ترغیبی خطبہ – موٹیویشنل ٹاک


ہم لوگ خطبہ سننے کے عادی ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں اور اکثر ان خطبوں میں جذبات کو بھڑکانے، انا کو جگانے کے علاوہ ہوتا بھی کچھ نہیں اس لیے ان خطبوں سے سیکھنے کا عمل کب کا ختم ہو چکا ہے۔ اس میں قصور نہ صرف خطیب کا ہے بلکہ سننے والے کا ہے۔ لیکن دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ ہم نے کچھ سمجھنا / سمجھانا نہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے ویسے بھی ہم سب کو روایتی خطیب سے دور کر دیا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ جدید خطیب یعنی ترغیبی خطیب (Motivational Speaker) کی ایک کھیپ پیدا ہو گئی ہے جو آپ کو وقت بے وقت ترغیبی خطبہ دیتے رہتے ہیں۔ جب بھی ایک نسل نئی نسل سے تبدیل ہوتی ہے تو نئی نسل کے اندر اپنے بقایا جات چھوڑ کر جاتی ہے۔ اس لیے ترغیبی خطیب نے جذبات، انا اور مذہب روایتی خطیب سے حاصل کیا ہے۔ اس لیے ہر ترغیبی خطبہ کا پہلا لازمی جزو مذہب، جذبات اور انا ہوتی ہے۔ کیونکہ ترغیبی خطیب کے سامعین اور ناظرین زیادہ ہیں اس لیے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے روحانیت کا تڑکا شامل کیا جاتا ہے۔ روحانیت کا حصہ مولانا رومیؒ، علامہ اقبالؒ، اشفاق احمد اور واصف علی واصفؒ کے قصوں، کرداروں اور جملوں سے لیا جاتا ہے۔ کوئی بھی ترغیبی خطبہ ایسا نہیں ہے جس میں روحانیت کی روح نہ ڈالی جائے، عشق، پیار اور محبت کے معنی دوبارہ نہ سکھائے جائیں۔

جدید ترغیبی خطیب اپنے خطبہ میں سیلف ہیلپ کی کتابوں کی سمریاں اور حوالے بھی شامل کرنا نہیں بھولتے۔ اگر بات لیڈر شپ پر ہو رہی ہے تو جان میکسویل کا ذکر آنا ضروری ہو گا۔ اگر عادات پر بات ہو رہ ہے تو ڈینیل کنمین کا ذکر آتا ہے۔ اس طرح اگر عام بات ہو رہی ہے تو سات عادات (seven habbits) کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس طرح جدید ترغیبی خطیب نے کئی سیلف ہیلپ کی کتابوں کے نام یاد کر رکھے ہوئے ہیں جو بارہا ان کے خطبے میں آتے رہتے ہیں۔ لیکن ایک بات جو ترغیبی خطیب اور روایتی خطیب میں مشترک ہے دونوں کا کام اپنا حلوہ کھانے سے ہوتا ہے نہ کہ سمجھنے سمجھانے سے۔ اس لیے دونوں آپ کے جذبات کو بلند کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں سکھاتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments