میاں افتخار حسین، ایک کوہ گراں


صوبے کا گورنر بلاشبہ ایک بڑا عہدہ اور رتبہ ہے۔ یہ عہدہ صوبے میں وفاق کی علامت سمجھا جاتا ہے اور یوں اصولی طور پر گورنر ایک ایسا بندہ ہونا چاہیے جس کا اپنے صوبے کے عوام کے ساتھ گہرا ربط اور تعلق ہو۔ وہ تاریخ سے آشنا ہو اپنی ثقافت اور روایات سے جڑا ہوا ہو، اس کے دل میں اپنی زبان اور اس کے ادب کا احترام ہو۔ پاکستان میں کچھ عرصہ سے جس طرح کے لوگوں کو اس بڑے عہدے سے نوازا گیا ہے اس سے اس عہدے کی بے توقیری ہوئی ہے۔

میاں افتخار حسین کے گورنر پختونخوا کے لئے نامزدگی کی خبریں جب سے نئی حکومت آئی ہے، گردش میں ہیں۔ اس حوالے سے میاں صاحب کا نام آنے کے بعد اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کا بیان آیا جس کے مطابق انہوں نے حکومت کا حصہ بننے سے انکار کیا۔ یہ بیان حیران کن تھا۔ اسفندیار ولی خان نے حکومت کا حصہ بننے کے بجائے پارٹی رہنماؤں کو عوام کے ساتھ رابطے کرنے کی ہدایت دی۔ اس کی جو بھی توجیح اسفندیار ولی خان پیش کریں، پختونخوا میں عوام نے اس سے یہی تاثر لیا کہ اسفندیار خان ایک مڈل کلاس بندے کو اس کلیدی عہدے پر فائز ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ یہ پیشکش اگر ان کے فرزند یا حیدر ہوتی کے لئے ہوتی تو اسفندیار خان اس کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہ بنتے۔

ایک بات یہ بھی اور یہ میں کوئی جذبات میں آ کر نہیں لکھ رہا کہ میاں افتخار حسین کی بحیثیت گورنر تعیناتی اس عہدے کی عزت و تکریم کی بحالی میں معاون ہوگی۔ سنا ہے کہ میان افتخار حسین کو گورنر پختونخوا لگانے کا فیصلہ آصف علی زرداری کی خواہش پر ہوا۔ آصف علی زرداری صاحب اس کے لئے خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک عوامی بندے کا انتخاب کر کے ایک طرف سیاسی فہم و تدبر کا مظاہرہ کیا ہے تو دوسری جانب میاں افتخار حسین صاحب کی اس دھرتی کے لئے قربانیوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔ سیاسی لوگوں کا آخری اور واحد اثاثہ عوام ہی ہوتے ہیں۔ میاں افتخار حسین جیسے لوگوں کا اوپر آنا سیاست اور سیاستدانوں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔

یہ اب ایک کھلا راز ہے کہ اس ملک میں ایک منظم سازش کے ذریعے سیاستدانوں کی مٹی پلید کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں لیکن اے این پی کی پانچ سالہ حکومت میں تعلیم کے میدان میں جس بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام ہوئے، وہ پورے صوبے کے لئے سرمایہ افتخار ہونا چاہیے تھا لیکن منظم سازش کے ذریعے اے این پی کے حوالے سے عوام کے دل و دماغ میں ’ایزی لوڈ‘ کی ترکیب ڈالی گئی جسے گلی گلی عام کیا گیا۔ یوں وہ کام پیچھے کہیں پس منظر میں چلا گیا جو اس صوبے کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کی تربیت اور اٹھان میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔

میاں افتخار حسین سے میری تھوڑی بہت شناسائی ہے۔ ہمیشہ ان کے ساتھ نظریاتی اختلاف رہا ہے اور اس کے اظہار میں، میں کبھی تامل کا شکار نہیں ہوا۔ میاں صاحب نے ہمیشہ مجھے تحمل سے سنا۔ جب میاں صاحب کے اکلوتے بیٹے کو ظالموں نے تہہ تیغ کیا تو پورے پختونخوا میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ میاں راشد کو ہمارے گھر سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر اس وقت شہید کیا گیا جب وہ شام کو حسب معمول ریل کی پٹری کے ساتھ واک کر رہے تھے۔ گھات لگائے سفاک قاتل نے انہیں گولیاں مار کر شہید کر دیا اور بہ آسانی فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

میں گھر آیا تو میری ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے، میں اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر خاموشی سے لیٹ گیا۔ وہ میرے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی لیکن کوئی لفظ نہ ان کی زبان سے ادا ہوا اور نہ ہی مجھے کچھ بولنے کا یاراں تھا۔ کافی دیر بعد میں اٹھا اور کمرے میں جا کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ گیا۔ سامنے کا منظر ناقابل یقین تھا۔ کیا کوئی اتنا مضبوط اتنا ثابت قدم ہو سکتا ہے؟ اس دن میاں افتخار حسین مجھے خیبر کے پہاڑوں کے حقیقی بیٹے لگے۔

بیٹے کی لاش ابھی لحد میں اتری بھی نہیں تھی اور میاں صاحب بول اٹھے تھے، میاں صاحب کیا ایک کوہ گراں بول اٹھا تھا، ایسا کوہ گراں جسے سر کرنا اس کے دشمنوں کے بس میں نہیں۔ میاں صاحب اکثر کہتے ہیں ؛ ’امام حسین ان کے آئیڈیل ہیں۔ میرا بیٹا امام حسین کی راہ پر چلا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مجھے بھی جب موت آئے شہادت کی موت آئے ”

میاں راشد میاں افتخار حسین کے خاندان کے واحد نرینہ اولاد تھے۔ میاں راشد کی شہادت کے بعد میں نے دل میں تہیہ کیا کہ میاں صاحب کی عزت و تکریم میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا۔ یہ واحد سیاستدان ہیں جو کبھی کسی کی خوشی غمی میں نظر آ جائیں تو میں دور سے ان کے پاس پہنچ کر انہیں سلام کرتا ہوں۔ یہ کوئی ایسا عمل نہیں کہ جس کا میں خوامخواہ کریڈٹ لینے کی کوشش کروں لیکن سیاستدانوں کی قطار میں ایک میاں صاحب کو میرے دل نے یہ مقام دیا ہے کہ یہ بندہ کہیں بھی نظر آئے ان کا احترام مجھ پر دھرتی ماں کے احترام کی طرح فرض ہے۔

تحریر جذباتی ہو گئی ہے۔ آپ کو کچھ دن پہلے کا ایک واقعی سناؤں۔ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول میں میری بچیاں نہم جماعت کا امتحان دے رہی تھیں۔ میں ان کو لے کر گیا تو سکول کے دفتر میں وہاں کے عملے کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ ایک بندہ جو کہ اسی سکول سے ریٹائرڈ تھا، کہنے لگا کہ اس سکول میں 2008 میں صرف پانچ کمرے تھے۔ عمارت انتہائی بوسیدہ تھی۔ الیکشن کے سلسلے میں میاں صاحب ادھر آ نکلے تو دیکھا کہ سکول تک جانے کے لئے بچیاں بارش کے پانی میں سے گزر رہی تھیں۔

میاں صاحب نے اس پر افسوس کا اظہار کیا تو لوگ سمجھے کہ الیکشن کے دنوں میں سیاستدانوں کے دلوں میں عموماً ہمدردی کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ الیکشن ہوئے تو میاں صاحب کے حصے میں چند دن کے لئے تعلیم کی وزارت آئی۔ چارج سنبھالتے ہی اسی سکول پہنچے اور لڑکیوں کے لئے سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اداروں کی ضروریات کا جائزہ لینے کے لئے اجلاس طلب کیا۔ محکمہ تعلیم نے انہیں بارہ سیکنڈری اور پانچ ہائر سیکنڈری اداروں کی تعمیر کی درخواست اس سوچ کے ساتھ کی کہ ان میں دو تین ادارے بھی بن گئے تو بڑی بات ہے۔

میاں صاحب نے ادھر بیٹھے بیٹھے ہدایت کی کہ جس ہائی سکول میں ہم بیٹھے ہیں کرائے پر کوئی مکان حاصل کر کے بچیوں کو ادھر منتقل کیا جائے اور یہ عمارت گرا کر کر نئی عمارت جدید طرز پر کھڑی کی جائے۔ میاں صاحب کوئی ایک ماہ تک وزیر تعلیم رہے۔ وزارت اطلاعات میں جانے سے پہلے تمام کے تمام سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اداروں کی منظوری دی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ اپنے دور حکومت میں ان کی تکمیل ہو۔ اے این پی کی مدت پوری ہوئی تو نوشہرہ میں صرف ایک حلقے میں بچیوں کے لئے بارہ ہائی اور پانچ ہائر سیکنڈری سکولز تعمیر اور فعال ہو چکے تھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments