جواہر لعل نہرو: انڈیا کے پہلے وزیرِ اعظم کی زندگی کے آخری لمحات اور وہ خواہش جو پوری نہ کی گئی

ریحان فضل - بی بی سی ہندی، دہلی


اندرا گاندھی
اندرا گاندھی اپنے والد جواہر لعل نہرو کے جسدِ خاکی کے پاس

1962 کی انڈو چین جنگ نے جواہر لعل نہرو کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ اس صدمے سے کبھی نکل نہیں پائے۔ ان کی جسمانی طاقت، فکری قابلیت اور اخلاقی چمک ماضی کی بات ہو گئی تھی۔

مایوس نہرو تھکے ہوئے دکھائی دینے لگے تھے، ان کے کندھے جھکے ہوئے تھے اور ان کی آنکھیں بھی نیند میں ڈوبی ہوئی لگتی تھیں۔ ان کی چال میں جو رفتار تھی وہ بھی مدھم پڑ گئی تھی۔

روزنامہ انڈین ایکسپریس کے نیوز ایڈیٹر ٹریور ڈرائی برگ نے لکھا: ’ایک ہی رات میں نہرو تھکے ہوئے، مایوس اور بوڑھے آدمی کی طرح لگ رہے تھے۔ ان کے چہرے پر بہت سی جھریاں نمودار ہو گئی تھیں اور ان کی چمک ہمیشہ کے لیے چلی گئی۔‘

8 جنوری 1964 کو جب نہرو بھونیشور میں کانگریس کے سالانہ کنونشن سے خطاب کرنے کے لیے اٹھے تو وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور گر پڑے۔ سٹیج پر بیٹھی اندرا گاندھی نے دوڑ کر نہرو کو اٹھایا۔

نہرو کے جسم کے بائیں جانب فالج ہو گیا تھا۔ اگلے چند دنوں تک نہرو ریاست اڑیسہ کے راج بھون میں رہے۔ ان کی صحت تھوڑی بہتر ہوئی لیکن اتنی نہیں کہ وہ دوبارہ کانگریس کے کنونشن میں شرکت کر سکیں۔

لال بہادر شاستری بغیر محکمے کے وزیر بنائے گئے

نہرو اور اندرا 12 جنوری کو دہلی واپس آ گئے۔ نہرو نے اپنے یومیہ کام کے اوقات کو 17 سے کم کر کے 12 گھنٹے کر دیا۔

ڈاکٹروں کے مجبور کرنے پر انھوں نے دوپہر کو تھوڑی دیر کے لیے سونا شروع کر دیا۔ باہر کے لوگوں کو یہ نہیں بتایا گیا کہ نہرو کی بیماری کتنی سنگین تھی۔

جنوری کے آخر تک نہرو اتنے بہتر ہو گئے تھے کہ 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کی تقریبات میں حصہ لے سکیں۔ فروری میں وہ پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں بھی موجود تھے لیکن انھوں نے وہاں بیٹھ کر تقریر کی۔

اس وقت کے وزیر داخلہ گلزاری لال نندا اور وزیر خزانہ ٹی ٹی کرشنماچاری روزمرہ کے سرکاری کاموں میں نہرو کی مدد کر رہے تھے۔

لیکن 22 جنوری کو اچانک لال بہادر شاستری کو بغیر محکمے کے وزیر کے طور پر حلف دلوایا گیا۔

جواہر لعل نہرو
نہرو کے جسم کے بائیں جانب فالج ہو گیا تھا

ساتھ ہی انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینین کی جانب سے نہرو کے بعد کون؟ کے موضوع پر ایک سروے کیا گیا۔ اس میں شاستری کو پہلا، کامراج کو دوسرا، اندرا گاندھی کو تیسرا اور مرارجی ڈیسائی کو چوتھا مقام ملا۔

اندرا گاندھی 15 اپریل کو امریکہ چلی گئیں۔ وہاں سے وہ 29 اپریل کو واپس آئیں۔ اسی دن نہرو کی دعوت پر شیخ عبداللہ ان سے ملنے دہلی آئے۔

دوپہر کو اندرا گاندھی انھیں لینے پالم ہوائی اڈے پر گئیں۔ عبداللہ نے تین مورتی بھون پہنچتے ہی نہرو کو گلے لگایا جنھیں انھوں نے 11 سال سے نہیں دیکھا تھا۔ نہرو کی جسمانی حالت دیکھ کر عبداللہ کو جھٹکا لگا۔

13 مئی کو، نہرو اور اندرا کانگریس کی میٹنگ میں شرکت کے لیے ممبئی گئے۔ 22 مئی کو نہرو نے سات مہینوں میں پہلی بار پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ 38 منٹ کی اس پریس کانفرنس میں 200 سے زائد صحافیوں نے شرکت کی تھی۔

ممتاز صحافی ایم جے اکبر نہرو کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں، ’نہرو ٹھیک لگ رہے تھے، لیکن ان کی آواز کمزور تھی۔ یہ سوال کئی بار پوچھا گیا کہ نہرو کے بعد کون؟

آخر میں، نہرو کو پریشان ہو کر کہنا پڑا کہ ’میں اتنی جلدی مرنے والا نہیں ہوں۔‘

جیسے ہی نہرو نے یہ کہا، تمام صحافی ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ اگلے دن نہرو اور ان کی بیٹی تین دن کے لیے ہیلی کاپٹر سے دہرادون گئے۔ وہ 26 مئی کو دہلی واپس آئے۔

ایم جے اکبر مزید لکھتے ہیں کہ ’اس دن نہرو نے اپنی میز پر رکھی تمام فائلوں کو نمٹا دیا اور جلد ہی سونے چلے گئے۔ رات میں ان کی نیند کئی بار کھلی۔ ان کے اسسٹنٹ نتھو نے انھیں نیند کی گولی دی۔ نتھو وزیر اعظم کے بستر کے ساتھ والی کرسی پر سو رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیئے

ایک فون کال جس نے جواہر لعل نہرو کی خوشیوں پر پانی پھیر دیا

تاریخ کا نیا باب شروع ہو رہا ہے: نہرو

لال بہادر شاستری: وہ انڈین وزیر اعظم جن کی میت کو صدر ایوب خان نے کندھا دیا

نہرو کی دماغ کی رگ پھٹی

27 مئی کو صبح 6.25 بجے نہرو کی آنکھ کھلی۔ وہ درد میں مبتلا تھے لیکن انھوں نے نتھو کو دو گھنٹے تک نہیں جگایا۔ جب نتھو بیدار ہوئے تو انھوں نے ایک سیکورٹی گارڈ کو اندرا گاندھی اور نہرو کے ڈاکٹر بیدی کو بلانے کے لیے بھیجا۔

جب نہرو کو فالج ہوا تھا اس کے بعد سے بیدی تین مورتی بھون میں رہ رہے تھے۔ اندرا اور ڈاکٹر بیدی کمرے میں داخل ہوئے تو نہرو قدرے پریشان دکھائی دیے۔ اس کے بعد نہرو چند ہی لمحوں میں بے ہوش ہو گئے۔ ڈاکٹر بیدی نے ان کا معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ نہرو کی بڑی شریان پھٹ گئی ہے۔

چونکہ اندرا اور نہرو کا بلڈ گروپ ایک ہی تھا، اس لیے ڈاکٹر بیدی نے اندرا گاندھی کے جسم سے خون لیا تاکہ وہ نہرو کو خون چڑھا سکیں۔

لیکن خون چڑھانے سے پہلے ہی نہرو کوما میں چلے گئے۔

کیتھرین فرینک اندرا گاندھی کی سوانح عمری میں لکھتی ہیں: ’اس دوران اندرا نے راجیو گاندھی کو ایک ٹیلی گرام بھیجا جو اس وقت انگلینڈ میں تھے۔ انھوں نے سنجے گاندھی کو بھی پیغام بھیجا جو ان دنوں کشمیر گئے ہوئے تھے۔ پھر انھوں نے اپنی دو آنٹیوں کرشنا ہتھی سنگھ اور وجے لکشمی پنڈت کو بلایا جو اس وقت ممبئی میں تھیں۔ دہلی میں انھوں نے کرشنا مینن کو فون کیا جو چند منٹوں میں تین مورتی بھون ہاؤس پہنچ گئے۔

نہرو
ایک موقع پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئہ نہرو نے کہا ’ابھی میں مرنے والا نہیں ہوں‘

نہرو کا انتقال بدھ جینتی کے دن ہوا

27 مئی کو دوپہر 1:44 بجے نہرو نے آخری سانس لی۔ کوما میں جانے کے بعد انھیں کبھی ہوش نہیں آیا۔

اس وقت اندرا گاندھی اور کرشنا مینن ان کے ساتھ تھے۔ پوری دوپہر اور شام تک دونوں نہرو کی لاش کے پاس بیٹھے رہے۔

نہرو کی چھوٹی بہن وجے لکشمی پنڈت نے اپنی سوانح عمری ’دی سکوپ آف ہیپی نیس‘ میں لکھتی ہیں: ’ممبئی سے دہلی کے لیے آخری فلائٹ روانہ ہو چکی تھی۔ اس دن مہاراشٹر حکومت کے جہاز وہاں کے وزیر اعلیٰ استعمال کر رہے تھے۔ میں نے صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن کو فون کیا۔ انھوں نے میرے لیے جہاز سے دہلی آنے کا انتظام کیا۔ جب ہم تین مورتی بھون پہنچے تو سوگواروں کا اتنا ہجوم تھا کہ ہمیں اپنی گاڑی سے کافی دور اترنا پڑا۔

’جب میں نے بھائی کو دیکھا تو ان کا چہرہ خوبصورت اور پاکیزہ لگ رہا تھا۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ میرے مرنے کا سب سے اچھا دن بدھ جینتی ہو گا۔ وہ ہمیشہ سے مہاتما بدھ کے لیے خاص جذبات رکھتے تھے۔ جس دن گوتم بدھ پیدا ہوئے تھے، اسی دن ان کا انتقال ہوا۔ بھائی بدھ جینتی کے دن ہمیں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔‘

لوگوں کے لیے تین مورتی بھون کے دروازے کھول دیے گئے

نہرو کی موت کے چند منٹوں میں ہی تین مورتی بھون کے کمرے، راہداری اور سیڑھیاں لوگوں سے بھر گئیں۔ سب سے پہلے پہنچنے والے ٹی ٹی کے کرشنماچاری اور جگ جیون رام تھے۔ دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

تھوڑی دیر میں نہرو کابینہ کے دیگر ارکان بھی وہاں پہنچ گئے۔ دو سے تین بجے کے درمیان تین مورتی عمارت کے نیچے والے کمرے میں کابینہ کی ہنگامی میٹنگ ہوئی۔ ساتھ ہی یہ فیصلہ کیا گیا کہ وزیر داخلہ گلزاری لال نندا نگران وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالیں گے۔

کیتھرین فرینک لکھتی ہیں، ’اس دن تین مورتی بھون میں ہر کوئی غمزدہ میں تھا، سوائے مرار جی ڈیسائی اور کامراج کے جو غمزدہ سے زیادہ محتاط نظر آئے۔ نہرو کے کمرے کے باہر کھڑے مرارجی ڈیسائی سوگ میں آنے والے لوگوں کا اس طرح استقبال کر رہے تھے جیسے وہ کسی سفارتی تقریب کے میزبان ہوں۔

جیسے ہی اندھیرا ہوا، نہرو کے جسم کو کنول، گلاب، گیندے کے پھولوں اور ہندوستانی ترنگے میں لپٹ کر نیچے اتار کر تین مورتی بھون کے سامنے والے برآمدے میں لایا گیا۔

چونکہ اس وقت گرمی پڑ رہی تھی اس لیے ان کے جسدِ خاکی کو برف کی سِلیوں پر رکھا گیا۔ اس دوران نہرو کی دونوں بہنوں کے علاوہ مغربی بنگال کی گورنر پدمجا نائیڈو بھی وہاں پہنچ گئی تھیں۔ اس رات تین مورتی بھون میں کوئی نہیں سویا اور عمارت کے دروازے لوگوں کے لیے کھلے رہے۔

اندرا کی نہرو کو آخری بدائی

28 مئی کی صبح ہی سنجے گاندھی کشمیر سے دہلی پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ نہرو کی آخری رسومات کے تمام انتظامات اندرا گاندھی نے کیے تھے۔

اندر ملہوترا اندرا گاندھی کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں: ’وہ تین مورتی بھون میں کام کرنے والے نوکروں کے کپڑوں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ وہ سب بہت غمگین تھے اور نہرو کی موت کے بعد انھوں نے نہ کھایا اور نہ ہی وہ نہائے۔ اندرا نے ان تمام لوگوں کو گھر جا کر نہانے، شیو کرنے اور کپڑے بدلنے کے لیے کہا۔ انھوں نے کہا کہ میرے والد ہمیشہ صفائی پسند کرتے تھے۔ میں نہیں چاہتی کہ آج ان کے ارد گرد کسی قسم کی بے ترتیبی دکھائی دے۔

نہرو کے جسدِ خاکی کو گن کیریج پر رکھا گیا تھا۔ سفید کھادی میں ملبوس اندرا اور سنجے کھلی گاڑی میں سوار ہوئے۔ چلچلاتی دھوپ میں دونوں پسینوں میں بھیگ رہے تھے۔

راجیو تب تک دہلی نہیں پہنچ سکے تھے۔ دریائے جمنا کے ساتھ پانچ میل طویل راستہ طے کرنے میں تین گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا۔ سڑک کے دونوں جانب اور جنازے کی جگہ پر تقریباً 20 لاکھ لوگوں کا ہجوم تھا۔

ایک ہیلی کاپٹر نے ان کے جنازے پر اوپر سے پھولوں کی بارش کی۔ اس موقع پر تقریباً 8000 پولیس اہلکار اور 6000 فوجی تعینات تھے۔

ایم جے اکبر نہرو کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں: ’اندرا آخری بار نہرو کے نزدیک گئیں۔ انھوں نے ان پر گنگا کا پانی چھڑکا اور اپنے والد کے قدموں کے پاس چندن کی ایک لکڑی رکھی۔ وہ کچھ کہے بغیر تقریباً 8 منٹ تک وہاں کھڑی رہیں پھر انھوں نے آخری بار ان کا چہرہ دیکھا اور پھر نیچے آ گئیں۔

فائل فوٹو
نہرو کی موت پر غمزدہ لوگ

سنجے گاندھی نے نہرو کی چِتا کو آگ دی

نہرو نے اپنی وصیت میں واضح طور پر لکھا تھا کہ ان کی آخری رسومات میں کسی قسم کی مذہبی رسومات ادا نہ کی جائیں لیکن اس کے باوجود ان کی آخری رسومات ہندو طریقے سے ادا کی گئیں۔

یہ فیصلہ اندرا گاندھی کا تھا۔ کیتھرین فرینک لکھتی ہیں کہ ’اس فیصلے سے اندرا کو بہت تکلیف ہوئی کیونکہ انھوں نے نہرو کی آخری خواہش کا احترام نہیں کیا تھا۔ شاید ان پر کچھ مذہبی رہنماؤں اور سیاست دانوں نے دباؤ ڈالا تھا کہ انڈیا کے لوگ سیکولر جنازے کو قبول نہیں کر سکیں گے۔ نہرو کے جسم کو چندن کی لکڑیوں کے اوپر رکھا گیا تھا۔ ویدک منتر پڑھے گئے اور 17 سالہ سنجے گاندھی نے ان کی چِتا کو آگ لگائی۔

نہرو کی راکھ کو خصوصی ٹرین کے ذریعے الہٰ آباد لے جایا گیا

آخری رسومات کے 13 دن بعد نہرو کی راکھ کو ایک خصوصی ٹرین کے ذریعے الہٰ آباد لے جایا گیا تاکہ اسے دریاؤں کے سنگم تک پہنچایا جا سکے۔

عام طور پر ٹرین کے اس سفر میں 10 گھنٹے لگتے تھے لیکن یہ سفر 25 گھنٹوں میں طے ہوا۔ ٹرین ہر اس سٹیشن پر رکی جہاں ہزاروں لوگ نہرو کو آخری مرتبہ الوداع کہنے آئے تھے۔

اس سفر کو بیان کرتے ہوئے اندرا گاندھی کی قریبی ساتھی اوشا بھگت نے اپنی کتاب ’اندرا جی‘ میں لکھا: ’تمام کھڑکیاں شیشے کی تھیں اور ان پر سبز پردے لگے ہوئے تھے۔ ہر سٹیشن پر لوگ ٹرین پر پھول برسا رہے تھے۔ شیخ عبداللہ علی گڑھ سٹیشن پر ٹرین میں سوار ہوئے۔ ہم لوگوں نے پہلے ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان‘ گایا اور پھر شانتی پاٹ کیا۔

فائل فوٹو
سنجے اور راجیو گاندھی نہرو کی راکھ کو پکڑے ہوئے

’ٹرین میں منی بین، جمنا لال بجاج، کے سی پنت، وجے لکشمی پنڈت، کرشنا ہتھی سنگھ اور ذاکر صاحب ہمارے ساتھ تھے۔ سٹیشنوں پر اتنے لوگ آرہے تھے کہ ان کی ہتھیلیوں کے دباؤ سے ہماری طرف کی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ گیا۔ دلائی لامہ بھی الہٰ آباد سٹیشن پہنچ چکے تھے۔

سنگم میں نہرو کی کچھ راکھ کے علاوہ ان کی اہلیہ کملا نہرو کی راکھ بھی ایک ساتھ بہائی گئی۔ تقریباً 30 سال پہلے نہرو سوئٹزرلینڈ سے کملا کی راکھ لائے تھے اور وہ انھیں ہمیشہ اپنے بستر کے سرہانے رکھتے تھے۔

نہرو کی راکھ انڈیا کی سرزمین پر بکھری ہوئی تھی۔

جواہر لعل نہرو نے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ ان کی راکھ ہوائی جہاز سے انڈیا کی ہر ریاست پر گرائی جائے۔

کشمیر میں اندرا گاندھی خود نہرو کی راکھ لے کر گئیں۔ سری نگر میں وہ ایک چھوٹے طیارے میں سوار ہوئیں اور انڈین فضائیہ کے ایک افسر کے این شاستری کی مدد سے تمام راکھ اس سرزمین پر بکھیر دی جہاں نہرو کے آباؤ اجداد پیدا ہوئے تھے اور جن سے نہرو بہت پیار کرتے تھے۔

باقی کی راکھ انڈین فضائیہ کے طیاروں نے ان تمام ریاستوں کی زمین پر بکھیر دی جہاں انڈیا کے کسان کام کرتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32542 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments