عربی سے طب تک – قسط 3


نسیم الحسن فزکس پڑھاتے اور ہر طرح سے میری حوصلہ افزائی کرتے۔ ہفتہ دس دن میں ہی وہ کہنے لگ پڑے۔ جمیل! اللہ نے تجھے سائنس پڑھنے کے لئے پیدا کیا تھا یہ تم کس طرف جا نکلے تھے؟ وہ میری دل جوئی کے لئے اس طرح کے کلمات فراوانی سے استعمال کرتے۔ کیمسٹری اور فزیالوجی ہائی جین عنایت اللہ نسیم پڑھانے لگ پڑے۔ یہ مجھ سے تین چار سال ہی بڑے تھے۔ وہ بھی مجھ پر بہت مہربان تھے بلکہ وہ استاد کم اور دوست زیادہ لگتے تھے۔ انہوں نے آہستہ آہستہ مجھے اپنے ساتھ خاصا بے تکلف کر لیا۔ مجھے سکول میں جاتے ابھی دو ہفتے ہی ہوئے تھے کہ ایک دن پرنسپل صاحب اپنے دفتر سے اٹھ کر سائنس روم میں آ گئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا۔ وہ نسیم الحسن اور مجھے بلا کر اپنے آفس میں لے گئے۔ انہوں نے مجھے کہا :

جمیل! آپ کے لئے ایک مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔
جی وہ کیا مسئلہ ہے؟

لاہور بورڈ نے خط لکھا ہے کہ آپ کو جہلم ریجن میں اپنے گروپ میں اول آنے پر بورڈ کی طرف سے سکالر شپ ملے گا۔ بورڈ نے ہم سے پوچھا ہے کہ یہ لڑکا کون سے کالج میں پڑھ رہا ہے۔ اب ہم انہیں کیا جواب دیں؟

آپ انہیں لکھ دیں کہ میں کالج میں نہیں سکول میں پڑھ رہا ہوں۔

اس طرح آپ کو سکالر شپ نہیں ملے گا۔ یہ تو اگلی کلاسوں کی پڑھائی کے لئے ہے۔ کیا آپ سائنس کے مضامین پڑھنے کے لئے سکالرشپ چھوڑنے پر تیار ہیں۔

جی میں بالکل تیار ہوں۔ آپ بورڈ کو لکھ دیں۔

یہ تو آپ کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ اس میں کچھ قصور میرا بھی ہے۔ نسیم الحسن نے مجھے کہا تھا کہ آپ کا میٹرک کا داخلہ سائنس کے مضامین میں بھیجوں لیکن میں نے انکار کر دیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ مجھے آپ کے کالج کے پرنسپل سے بات کرنی چاہیے۔

میرے چچا ان سے بات کر چکے ہیں لیکن وہ نہیں مانے۔

ہو سکتا ہے کہ اس سکالر شپ کے معاملے کو سامنے رکھتے ہوئے وہ میری بات مان جائیں۔ ایک کوشش کر دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ کل آپ میرے ساتھ میرپور چلیں۔

جی بالکل ٹھیک ہے، میں آپ کے ساتھ چلوں گا۔

دوسرے دن ہم کالج گئے۔ دونوں پرنسپل صاحبان نے آپس میں بات کی لیکن خواجہ حمید ممتاز نے کہا کہ اس معاملے پر پہلے بات ہو چکی ہے۔ اگر بورڈ کے قواعد و ضوابط اس کی اجازت دیتے تو وہ ضرور اس لڑکے کو ایف ایس سی میں داخلہ دے دیتے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ واپس آتے ہوئے جب ہم میرپور بس سٹاپ پر بس کا انتظار کر رہے تھے تو نورالحسن صاحب نے پوچھا:

جمیل آپ کی عمر کتنی ہے؟
پندرہ سال۔ میں نے کہا۔
زندگی کا ایک سال ہی تو ہے۔ گھر میں کوئی مالی تنگی تو نہیں۔
نہیں بالکل نہیں۔
آپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے عمر کے ایک سال اور سکالر شپ کی قربانی درکار ہے۔
میں یہ قربانی دینے کے لئے تیار ہوں۔
آپ سکول آتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے لئے بہتری کے اسباب پیدا فرمائے گا۔

تین ہفتے بعد یعنی نومبر 1966ء کے دوسرے ہفتے میں بورڈ کے امتحان کے لئے درخواست بھجوانے کی آخری تاریخ آن پہنچی۔ وہی چار پانچ ماہ والی صورت حال تھی جو پچھلے سال دسمبر میں پیش آئی تھی۔ اب کی بار امتحان مئی کی بجائے اپریل کے آخری ہفتے میں شروع ہونا تھے۔ درخواست بھیج دی گئی۔ دو سال کا کورس میں نے چار ماہ میں ختم کیا، امتحان دیا، 70 فیصد نمبر لے کر فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہوا اور کالج میں ایف ایس سی میں جا داخل ہوا۔

اب میرے ایف ایس سی میں داخلے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ صرف والد محترم نالاں تھے کہ میں نے اتنا بڑا قدم ان کی رضامندی کے بغیر ہی اٹھا لیا تھا۔ ان کا موقف اپنی جگہ درست تھا۔ وہ کہتے تھے کہ جو خواب تم دیکھ رہے ہو اس کی تعبیر مجھے نظر نہیں آتی۔ ان کا خیال تھا کہ میڈیکل کالج میں داخلے سفارش کی بنیاد پر ملتے ہیں اور ان کے پاس ایسا کوئی وسیلہ نہیں ہے۔

ہنگامہ زندگی

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں پہلی بار (میٹرک کا امتحان آرٹس کے مضامین میں پاس کرنے کے بعد ) اگست 1966ء میں گورنمنٹ کالج میرپور کے ہیڈ کلرک کے پاس داخلہ فارم جمع کروانے حاضر ہوا تو اس نے مجھے سامنے بیٹھے ہوئے ایک پروفیسر صاحب کے پاس بھیج دیا تھا۔ موصوف کی خشخشی سی داڑھی تھی، نام غالباً عبدالرزاق تھا۔ انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھایا، نام پتہ کے استفسار کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان سے جو گفتگو ہوئی وہ کچھ اس طرح کی تھی۔

پروفیسر: میٹرک کا امتحان آپ نے کہاں سے پاس کیا ہے؟
میں : پراجیکٹ ہائی سکول منگلا سے۔

پروفیسر مذکور اس دوران میرے کاغذات پر اچٹتی سی نگاہ ڈال کر میرے میٹرک کے رزلٹ کا اندازہ کر چکے تھے۔ انٹرویو جاری رہا۔

پروفیسر: آپ کالج میں داخلہ کیوں لینا چاہتے ہیں؟
میں : جی! میں مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں۔
پروفیسر : آپ مزید تعلیم کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

انٹرویوں کی تاریخ میں میرا یہ پہلا انٹرویو تھا اس لیے مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ ایسے سوالوں کا کیا جواب ہوتا ہے۔ میں نے ذہن پر خاصا زور دیا لیکن مزید تعلیم حاصل کرنے کی کوئی معقول وجہ ذہن میں نہیں آئی۔ میں نے پاکستانی سیاستدانوں کی طرح جھٹ مذہب کا سہارا لیا اور کہا کہ ہمارے رسول پاکﷺ کا قول ہے : اطلبوالعلم لوکان بالصین ( علم حاصل کرو خواہ آپ کو چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ) سر میں تو منگلا سے میرپور، صرف آٹھ میل کا فاصلہ طے کر کے آیا ہوں۔

موصوف میرے جواب پر چونکے تو ضرور لیکن اپنی پروفیسری کا رعب قائم رکھنے کے لیے انہوں نے دعائے قنوت سنانے کی فرمائش کر ڈالی۔ دعائے قنوت سنانے کے ساتھ اگرچہ میں نے اس کا ترجمہ کرنے کی پیشکش بھی کی مگر انہوں نے شرف قبولیت نہ بخشا۔ انہوں نے کمال فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے کاغذات پر بہت سارے ٹک مارک لگائے اور میرے کاغذات پرنسپل کے پاس بھیج دیے۔ اس وقت پرنسپل خواجہ حمید ممتاز تھے۔ اس داخلہ کی پوری روئیداد پہلے لکھی جا چکی ہے۔ دوسری مرتبہ (میٹرک میں فزکس کیمسٹری اور فزیالوجی اور ہائی جین کے مضامین پاس کرنے کے بعد ) جب کالج میں داخلہ فارم جمع کروائے تو کسی انٹرویو کے بغیر ہی داخلہ مل گیا۔

پروفیسر عبداللطیف انصاری

اب کی بار پروفیسر عبداللطیف انصاری کالج کے پرنسپل تھے۔ داڑھی مونچھ سے بے نیاز اور جذبات سے عاری سپاٹ سے چہرے کے مالک تھے۔ جسم پر کالی شیروانی اور سفید شلوار جچتی ہی نہیں سجتی بھی تھی۔ بڑے دھیمے لہجے میں بات کرتے تھے، ذہین و فطین شخص تھے۔ طلباء کے خیر خواہ ہی نہیں ان کے لیے دل میں ہمدردی کا جذبہ رکھتے تھے۔ ڈسپلن کے شیدائی تھے۔ مذہب سے حد درجہ لگاؤ تھا۔ الغرض ان میں وہ اوصاف موجود تھے جو کسی بھی بڑے شخص میں ہوسکتے ہیں۔

لیکن مخصوص نظریات کے حامل تھے جو میں سمجھتا ہوں کسی بھی استاد کے لیے سب سے بڑی نا اہلیت (Disqualification) اور غیر موزونی (Inappropriateness) ہوتی ہے۔ استاد کو علم کا اتھاہ سمندر ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع النظر اور وسیع القلب بھی ہونا چاہیے۔ اس سمندر سے ہر پیاسے کو سیراب ہونے کا پورا پورا استحقاق ہونا چاہیے۔ اس پر کسی نظریے، مسلک یا فرقے کے لیے ممانعت (Out of Bounds) کی تختی آویزاں نہیں ہونی چاہیے۔

ان کی شخصیت کے دراز قد کو گھٹانے میں ان کے سیاسی نظریات کا خاصا عمل دخل تھا۔ میں ان کی شخصیت کے ایک پہلو سے تو خاصا متاثر تھا مگر دوسرا پہلو ان کے اس تاثر کو زائل کر دیتا تھا۔ انہوں نے کالج میں پہلا پیریڈ درس قرآن کا رکھا اور اسے لازمی قرار دیا۔ کسی بھی لیکچر سے غیر حاضری پر دس پیسے جرمانہ ہوتا تھا مگر درس قرآن پر پچیس پیسے۔

جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو

کالج میں داخل ہوا تو دل میں یہ احساس جاگزیں تھا کہ سکول کے اساتذہ کی جھڑکیوں گھرکیوں اور مار پھٹکار سے نجات مل گئی ہے۔ یہ احساس اگرچہ بذات خود بڑا فرحت انگیز تھا اس پر کالج کے سٹوڈنٹ ہونے کا ٹہکا الگ سے تھا۔ سن رکھا تھا کہ اگر کالج کے طلباء کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہو جائے تو وہ سٹرائیک (ہڑتال) کر دیتے ہیں لیکن یہ پتہ نہیں تھا کہ سٹرائیک ہوتی کیا ہے۔ پہلے دو تین ماہ بڑی بے چینی سے سٹرائیک کا انتظار کیا مگر کوئی تماشا نہ ہوا۔

جی میں آئی یہ کیسے پھٹیچر کالج میں داخلہ لے لیا ہے، جہاں کے طلباء سٹرائیک سے واقف ہی نہیں ہیں۔ ایک روز میں کالج نہ جا سکا۔ والد محترم کو آنکھ کے آپریشن کے لیے ٹیکسلا ہسپتال میں لے جانا تھا۔ دوسرے دن کالج گیا تو معلوم ہوا کہ کالج میں پڑھائی نہیں ہوئی تھی، طلباء نے سٹرائیک کر دی تھی۔ یہ یاد نہیں رہا کہ سٹرائیک کس بات پر ہوئی تھی۔ رہ رہ کر مجھے اپنی قسمت پر رونا اور والد پر غصہ آ رہا تھا کہ انہوں نے کل کا دن ہی آپریشن کے لیے کیوں منتخب کیا تھا۔ ان کی وجہ سے میں سٹرائیک میں حصہ لینے کی سعادت سے محروم رہ گیا تھا۔

میں بولایا بولایا پھرتا تھا اور ساتھیوں سے پوچھتا پھرتا تھا کہ سٹرائیک میں کرتے کیا ہیں۔ کرنا خدا کا کیا ہوا کہ دو ہفتے بعد ہی ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہو گیا جس پر طلباء نے احتجاج کرنا ضروری سمجھا۔ کالج کے اساتذہ اور پرنسپل کی رضامندی سے کالج کے سب طلباء کو باہر نکالا گیا۔ ہندوستان کے خلاف نعرے لگائے گئے۔ ہندوستان کو ظالم، جابر اور کشمیریوں کا قاتل قرار دیا گیا۔

کالج سے ملحقہ عمارت جہاں ہائی سکول تھا پر دھاوا بول کر سکول کے طلباء کو اساتذہ کے پنجہ استبداد اور مولا بخش سے رہائی دلائی گئی۔ سکول کے بچے اس ناگہانی رہائی کی خوشی میں دیوانے ہو رہے تھے۔ کالج گراؤنڈ میں اجتماع ہوا۔ دھواں دار بلکہ شعلہ بار قسم کی تقاریر ہوئیں۔ ہندوستان کو مرنے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ اسے کشمیر میں ظلم بند نہ کرنے اور کشمیر پر غاصبانہ قبضے سے دستبردار نہ ہونے کی صورت میں سنگین نتائج کی وارننگ دی گئی۔ انڈیا کو کشمیر سے نکال باہر کرنے کے لیے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کا عزم صمیم کیا گیا۔ البتہ پہلا قطرہ بہانے کے لیے کوئی بھی تیار نہ ہوا۔

جاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments