ہمارا نہیں، آپ کا برا وقت آنے والا ہے

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


جب ہندوستان سے انگریز گیا یعنی کالونی تباہ ہوئی تو ہندوستان کے دو ٹکڑے ہوئے۔ انگریز کے جانے کو آزادی کا نام دیا گیا اور ان دو ٹکڑوں کو انڈیا اور پاکستان کہہ کر ان لوگوں کے زخموں پہ پھاہا رکھنے کی کوشش کی گئی جنھیں انڈیا اور پاکستان کے ہجے بھی نہ آتے تھے۔

یہ ننگے عوام، یہ بھوکے عوام، دھوتیوں کے لانگڑ کسے اپنے گھروں سے اپنی بیل گاڑیاں اور مکھن سے بنی بہو بیٹیاں لے کے نکلے اور آزادی کے سورج کے نیچے کھڑے رہ گئے۔ جس سامراج کو سب مل کے گالیاں دیتے ہیں، اسی کالونیل آقا کے پروردہ آزادی کے نقیب بنے۔ مکھن سے بنی عورتیں پگھل گئیں اور ان کے نیم ننگے فاقہ زدہ مردوں نے کیچڑ میں گھلے اس مکھن سے پھر سے ان کے پتلے گھڑے اور گرہستی شروع کی۔

دوسری عالمی جنگ برطانیہ کی کمر نہ توڑتی تو وہ اتنی عجلت میں یہاں سے نہ بھاگتا۔ آزادی کے نام پر جو انارکی پھیلی اور عوام کا جو حال ہوا اس کی داستانیں آج بھی باقی ہیں اور اس کے سماجی اثرات اگلی کئی صدیوں تک باقی رہیں گے۔

پاکستان بننے کے بعد ہم مغربی بلاک میں رہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ عوام اپنے حصے کی قربانی دے چکے تھے، خونی انقلاب آ چکا تھا، اب بسنے کا وقت تھا لیکن اس قربانی کو بیچ دیا گیا۔

سالہاسال امریکی بلاک میں رہ کے بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھنے سے انکار کرنے والوں سے وہ لوگ الگ ہو گئے جو سر اٹھا کے جینا چاہتے تھے۔ ننگے عوام، بھوکے عوام، دکھ سے اپنے ملک کے دو ٹکڑے ہوتے دیکھتے رہے۔ ایک بار پھر وہ قربانی دی گئی جو فرض نہ تھی۔

امریکی بلاک میں ہونے اور کسی کے دفاع کی پہلی صف بننے کے شوق میں بھوکے ننگے عوام سے پھر قربانی مانگی گئی۔ اب کی بار یہ ہمارے بچے تھے اور ہمارے تعلیمی ادارے۔ ہم مجاہد بنے اور ہمارے سروں پر عقل چوس چڑھا دیے گئے۔

اس قربانی سے ابھی نکلے بھی نہ تھے کہ اگلی قربانی مانگی گئی۔ ہمیں وہ دینی چولا اتار پھینکنے کا حکم دیا گیا جو کچھ دہائیاں پہلے ہماری کھال کھینچ کر اس کی جگہ منڈھ دیا گیا تھا۔

ننگے عوام شرمندہ شرمندہ یہ قربانی بھی دے بیٹھے۔ یہ قربانیاں مانگنے والے کون تھے، سب جانتے ہیں۔ خود ان کی قربانیاں کتنی ہیں، شاید ہماری کسی ایک خونیں قربانی کے برابر بھی نہیں۔ مالی اور سماجی قربانیوں کا تو ذکر ہی چھوڑ دیں۔

ننگے بھوکے عوام کو جمہوریت کے خواب دکھا کر ایک نئی قربانی کے لیے تیار کیا گیا۔ پچھلے 14 سال سے مہنگائی روزافزوں ہے کیونکہ یہ قربانیاں مانگنے والے جن روٹیوں پر لگ چکے ہیں اب وہ روٹیاں بند ہو چکی ہیں۔ عوام کی روٹی اور پیاز میں سے کب تک ان کے کیک نکلتے رہیں گے؟

دوسری عالمی جنگ کی طرح کورونا کی عالمی وبا اور دیگر عالمی حالات کے باعث امریکہ افغانستان سے اسی طرح عجلت میں بھاگا جیسے انگریز ہندوستان سے گیا تھا۔ پاکستان جو ایک پالتو خرگوش کی طرح امدادی گاجروں کا عادی ہو چکا تھا اب ایک ہراساں پالتو کی طرح جسے اچانک جنگل میں چھوڑ دیا جائے، اس سارے منظر نامے میں حیران کھڑا ہے۔

روس کو مصروف رکھنے کے لیے محاذ یورپ ہی میں کھل گیا۔ اب ہم سے کسی کو کوئی غرض نہیں۔ اب نہ کوئی تیل پر سبسڈی دے گا اور نہ ہی ڈالروں کی بوریاں آپ کی منتظر ہیں۔

کیک کھانے کے عادی اب بھوکے ننگے عوام سے پھر قربانی مانگ رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سر پر آقا کا ہاتھ نہ ہونے کے باعث، پائن ایپل کیک اور چاکلیٹ کیک کے شائق کے درمیان لڑائی ہو گئی۔ قربانی مانگنے والوں کے دو سرخیل کھڑے کر دیے گئے کہ جاؤ ان ننگوں کے تن سے لنگوٹی اور ہاتھ سے سوکھی روٹی چھین لاؤ، ہم اپنا اپنا کیک الگ الگ کھائیں گے۔

بھوکے عوام، ننگے عوام، جرعہ جرعہ جمع کیے اپنے اندوختوں سے نکال نکال کر بجلی، گیس اور پٹرول پر خرچ کر رہے ہیں۔ کیک کھانے والے سن سنتالیس کی طرح اپنی پرسکون گاڑیوں سے سارڈین مچھلی اور نمکین بسکٹ کھاتے ہوئے باہر دیکھ رہے ہیں۔ پلیٹ فارم پر کھڑا دین محمد ولد جمعہ خان آج بھی نیم ننگا، مریل، بھوکا کھڑا ہے۔

انقلاب کے مقدس لفظ کو پامال کرنے والے لوگ، مذہب کے عظیم جذبے کو فروخت کرنے والے لوگ، ملک سے محبت کے ولولے کو بیچ کھانے والے لوگ، سب ہی تو ان کیک کھانے والوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔

بھوکے عوام، ننگے عوام! ایک بار پھر آپ سے ملک کے نام پر، جمہوریت کے نام پر، آزادی کے نام پر، انقلاب کے نام پر قربانی مانگی جائے گی۔ اب کی بار یہ آپ کی روٹی اور پیاز بھی چھین کر لے جائیں گے۔

مگر ایسا ہے کہ بھوکے انسان جب وہ بہت زیادہ تعداد میں ہوں تو ان سے حذر کرنا چاہیے۔ یہ کبھی کبھار قربانیاں طلب کرنے والوں کی ہی ہڈیاں چبا ڈالتے ہیں۔

ذرا سوچیے اور اب ہماری فکر چھوڑ کر اپنی ہڈیوں کی فکر کیجیے۔ ہمارا نہیں، آپ کا برا وقت آنے والا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments