حوصلہ افزائی اور شاباشی کی طاقت


سید قاسم علی شاہ پاکستان کے مشہور و معروف موٹیویشنل اسپیکر اور ٹرینر ہے۔ انہوں نے آج سے بیس سال پہلے چند ٹوٹی پھوٹی کرسیوں، ہینگر سے لٹکے ہوئے بورڈ کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں صرف تین بچوں کو فی کس ماہانہ 200 روپے میں ٹیوشن پڑھانے کا آغاز کیا تھا لیکن اس کے عزم، محنت اور جہد مسلسل کی وجہ سے اس کی آواز اس چھوٹے سے ٹیوشن سینٹر سے نکل بین الاقوامی سطح پر گونجنے لگا۔ اور آج وہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر بھی تربیتی پروگرامز منعقد کروا چکے ہیں۔

وہ زیادہ تر تعلیم کے ساتھ تربیت، خود شناسی اور کامیابی پر لیکچرز دیتے ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے اور انہیں متحرک کرنے کے لئے اپنی تقاریر کے علاوہ 13 کتابیں بھی لکھی ہیں۔ جن میں اونچی اڑان، بڑی منزل کا مسافر، ذرا نم ہو، اپنی تلاش، سوچ کا ہمالیہ، کامیابی کا سفر وغیرہ شامل ہیں۔ شاہ صاحب کے کتابوں کے علاوہ ان کے طلباء نے ان کے کام پر 5 کتابیں بھی لکھی ہیں۔ شاہ صاحب نے اب تک مختلف اسکولز، کالجز یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات، حکومتی، نجی کاروباری اداروں کے اہلکاروں، کارپوریٹ انسٹی ٹیوشنز کے ذمہ داروں، ٹی وی چینلز، افواج اور پولیس کے نوجوانوں کے لئے کئی تربیتی پروگرامز منعقد کیے ہیں۔ 2018 ء کے ایک سروے میں اسے پاکستان کا نمبر ون پبلک اسپیکر قرار دیا گیا تھا۔ ان کی 5000 سے زائد ویڈیوز یوٹیوب پر موجود ہے جو پوری دنیا میں اردو اور پنجابی بولنے والے دیکھتے اور سنتے ہیں۔

قاسم علی شاہ صاحب کے بارے میں ان تمام باتوں کو پڑھ کر یقیناً آپ کے ذہن میں شاہ صاحب کی ایک ایسی تصویر ابھرے گی جو بچپن ہی سے محنتی، قابل اور ذہین تھا اور نہ صرف پڑھائی بلکہ ابتدائی کلاسز سے تقریر میں بھی مہارت رکھتے ہوں گے ۔ اگر آپ کے ذہن میں یہی باتیں آ گئی ہے تو آپ کا یہ تصور بالکل غلط ہے۔

مجھے چند دن پہلے قاسم علی شاہ صاحب کا ایک انٹرویو پڑھنے کا موقع ملا جو انہوں نے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین کے لئے دیا تھا۔ اس انٹرویو میں وہ بتا رہے تھے کہ عام طور پر لوگ جب مجھے اسٹیج پر مسلسل بولتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کا خیال یہی ہوتا ہے کہ میں بچپن سے بڑا ذہین اور تقریر وغیرہ کا ماہر تھا لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ میں بچپن میں بہت خاموش طبع، ڈرپوک، اپنے آپ میں گم سم رہنے والا، شرمیلا اور سہما سہما سا لڑکا تھا۔

بقولے شاہ صاحب دسویں اور گیارہویں جماعت تک تو اسے تقریر کرنے کا کوئی واقعہ یاد ہی نہیں ہے۔ اس نے اس انٹرویو میں مزید کہا تھا کہ آپ بچپن میں میری تعلیم کے حساب سے بلا مبالغہ مجھے نالائقی کا سرٹیفیکیٹ دے سکتے ہیں۔ کیونکہ میں آٹھویں تک ہمیشہ رعایتی نمبروں سے پاس ہوتا تھا۔ میرے والد ہر سال استاد سے وعدہ کرتے تھے کہ اس مرتبہ بچے کو پاس کر دے اگلے سال محنت کر کے خود پاس ہو جائے گا۔ یہ سلسلہ نویں کلاس تک چلتا رہا لیکن پھر میری زندگی میں ایک انقلاب آ گیا جس نے میری زندگی بدل دی۔

ہوا یہ کہ جب میں نویں کلاس میں تھا تو میرے والد صاحب نے کم گنجائش کے باوجود میرے لیے ایک ٹیوٹر کا بندوبست کر دیا تاکہ میں اپنی پڑھائی کی خامیوں کو دور کر سکوں۔ اس ٹیوٹر کا نام سر منصور تھا جسے میں اپنی زندگی کا سب سے بڑا محسن سمجھتا ہوں۔ اور آج بھی مجھے اس کی تلاش ہے۔ گو کہ سر منصور کی فزکس اور ریاضی بھی بس واجبی سی تھی۔ لیکن ان میں جو ہنر تھا وہ کمال کا تھا۔ اور وہ یہ کہ انہیں شاگردوں کو شاباشی دینا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا آتا تھا۔

انہوں نے مجھے کبھی نہیں ڈانٹا بلکہ ہمیشہ شفقت فرمایا۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے تمہیں یہ مختصر سبق دیا ہے بس اب تم نے اسے ذہن میں بٹھانا ہے۔ سر منصور نے مجھے صرف چار ماہ تک پڑھایا۔ ایک دن سر منصور نے آ کر مجھ سے کہا کہ قاسم بیٹے مجھے دبئی میں نوکری مل گئی ہے۔ یہ ہماری آخری ملاقات ہے تم نے دل لگا کر پڑھنا ہے اور حوصلہ نہیں ہارنا ہے۔ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ سر منصور صاحب کی شاباشی اور حوصلہ افزائی کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ جب میٹرک کا رزلٹ آیا تو میں بہت اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا۔ اور کامیابی کا یہ سلسلہ جو نویں کلاس سے سر منصور کی حوصلہ افزائی اور شاباشی کی بدولت شروع ہوا تھا آج تک جاری ہے۔

پاکستان کے ایک معروف کالم نگار نے ایک مرتبہ اپنے ہالینڈ میں قیام کے دوران کے ایک واقعے کا ذکر کیا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ میں ہالینڈ میں ایک جگہ مہمان تھا۔ ان دنوں اس میزبان کے بچے نے زندگی میں پہلی مرتبہ ڈرائنگ بنائی تھی۔ میرا میزبان گھر میں ہر آنے والے ملاقاتی کو بچے کے اس کارنامے سے آگاہ کرتا اور تمام ملاقاتی جی بھر کر اور دل کھول کر بچے کو شاباشی دیتے اور اس بچے کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ میزبان نے جب مجھے ڈرائنگ دکھایا تو وہ انتہائی بے کار، فضول اور بد صورت تصویر تھی۔ میں نے وہاں پر محسوس کیا کہ اس ڈرائنگ پر صرف اس لیے بچے کو شاباشی دیا جا رہا ہے تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ مستقبل میں اس سے بہتر ڈرائنگ بنانے کی کوشش کرے۔ لہذا اس دن مجھے سمجھ آ گیا کہ کسی بھی انسان چاہے وہ بچہ ہو جوان ہو یا بوڑھا ہو حوصلہ افزائی اس کے لئے کتنا اہمیت رکھتا ہے۔

جی ہاں، ہمارے ارد گرد کتنے باصلاحیت، ذہین اور قابل لوگ موجود ہیں لیکن ان کی مناسب حوصلہ افزائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ لوگ تھک ہار کر شکست قبول کر رہے ہیں۔ ہمارے ہر گھر، ہر محلے، ہر سکول اور ہر ادارے میں بے پناہ باصلاحیت لوگ موجود ہے لیکن وہ ہماری عدم توجہی اور مناسب حوصلہ افزائی نہ ہونے کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو کر معاشرے کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ رہے ہیں۔

ہمارا معاشرہ جہاں پہلے ہی ایماندار، دیانت دار، محنتی اور جہد مسلسل کرنے والے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ لیکن ہم ان چند لوگوں کی بھی مسلسل حوصلہ شکنی کر کے انہیں مایوسی اور نا امیدی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کی اکثریت یہی چاہتا ہے کہ یہی باہمت لوگ بھی راہ عمل کو ترک کر کے ان جیسے بنے اور اسی لئے وہ دن رات ان کی حوصلہ شکنی کرنے پر کمر بستہ نظر آتے ہیں۔

آپ اگر اچھے کام کرنے والوں کی مالی مدد نہیں کر سکتے ہیں نہ کریں، ان کے لیے لڑ نہیں سکتے ہیں نہ لڑے، ان کا ساتھ نہیں دے سکتے ہیں نہ دے، آپ ان کے کسی مہم میں شریک نہیں ہو سکتے ہیں نہ ہو، لیکن یہ ضرور کریں کہ کبھی ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہے یار ویلڈن، اس معاشرے میں جہاں لوگوں کو اپنی ہی فکر پڑی ہوئی ہے اسی معاشرے میں تم دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہو رہے ہو۔ تم اس ماحول میں انسانوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کا راستہ دکھا رہے ہو۔ تم اس معاشرے میں لوگوں کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر علم کے اجالے کی طرف لا رہے ہو۔ دوست تم بہت عظیم انسان ہو۔ تم مجھ جیسے تماشا دیکھنے والوں اور دل ہی دل میں افسوس کرنے والوں سے ہزار درجہ بہتر ہو۔ اور میں تمھیں دل کی بے پناہ گہرائیوں سے سلام پیش کرتا ہوں۔

آپ یقین کریں کہ آپ کے یہ چند حوصلہ افزائی کے کلمات اس کے تھکے ہوئے حوصلے کے لئے صور اسرافیل کا کام کریں گے۔ اس کے اندر توانائی کا ایک دریا بلکہ ایک سمندر پیدا ہو جائے گا۔ اور وہ پوری مستعدی کے ساتھ ایک مرتبہ پر راہ عمل میں شامل ہو جائے گا۔

سر سید احمد خان نے اپنے مضمون خوشامد میں لکھا ہے کہ جو آدمی دوسرے میں ایسے صفات بیان کریں جو اس میں نہیں ہے۔ یعنی اس کی خواہ مخواہ خوشامد کرے تو خوشامد کرنے اور سننے والے دونوں کمینے ذہن کے لوگ ہیں۔ لیکن دوسری طرف ایک ایسا آدمی جس میں وہ خوبی اور صفت پایا جائے لیکن لوگ صرف عداوت اور عناد کی وجہ سے اس کے اچھائی اور نیکی کی تعریف نہیں کرے۔ اور اس کے نیک کاموں میں اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرے تو یہ بھی نا انصافی اور کمینہ پن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments