی توازن کو راغب کرنے کے پیش نظر بھٹو صاحب جیسے زیرک سیاستدان بھی اسلام اور سوشلزم کی کھچڑی پکانے پر مجبور ہوئے۔ سیاسی اور قومی معاملات میں ہمیشہ پاکستانیوں نے اعتدال پسند اور متوازن لوگوں کو پسند کیا۔

علم سیاسیات کے طالب علم کی حیثیت سے میں خود بھی جمہوریت کا کوئی بہت مداح نہیں۔ میں اس کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کی کئی خامیوں سے بھی واقف ہوں۔ لیکن حکومتی اور معاشرتی نظام قوموں کے اتفاق رائے سے قائم کیے جاتے ہیں کسی کی ذاتی پسند یا نا پسند سے نہیں۔ ہمارا پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی قوم اور اس کی بصیرت پر بھروسا ہی نہ کیا۔ ہم اپنی قوم کو ہی جاہل، کھوتے اور قیمہ والے نان پر بک جانے والے تصور کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم ہیں ہی ڈنڈے کے قابل۔

ہمارا دوسرا اور بڑا مسئلہ ذاتی پسند ناپسند پر مبنی سیاست اور ریاست کے معاملات میں تجربہ بازی ہے، اپنے انفرادی اور طبقاتی مفادات کو قومی مفاد گرداننا ہے، مصلحت اور ضرورت کے تحت قانون کی تشریح ہے۔ جب تک اس تجربہ بازی کا دروازہ مستقل طور پر بند نہیں ہو گا، اور جب تک انصاف کے ضامن مصلحت سے پاک ہو کر انصاف کی فراہمی یقینی نہیں بناتے کسی بھی نظام سے خیر برآمد نہیں ہوگی آپ چاہے اس کا نام ”Kingdom of Heaven“ ہی کیوں نہ رکھ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments