مہنگائی اور غریب کے سینے کی بے اطمینانی
جون کی چلچلاتی گرمی کا مہینہ ہے۔ اسی گرم مہینے میں گرما گرم اگلے مالی سال کا مالیاتی تخمینہ بھی جاری ہوتا ہے۔ ہمیں خیال آیا کیوں نہ غریبوں کے مسائل پہ لکھا جائے۔ جب لکھنے بیٹھی تو وقت تھوڑا پیچھے چل پڑا۔ دل نے کہا وقت کا موازنہ کر لیا جائے تو چلیے تحریر حاضر ہے :
ماضی کا قصہ: گرمی ہو یا سردی ہر روز کیرج اور لوکو ورکشاپ کا سائرن صبح سویرے ہی بج اٹھتا۔ ورکشاپ کے مزدوروں کی بستی کے اوپر آسمان چکنا اور کثیف فضا میں ڈوبا رہتا۔ اپنی زندگیوں کی کٹھن روٹین سے بیزار مزدور بڑبڑاتے ہوئے اٹھ بیٹھتے۔ پہلے رب کے حضور سجدہ کرتے۔ ناشتے میں سوکھی روٹیاں اور رات کا بچا ہوا سالن کھاتے۔ گرم گرم چائے اپنے اندر انڈیلتے تا کہ تازہ دم ہو سکیں پھر اپنی سائیکلیں نکالتے اور لوکو اور کیرج ورکشاپ کی طرف قطار در قطار چل پڑتے۔
بچوں سے بھری مختلف سکولوں کی بسیں سڑکوں پہ دھواں چھوڑتی ہوئی چلی جاتیں۔ ورکشاپ مشینوں کی بھدی سی آوازوں اور تیل سے تر بتر باس سے بھری رہتی۔ مشینوں کی گھڑ گھبراہٹ مزدوروں سے پسینے کی صورت میں ان کی محنت نچوڑ لیا کرتی۔ مزدوروں کی اس بستی کے کوارٹروں میں بسنے والے مزدوروں کی زندگیاں کسی حد تک مطمئن تھیں۔ مگر صرف دال روٹی ہی پوری ہوتی تھی۔ باقی خواہشات تو حسرتوں میں بدل جاتی تھیں۔ مگر معاشرے میں پھر بھی اطمینان تھا کیونکہ پڑوسی احساس مند تھے۔
ورکشاپ کے مسائل حل کرنے کو مزدوروں کی یونین بھی تھی۔ اپنی بستی میں کھیل کے گراؤنڈ میں شام کو سب مزدور اکٹھے ہوتے اور اپنے مسائل اور حقوق پر بات کیا کرتے تھے۔ وہ پراویڈنٹ فنڈ، حادثات اور معالجے کی انشورنس پانے کی باتیں کرتے۔ ورکشاپ کے مزدوروں کی بستی کے پرے خانہ بدوشوں کی جھگیاں تھیں جو خط غربت سے نیچے زندگی گزارتے تھے۔ ان سے اپنا موازنہ کر کے مزدور رب کے حضور سجدۂ شکر بجا لاتے۔ گو کہ اس دور میں بھی مزدوروں کو وہ اجرت نہیں ملتی تھی جو ان کے خون پسینے کی کمائی تھی لیکن قابل قدر سلوک کیا جاتا تھا۔ جو مزدور ورکشاپ میں اوور ٹائم لگاتے تھے انھیں پیس ورک کے نام پر اضافی اجرت ملتی تھی۔ اس سے پیسے تو اکٹھے ہو جاتے تھے لیکن جسم کی ہڈیوں سے طاقت نچڑ جاتی تھی۔ حکومت کو اوور ٹائم کی صورت میں فائدہ ہوتا تھا اور غریبوں کا نقصان۔
آج کا قصہ: وہی ورکشاپ کے مزدوروں کی کوارٹروں کی بستی ہے۔ وہی لوکو اور کیرج ورکشاپ کا سائرن تڑکے ہی بج اٹھتا ہے۔ لیکن آج کا مزدور زیادہ بیزار ہے۔ اگر وہ اپنے بچوں کو سکول کا نیا یونیفارم بنا کر دے تو کئی دنوں گھر میں بس دال سبزی ہی چلتی ہے۔ ماں تو شاید ایک ہی روٹی کھاتی ہے اور وہ بھی بچے کھچے میں سے۔ ملک میں معاشی استحکام ہمیشہ سے ہی متزلزل رہا ہے۔ اب تو مہنگائی بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ ہمارے ملک کا غریب تقریباً اپنی کمائی کا دو تہائی حصہ تو صرف اور صرف روٹی، کپڑا اور مکان پر ہی لگا دیتا ہے۔
تقریباً 80 فی صد لوگ رپورٹ کرتے ہیں کہ غریبوں کی حالت دن بدن ابتر ہو رہی ہے۔ غربت مزید بڑھ رہی ہے۔ غریبوں کے بچوں کے لئے تعلیم حاصل کرنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ پڑھنے کی بجائے بچے مزدوریاں کر رہے ہیں۔ عورتیں گھروں میں صفائیوں کا کام کرتی ہیں اور مرد مختلف مزدوریاں کرتے ہیں تب کہیں جاکر گھروں کے کرائے اور بل ادا کیے جاتے ہیں۔ اسی دوران ملک میں ایک نیا انقلابی لیڈر آیا جس نے اپنے لوگوں کو بڑے بڑے خواب دکھائے۔
غریب کو اس کے حقوق کا احساس دلایا۔ نادار لوگوں کو بھی معلوم پڑا کہ ان کے حکمران کیسے اداروں کو لوٹتے ہیں اور اپنے اثاثے بناتے ہیں۔ لیکن مہنگائی کا رونا رو رو کر حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ ملک میں عدم اعتماد کی تحریک جسے مہنگائی کے نام پہ کامیاب بنایا گیا کی وجہ سے نئی حکومت آ گئی۔ لیکن مہنگائی جوں کی توں رہی بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوا۔ غریب کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ میں نے بہت سے لوگوں سے پوچھا تو ان کا کہنا ہے کہ اشیائے خورد و نوش اور بنیادی چیزوں پہ لگائے گئے سیلز ٹیکس کو ختم کیا جائے تاکہ اضافی بوجھ کم ہو۔
معاشرتی امداد کی تقسیم کے عمل کو شفاف بنایا جائے۔ پٹرول، بجلی، اور گیس کی قیمتوں کو کم کیا جائے تاکہ زندگی سہل ہو سکے۔ چند لوگوں نے کہا کہ مہنگائی اور غربت کی وجہ سے دل و ذہن میں منفی خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ معاشرے میں اعتدال نہیں رہتا۔ چند ایک نے کہا کہ جب تک مافیاز کو ان کے انجام تک نہیں پہنچایا جائے گا حالات کیونکر ٹھیک ہوں گے۔ اس وقت ملک میں مہنگائی کا بدترین طوفان آیا ہوا ہے۔ مہنگائی کا مطلب ہے اشیائے ضرورت کی قیمتوں کا آمدن کے مقابلے میں بڑھ جانا۔
جب اداروں میں بددیانتی بڑھے گی۔ جب ذخیرہ اندوزی عام ہو گی۔ جب نوکریوں کے بدلے رشوت لی جائے گی۔ جب نمود و نمائش کی خاطر فضول اخراجات اٹھائے جائیں گے تو مہنگائی کیسے کم ہو گی۔ حکومتوں کا فرض ہے کہ عوام کے حقوق کا تحفظ کرے۔ محکموں میں مالی، قانونی و اخلاقی کرپشن کو ختم کیا جائے تاکہ مہنگائی کے بے قابو جن کو کنٹرول کیا جا سکے۔ غریب جو اس ملک کی ترقی میں اپنا برابر حصہ ڈالتے ہیں انہیں آسودگی دی جائے تاکہ زندگی کے گو ناگوں مسائل حل کا راستہ تلاش کریں۔
مزدور اور کسان طبقہ ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ طبقہ ورکشاپیں، کارخانے، عمارتیں اور اناج پیدا کرتا ہے۔ یہ وہ زندہ قوت ہے جس کی وجہ سے پالنے سے قبر تک سب لوگ اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ یہ محنت کرتے ہیں مگر سیاست دان ان کی پرواہ نہیں کرتے۔ آج بھی اس مزدوروں کی بستی کے مزدور مشینوں کی گڑگڑاہٹ اور بھاپ کی سنسناہٹ میں غرق رہتے ہیں۔ لیکن اب بے اطمینانی جو ان کے سینوں میں چھپی رہتی تھی وہ جاگ اٹھی ہے۔
وہ اپنے جائز حقوق مانگ رہی ہے۔ وہ اب اپنی مدد آپ کرنا چاہتے ہیں۔ اب اپنی جائز اجرت اور مہنگائی کے خلاف ان کے سر گندم کی بالیوں کی طرح جھومنے لگے ہیں۔ آج مہنگائی یوں ہے جیسے طوفان میں ٹین کی چھت پہ اولے برستے ہوں۔ ان دنوں وہ انقلابی لیڈر قریہ قریہ تقریریں کر رہا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں اس کی بات اترتی ہے۔ وہ لوگوں کو دلیلوں سے قائل کرنا چاہتا ہے، چنگاری کو عین مرکز میں پھینکنا چاہتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے کہا لگتا ہے قوم کے دلوں میں ایک نیا دل جنم لے رہا ہے۔ اے لوگو! قدم آگے بڑھاؤ اور عقل کی روشنی سے ہر چیز منور کر دو۔ ایک قوم میں متحد ہو جاؤ۔ سب صحت مند دل ایک واحد عظیم الشان قوم کے دل کی صورت متحد ہو جاؤ جس میں نقرئی گھنٹیاں خوشیوں کی نوید سناتی ہوں۔
- امریکہ کی جانب پہلی اڑان! - 28/03/2024
- سرکاری خدمات کے محکمے - 10/03/2024
- سرکاری خدمات کے محکمے - 09/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).