جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو : عربی سے طب تک قسط 4


کالج گراؤنڈ میں اجتماع سے سٹرائیک کا جو تصور میرے ذہن میں تھا، چکنا چور ہو رہا تھا۔ یہ تو سیاسی لیڈروں کی سی تقاریر ہو رہی تھیں۔ یعنی صرف زبانی کلامی کھوکھلے الفاظ کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں، کوئی ایکشن یا خون کو گرما دینے والی کارروائی نہیں ہو رہی تھی۔ شاید اس لیے کہ ہندوستان میرپور سے ذرا فاصلے پر واقع ہوا تھا۔ سکول کے بچوں نے اپنے قد اور نعروں کو بلند کرنے کے لیے خود رو پودوں کی نرم نرم شاخیں توڑ کر ہاتھوں میں لے لی تھیں۔

شعلہ بار تقاریر کے بعد ضلع کچہری میں جا کر ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں احتجاج ریکارڈ کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ بات اس وقت بھی میری سمجھ میں نہیں آئی تھی اور اب بہت برسوں بعد بھی میرے لیے ناقابل فہم ہے کہ میرپور کا ڈپٹی کمشنر ہندوستان کا نمائندہ کیونکر ہو سکتا تھا۔ کالج کے پیشہ ور لیڈر آگے آگے تھے، ان کے پیچھے سکول کے طلباء بھیڑ بکریوں کی مانند چل رہے تھے اور ان کے عقب میں کالج کے طلباء تھے۔ سکول کے بچے نعروں کا جواب ڈنڈے بلند کر کے دے رہے تھے۔

ان کے ڈنڈے اتنے دور مار تو نہیں تھے کہ ہندوستان کو اپنی زد میں لے لیتے البتہ ”حمید پہلوان ٹرانسپورٹ کمپنی“ کی بس جو کچہری کے بالکل سامنے سواریاں لینے کے لیے آرکی تھی ان کی زد میں آ گئی۔ ڈنڈے چونکہ سخت لکڑی کے نہیں تھے اس لیے بس کو ڈھول کی طرح پیٹنے سے زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔ کالج کے طلباء کے منع کرنے کے باوجود بچے اپنا غصہ بس کو چابک مار مار کر نکالتے رہے۔ حمید پہلوان جو خود ڈرائیوری کے فرائض انجام دے رہا تھا اور باہر کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا تھا، اچانک طیش میں آ گیا۔ اندر جا کر ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھا اور بس آگے سے گزرنے والے کالج کے طلباء پر چڑھا دی۔ تین چار طلباء بس کے نیچے آتے آتے بچے۔ کالج کے طلباء یہ کب برداشت کرنے والے تھے۔ زیادہ تر طلباء بس کے اطراف سے گزر کر کچہری کی طرف جا چکے تھے۔

میرپور شہر کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں پتھروں کی بہتات ہے۔ سیاستدان بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ یہاں نہ صرف یہ کہ ہر پتھر کے الٹانے پر نیچے سے ایک سیاستدان برآمد ہوتا ہے بلکہ ہر سیاستدان کے الٹانے سے اس کے نیچے سے پتھروں کا ڈھیر برآمد ہوتا ہے۔ میرپور کی سنگلاخ زمین میں نظریاتی سیاست پنپ نہیں سکتی۔ ذات برادری کی کھاد سے اگائی جانے والی سیاست کی فصل مفاداتی تو ہو سکتی ہے نظریاتی نہیں۔ پتھروں کی اس فراوانی میں یہاں کی مرغیاں بھی انڈوں پر نہیں بظاہر پتھروں پر بیٹھتی ہیں اور غالباً انہی پتھروں سے وہ چوزے بھی پیدا کر لیتی ہیں۔ سیاست کے چوزے البتہ باہر سے بھی درآمد کیے جاتے ہیں۔

حمید پہلوان کی حرکت پر طلباء اشتعال میں آ گئے اور انہوں نے بس پر بے تحاشا پتھراؤ شروع کر دیا۔ بس کے سارے شیشے ٹوٹ گئے اور کچھ مسافر بھی زخمی ہو گئے۔ میں بس سے بیس پچیس قدم کے فاصلے پر مبہوت کھڑا یہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔ سٹرائیک کے اس خوفناک پہلو سے میں ناآشنا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کالج کے طلباء کے ساتھ مل کر بس پر پتھر ماروں یا بس کی سواریوں کے حق میں واویلا کروں۔ اس منظر نے مجھے اس قدر حیرت زدہ اور پریشان کر دیا تھا کہ میرا جسم ایک ہی جگہ ساکت و جامد ہو کر رہ گیا۔ جیسے زمین نے اسے جکڑ لیا ہو۔ لڑکے تو بس پر پتھر مار کر دور بھاگ گئے تھے میں اکیلا ہی بس کے نزدیک ترین کھڑا رہ گیا تھا۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ میں حمید پہلوان، جواب بس سے باہر آ گیا تھا، سے جا کر بات کروں کہ وہ کس لیے بس کا نقصان اور سواریوں کو زخمی کروانے پر تلا ہوا ہے، وہ بس کو یہاں سے لے جائے کہ اس نے نیچے جھک کر پتھر اٹھایا، میرے سر کا نشانہ لیا اور تاک کر مجھے دے مارا۔ میں جو نیم بیداری کی حالت میں تھا، پتھر کو اپنی طرف آتے دیکھ کر مکمل طور پر بیدار ہو گیا اور اپنی جگہ سے پیچھے ہٹ گیا۔

پتھر مجھ تک نہ پہنچ سکا۔ میں جو ڈرائیور سے گفت و شنید کرنے کا خواہشمند تھا گڑبڑا گیا۔ اس سنگین سنگ باری میں بات چیت کی باری نہیں آ سکتی تھی۔ بات چیت تو ہندوستان کے نمائندے یعنی ڈپٹی کمشنر سے بھی نہ ہو سکی۔ طلباء بس کے شیشے توڑ کر اور دو چار سواریوں کو زخمی کر کے ہندوستان سے کشمیر میں روا رکھے گئے ظلم کا بدلہ لے چکے تھے اور اب کسی بات چیت کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔

چند ہفتے بھی گزرنے نہ پائے تھے کہ طلباء نے پھر سٹرائیک کر دی۔ اب طلباء سٹرائیک کے اس قدر مشتاق اور اس میں اتنے مشاق ہوچکے تھے کہ انہیں اس کے لیے کسی بہانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ کچھ دن تو نامعلوم وجوہات کی بناء پر ہڑتال رہی پھر جب پرنسپل نے کالج کے بی اے کے دو طلباء نصرت راجہ اور مسعود لون کو یونیورسٹی سے ہی معطل کروا دیا تو مسلسل ہڑتال کا معقول جواز پیدا ہو گیا۔

بولتے جو چند ہیں۔ سب یہ شر پسند ہیں

1968ء کے سال کا آغاز تھا، میں ابھی پہلے سال میں تھا۔ جن دو طلباء کو یونیورسٹی سے معطل کروا یا گیا تھا، ان کے حامی صبح کالج کھلنے سے پہلے کالج کی طرف آنے والے تمام راستوں پر کھڑے ہو جاتے اور طلباء کو روک کر اکٹھے کرتے۔ 9 بجے کے قریب ہر طرف سے سبھی گروپ نعرے لگاتے ہوئے آتے اور کالج میں آ کر آپس میں مل جاتے۔ ہم نانگی بس سٹاپ پر بس سے اتر کر پیدل کالج آیا کرتے تھے۔ ہمیں ہائی سکول (جہاں آج کل میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہے ) کے سامنے روک لیا جاتا۔

ایک دن خاصی تعداد میں لوگ جمع تھے کہ کالج کی طرف سے پرنسپل عبداللطیف انصاری آہستہ آہستہ چلتے ہماری طرف بڑھتے دکھائی دیے۔ سبھی لڑکے انہیں دیکھتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے۔ مجھے وہاں سے بھا گنا اچھا نہ لگا۔ میں وہیں کھڑا رہا۔ پرنسپل میرے پاس آئے مجھے بازو سے پکڑا اور کالج کے اندر لے گئے۔ انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ دوسرے دن بھی وہی ہوا۔ سب لوگ بھاگ گئے اور میں وہیں کھڑا رہا۔ کل کی طرح انہوں نے میرا بازو پکڑا اور کالج کی طرف چل دیے۔ آج انہوں نے مجھ سے کہا۔ آپ تو مجھے بہت اچھے طالب علم لگتے ہیں پھر آپ ان لوگوں کے پاس رک کیوں جاتے ہیں؟

یہ لوگ ہمیں روز یہاں روک لیتے ہیں۔ یہ ہمارے کالج کے طلباء ہیں اور مجھ سے سینیئر ہیں، اپنے دوستوں کی کالج سے معطلی پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ہم ان کے روکنے پر انکار کیسے کر سکتے ہیں؟

آپ دوسرے راستے سے کالج آ جایا کریں؟
سبھی راستوں پر ان کے ساتھی کھڑے ہوتے ہیں۔
یہ شر پسند لوگ ہیں، آپ ان سے دور رہیں۔

میں کوئی سٹوڈنٹس لیڈر نہیں تھا نہ مجھ میں اتنی ہمت یا خود اعتمادی تھی کہ انہیں کہتا کہ سر! یہ لوگ شر پسند نہیں۔ صرف انصاف چاہتے ہیں، جن لڑکوں کو آپ نے کالج سے معطل کروایا ہے انہیں بحال کر دیں، سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن میں خاموش رہا۔

پرنسپل کے اس انتہائی انضباطی اقدام کے حق میں خواہ کوئی بھی جواز پیش کیا جائے، تاہم یہ تادیبی کارروائی ان طلباء کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف تھی۔ ان دو میں سے ایک طالب علم کے ساتھ غالباً ہوا بھی ایسے ہی۔ چنانچہ بجا طور پر اسے غیر دانشمندانہ فیصلہ اور ذاتی انتقامی کارروائی سمجھا گیا۔ اگرچہ دو تین ہفتے تک کالج پر ہڑتال کے بادل چھائے رہے مگر پرنسپل اپنا فیصلہ بدلنے پر راضی نہ ہوئے اور وقت گزرنے کے ساتھ کالج آہستہ آہستہ اپنے معمول پر واپس آ گیا۔

کچھ عرصہ بعد پرنسپل کا میرپور سے تبادلہ کر دیا گیا اور اس طرح سات آٹھ ماہ امن سے گزر گئے۔ نومبر1968ء میں پولی ٹیکنیک کالج، راولپنڈی پولیس کے ہاتھوں ایک طالب علم کی ہلاکت کے بعد ہڑتالوں کا سیزن لگ گیا۔ اب ہڑتال کرنے کے لیے کالج کا طالب علم ہونا بھی ضروری نہیں رہا تھا۔ طالب علم ہونے کی پابندی ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست میں آ کر ختم کروا دی تھی اور یہی کچھ عرصہ بعد خود ان کے اپنے زوال کا سبب بن گئی۔ پاکستان کے طلباء تو ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں میں کھیل کر ایوب خان کو اقتدار سے ہٹانے کا راست یا غلط اقدام کر رہے تھے لیکن آزاد کشمیر کے طلباء نہ جانے کس خوش فہمی میں اس بھیڑ چال کا حصہ بن گئے تھے۔

ہم نے پتھر مار مار کر اپنے ہی کالج کے کئی بار شیشے توڑے۔ ہائی سکول کا تو کوئی ایک بھی شیشہ سلامت نہیں چھوڑا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مسمریزم نے ہمیں تعلیم سے بیگانہ کر دیا تھا اور ہم دن رات، چھ ماہ تک، نامعلوم وجوہات کی بناء پر گلا پھاڑ پھاڑ کر ایوب، موسیٰ اور یحییٰ کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔ یہ وقت کا ضیاع تھا، جس کا ادراک کچھ عرصہ بعد جا کر ہوا۔ گزرا ہوا وقت کبھی واپس نہیں آتا اور نہ ہی اس کی کسی طرح تلافی ہو سکتی ہے۔

یہ بات آج کے طالب علم کو ذہن میں رکھنی چاہیے۔ ایوب خان نے کشمیریوں کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کیا تھا۔ چند سال قبل کی وہ بات جب کے ایچ خورشید ( مرحوم) کو فرمانروائے آزاد جموں کشمیر ( چیف سیکرٹری ) سے شہزادہ کوٹھی میں جا کر ملنے سے انکار اور شیخ عبداللہ سے کشمیری زبان میں بات کرنے کی وجہ سے صدارت سے علیحدہ کر دیا گیا تھا، پرانی ہو گئی تھی اور کشمیریوں کے ذہن سے محو ہو گئی تھی۔ میرے سمیت کشمیری طلباء کا معصوم ذہن یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کہ پاکستان کے ایوان اقتدار میں خواہ کوئی بھی تبدیلی آئے ان کی قسمت میں سردار عبدالقیوم خان محض اس لیے لکھ دیے گئے تھے کہ نیم خواندہ اور تابع مہمل ہونے کے ساتھ انہیں کشمیری زبان بھی نہیں آتی تھی۔

پاپوش جاناں

ایک دن کالج کے لان میں مجھے اکیلے بیٹھا دیکھ کر منگلا کے ایک صاحب میرے پاس آئے۔ یہ منگلا سکول سے مجھے جانتے تھے اور اب یہاں تھرڈ ائر میں تھے۔ انہوں نے بڑی رازداری سے کہا: جمیل کیا تم میرا ایک کام کرو گے؟ میں شش و پنج میں مبتلا ہو گیا کہ انہیں مجھ سے کیا کام پڑ گیا ہے جو مجھ سے اس طرح پوچھ رہے ہیں۔ میں نے کہا پہلے یہ تو بتائیں کام کیا ہے۔

دراصل کام کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ تمہارے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔
لیکن پتہ تو چلے کہ مجھے کرنا کیا ہے؟
مجھے تمہاری کلاس کی ایک لڑکی سے محبت ہو گئی ہے؟
کون سی لڑکی سے؟
وہ جو پری میڈیکل گروپ میں تمہارے ساتھ ہے۔
اگر ایسا ہے تو آپ اس سے بات کریں یا اپنے ماں باپ کو اس کے گھر بھیجیں۔
نہیں بھئی میں یہ نہیں کر سکتا۔
تو پھر صبر کریں اور اس کا خیال دل سے نکال دیں۔

مجھ سے یہ بھی نہیں ہو سکتا۔ میں بہت پریشان ہوں۔ مجھے اپنی زندگی بے معنی سی لگنے لگی ہے۔ پڑھائی میں اب میرا جی نہیں لگتا۔ تم میری مدد کرو۔

وہ کیسے؟

تم میرا یہ خط اس تک پہنچا دو ۔ انہوں نے خط اپنی جیب سے نکال کر میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ مجھے ایسے لگا جیسے چیونٹی پر نکلنے سے پہلے اور ہوا کی سمت اور شدت کا اندازہ کیے بغیر بہت اونچی اڑان بھرنے پہ آ گئی ہے۔

دیکھیں بھائی وہ میری ہم جماعت ضرور ہے لیکن میری اس کے ساتھ کوئی علیک سلیک نہیں۔ میں نے آج تک اس سے بات نہیں کی، کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اگر اس سے میری بات چیت ہوتی بھی تب بھی میں یہ کام نہ کرتا۔ ذرا یہ تو سوچیں کہ جب آپ کا خط میں اسے تھماؤں گا تو وہ مجھے زنخا نہیں سمجھے گی کیا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت خوب صورت لڑکی ہے۔ میں اگرچہ اپنے آپ کو یوسف ثانی نہیں سمجھتا لیکن کوئی ایسا گیا گزرا بھی نہیں۔ یہ کام آپ خود کریں۔ اگر آپ سے یہ نہیں ہو سکتا تو اس کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔

کیا تم یہ خط اس کی کتابوں میں نہیں رکھ سکتے؟
نہیں۔
جمیل مجھے تم سے بڑی امید تھی۔ میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکوں گا۔
اور اسے آپ کا خط دے کر شاید میں زندہ نہ رہ سکوں۔

وہ کیوں؟

”المدد پاپوش جاناں سر تیرا کھجلائے ہے“ بھئی یہ عشق کی کھجلی تو آپ کے سر میں ہو رہی ہے اور پاپوش جاناں کے لئے سر آپ میرا پیش کر رہے ہیں، بھلا کیوں؟ کیا آپ کو پتہ نہیں کہ اس کا پہلوان نما بڑا بھائی اسی کالج میں بی اے کے دوسرے سال میں ہے اور اس کا حلقہ احباب بھی خاصا وسیع ہے۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ان کو مار دھاڑ میں خصوصی مہارت حاصل ہے۔

لیکن عشق کا سودا جب سر میں سما جائے تو ذرا مشکل سے نکلتا ہے۔ وہ پھر بھی باز نہ آئے اور کچھ کر بیٹھے جس کے نتیجے میں، میرے کشف کے مطابق،

ان کے سر کے بال پہلے سے ذرا کم ہو گئے تھے۔
جاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments