Book Review-Sharing the Secret


ہمارے ہاں ایک عام رویہ پایا جاتا ہے کہ ہم سنگین زیادتیوں کے شکار لوگوں کو بھی اپنے بنائے پاکی اور ناپاکی کے ترازو پر تولتے ہیں اور ترازو بھی وہ جس کا توازن ہی درست نہیں۔ یعنی کہ معیاروں کے ساتھ ساتھ تولنے کا انداز دونوں ہی درست نہیں۔ ایسے میں زیادتی کرنے والا نوازا جاتا ہے اور مظلوم اذیت کی دلدل میں مزید دھکیلا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ اذیت ساری زندگی کسی مرض، کسی روگ کی طرح مظلوم سے لپٹ جاتی ہے۔

”Sharing the Secret“

کی مصنفہ جیمی لالکین اپنے تھراپسٹ ڈاکٹر خالد سہیل کے ساتھ خطوط کے ذریعے ماضی میں اپنے ساتھ ہوئی زیادتی کے متعلق بتاتی ہیں۔ جیمی پانچ برس کی عمر میں جنسی زیادتی کی شکار ہوئیں چونکہ زیادتی کرنے والا ان کا انتہائی قریبی رشتہ دار تھا اس وجہ سے زیادتی آئندہ سالوں تک بھی جاری رہی۔ سماجی، خاندانی اور نفسیاتی پریشر کے باعث جیمی کبھی آواز نہ اٹھا سکیں۔ مجرم کی موت کے ساتھ زیادتی کا سلسلہ ٹوٹا مگر کہانی وہاں ختم نہ ہوئی۔ جیمی دیگر لوگوں کی طرح سکول، کالج اور یونیورسٹی گئیں۔ شادی کی، بچے پیدا کیے لیکن ایک اذیت تھی جو اس سب کے دوران ان سے لپٹی رہی۔ یہاں تک کہ جیمی نے خودکشی کی کوشش بھی کی اور نفسیات کے ہسپتال میں کئی مہینے گزارے۔

اس کتاب میں نفسیات کے حوالے سے ایک گہرے اور دلچسپ نکتے پر توجہ دلائی گئی ہے کہ بچپن میں پیش آنے والے جذباتی، جسمانی یا جنسی ناگوار واقعات و تجربات کس طرح سے ذہن کے لاشعور حصے میں دفن ہو جاتے ہیں پھر وقتاً فوقتاً وہ ڈپریشن، بے چینی، پریشانی اور شدید حالات میں خودکشی کے خیالات کی صورت میں اپنا اظہار کرتے ہیں۔ جیمی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ بچپن میں پیش آنے والی زیادتی کو آہستہ آہستہ ان کے ذہن نے لاشعور میں دفن کر دیا مگر قصہ ختم ہونے کی بجائے صورتحال خوفناک ہو گئی۔

خوف، احساس تنہائی، ڈپریشن اور Obsessive Compulsive Disorder نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ چھبیس سے ستائیس برس کی عمر میں جب وہ کینیڈا کے ایک نفسیات کے ہسپتال میں زیر علاج تھیں اس وقت آہستہ آہستہ ان کے بچپن میں ہوئی زیادتی جھلکیوں اور خوابوں کی صورت ان کے سامنے اپنا اظہار کرتی رہی۔ ان کی تھراپسٹس کیتھی اور بیتھ نے خوب ساتھ دیتے ہوئے ان ماضی کی تکلیف دہ یادوں کو جیمی کی صحت یابی کے لیے خوش آئند قرار دیا۔

میں سمجھتی ہوں کہ اس سارے واقعے میں جیمی جیسی اذیت سے گزرنے والوں اور نفسیات کے شعبہ سے وابستہ لوگوں کے لیے سبق ہے کہ ایک مریض کے لاشعور میں دفن تکلیف دہ تجربات کا اظہار اور ان کو قبول کرنا مریض کے صحت یابی کے سفر میں کس قدر اہم ہے۔ جیمی کے لیے یہ تلخ یادیں انتہائی اذیت کا ساماں رہیں لیکن اپنی تھراپسٹس کی مدد سے وہ ثابت قدم رہیں۔ کتاب میں ماضی میں زیادتی کے شکار لوگوں کی جانب تھراپسٹس کے خلوص اور شفقت کی اہمیت پر بھی بات کی گئی ہے کہ ایسا مریض ایک محبت بھرا اور قابل اعتماد تعلق چاہتا ہے لہٰذا تھراپسٹس کو ایسے مریضوں کی ان ضروریات کو لازمی طور پر مدنظر رکھنا چاہیے۔

جیمی ایک تخلیقی شخصیت کی حامل خاتون ہیں۔ وہ چند ناولز کی لکھاری اور ایک شاعرہ بھی ہیں۔ کتاب کے دوسرے مصنف ڈاکٹر خالد سہیل جو کہ جیمی کے تھراپسٹ ہیں جیمی کی تخلیقی شخصیت کو دیکھتے ہوئے تخلیقی سائیکو تھراپی (Creative Psychotherapy) کا سہارا لیتے ہیں۔ جیمی اپنی تحاریر اور نظموں کے ذریعے ڈاکٹر سہیل تک اپنی کیفیات پہنچاتی ہیں اور ڈاکٹر سہیل جو کہ خود ایک تخلیقی لکھاری ہیں اپنی تحاریر سے جیمی کی رہنمائی کرتے ہیں۔ جیمی تخلیقی سائیکو تھراپی کو سراہتی ہیں کہ اس کی بدولت ان کا اپنے تھراپسٹ ڈاکٹر سہیل سے اعتماد بھرا تعلق قائم ہوا۔ یعنی کہ تھراپی کا کوئی ہارڈ اینڈ فاسٹ اصول رکھ دینے کی بجائے مریض کی شخصیت اور تجربات کا مکمل طور پر جائزہ لینے سے مریض کے ساتھ تعلق میں اعتماد بڑھ سکتا ہے۔

دنیا میں لاکھوں لوگ زیادتیوں اور ناگوار تجربات کی وجہ سے اذیت میں مبتلا ہیں اور کئی لوگوں کی ساری زندگی ایسی اذیتوں میں گزر جاتی ہے۔ سماجی دباؤ کی بدولت وہ ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے اور ماہرین نفسیات تک مختلف وجوہات کی بدولت رسائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نفسیاتی مسائل کی دلدل میں رہتے ہیں۔

Childhood Traumas

جو کہ ذہن کے لاشعور میں گھر کیے ہوئے ہوتے ہیں نفسیاتی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ان کا اظہار اور ان کو قبول کرنا ایسی اذیتوں سے نکلنے کی طرف پہلا قدم ہے۔ Sharing the Secret ان ناگوار تجربات اور زیادتیوں پر آواز اٹھاتی اور نفسیاتی صحت کی اہمیت کو اجاگر کرتی کتاب درحقیقت ظلم کے شکار لوگوں اور نفسیات کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ڈاکٹر سہیل اور جیمی کا عمدہ تحفہ ہے۔ کتاب میں جہاں اپنے خط میں جیمی اپنی کیفیات کی تخلیقی انداز میں ترجمانی کرتی دکھائی دیتی ہیں وہیں ڈاکٹر سہیل کے حکمت بھرے الفاظ اس کتاب کی اہمیت کو بڑھاوا دیتے ہیں۔

میں ڈاکٹر سہیل کی مشکور ہوں جنہوں نے اس کتاب کے ترجمے کی ذمہ داری مجھے سونپی۔ اس کے ہر باب نے مجھے ایک نیا سبق سکھایا۔ میں داد دینا چاہوں گی محترمہ جیمی کی ہمت کو جنھوں نے اپنی ذاتی زندگی اور تجربات کو کتاب کی صورت میں ہمارے سامنے پیش کیا تاکہ ہم چاہے مریض کی جگہ ہوں یا ان کے مسیحا کے رتبے پر، بچوں سے زیادتی کے سنگین نتائج سے واقف ہو سکیں اور ایسے لوگوں کو خوش حال زندگی گزارنے میں مدد کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments