قوت سماعت سے محروم بلوچستان کی ڈاکٹر مہوش شریف: ’امتحان میں مجھے کہا جاتا کہ میں آلہ سماعت کی آڑ میں نقل کر رہی ہوں‘

محمد زبیر خان - صحافی


’معذوری کی وجہ سے ہم بہن بھائیوں نے طعنے اور طنز ہی برداشت نہیں کیے بلکہ بہتر مستقبل کی دوڑ میں رکاوٹیں بھی آتی رہیں اور ابھی تک آ رہی ہیں۔ مجھے کہا گیا کہ میں ڈاکٹر بن ہی نہیں سکتی اور جب ڈاکٹر بن گئی تو کہا گیا کہ پریکٹس نہیں کر سکتی۔ پریکٹس کر رہی ہوں تو اب سپیشلائزیشن کی راہ میں رکاوٹیں ہیں مگر اس سب کے باوجود اب میں پریکٹس کر کے دکھی انسانیت کی خدمت کر رہی ہوں اور یہ ہی میری زندگی کا مشن اور مقصد ہے۔‘

یہ کہنا ہے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ’فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال‘ میں خدمات سر انجام دینے والی ڈاکٹر مہوش شریف کا، جو 80 فیصد سے زائد بہرے پن کا شکار ہیں اور سننے کے لیے آلہ سماعت کا استعمال کرتی ہیں۔

ڈاکٹر مہوش شریف کے تین بھائی ہیں اور وہ تینوں سے چھوٹی ہیں۔ ان کے دو بڑے بھائی بھی بہرے پن کا شکار ہیں۔ قوت سماعت سے محروم میں ان کے ایک بڑے بھائی یاسر شریف کمپیوٹر آپریٹر جبکہ سب سے بڑے بھائی ناصر شریف سکول کے بچوں کے لیے وین سروس چلاتے ہیں۔ ان کے ایک بھائی پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔

ڈاکٹر مہوش شریف کی ڈاکٹر بننے کی کہانی انتہائی جرات اور حوصلے کی کہانی ہے، جس میں ان کا اپنا کردار تو شامل ہے ہی مگر ان کے والدین بالخصوص ایک روایتی گھرانے کی بلوچ والدہ اور بھائیوں کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر مجھے میرے بھائی، والدین خاص کر والدہ حوصلہ نہ دیتے تو شاید میں پڑھ بھی نہ سکتی۔ میں اپنی والدہ جیسی بہادر بننا چاہتی ہوں۔‘

ڈاکٹر مہوش شریف کہتی ہیں کہ انھیں اپنے چچا کو دیکھ کر ڈاکٹر بننے کا شوق ہوا۔

’مجھے سفید گاؤن اور اسٹھتیا سکوپ اچھے لگتے تھے۔ ان کو دیکھ کر میں نے بھی ڈاکٹر بننے کی ٹھان لی۔ جس کے لیے دن رات محنت کی اور سکول اور کالج میں میٹرک اور ایف ایس سی میں ٹاپ کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انھیں سکول اور ایف ایس سی کے دوران زیادہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ میڈیکل کالج اور پریکٹس کے دوران مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

’مجھے بار بار یاد دلایا جاتا کہ میں سن نہیں سکتی ہوں‘

ڈاکٹر مہوش شریف کہتی ہیں کہ بولان میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے سپیشل طالب علموں کے لیے خصوصی کوٹہ تھا۔

’میں نے اس پر اور میرٹ والی دونوں سیٹوں پر اپلائی کیا اور میں میرٹ پر منتخب ہو گئی۔ جس پر میں نے سپیشل طالب علموں کے لیے خصوصی کوٹے والی سیٹ چھوڑ دی تھی۔‘

’میرٹ پر داخلہ لے کر اتنی خوش تھی کہ بتا نہیں سکتی ہوں۔ مجھے اس وقت لگا کہ اب میں بھی سفید گاؤن پہن کر لوگوں کی خدمت کر سکوں گی مگر جب میڈیکل کالج میں کلاسسز شروع ہوئیں تو میرے خواب ڈراونے خواب میں تبدیل ہوگے تھے۔ مجھے بار بار یاد دلایا جاتا کہ میں سن نہیں سکتی ہوں۔‘

ڈاکٹر مہوش شریف کہتی ہیں کہ ’میں پروفیسروں سے کہتی کہ سر تھوڑا اونچا بولیں یا مجھے آگے بیٹھا دیں۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ میں ان کے لیکچر کو اچھے سے سن کر سمجھ سکوں مگر وہ کہتے تھے کہ میں اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر مہوش ڈیس ایبل لگا دوں، جس پر مجھے بہت اذیت ہوتی۔‘

’میرے ساتھ زیادہ لوگوں نے تعاون نہیں کیا لیکن کچھ پروفسیرز مجھے بعد میں وقت دے کر لیکچر دیا کرتے تھے۔ جن کی بدولت ہی میں ڈاکٹر بننے میں کامیاب ہوئی۔ مجھے تو اپنے ساتھی طالب علموں کی جانب سے بھی مسائل کا سامنا رہا۔ یہاں تک کہ ساتھی طالب علموں کے ایک گروپ ڈسکیشن کے دوران جب میں نے کہا کہ تھوڑا اونچا بولیں تو مجھے کہا گیا کہ میں دوسرے گروپ میں جا سکتی ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ فائنل ایئر میں میڈیکل کے طالب علم ہسپتال کے وارڈز میں جا کر سیکھتے ہیں۔

’شروع میں مجھے مریضوں سے بات کرنے میں بھی مشکلات ہوتی تھیں۔ پھر میں نے خود ہی ایڈجسٹ کر لیا۔ جب ڈاکٹر وارڈ کا دورہ کرتے اور میں ان کو مریضوں کی ہسٹری بتاتی تو وہ مجھے کہتے کہ آپ کو تو سننے میں مسائل کا سامنا ہے، پھر کیسے کر لیا؟‘

ڈاکٹر مہوش شریف کہتی ہیں کہ میں نے میڈیکل کالج میں سیٹ میرٹ پر لی تھی اور میں وہ سب کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں جو نارمل بندہ کر سکتا ہے۔

’لیکن مجھے کہا جاتا کہ میڈیکل کا پیشہ میرے لیے نہیں۔ میں کیوں یہاں پڑھ رہی ہوں۔ مجھے کہیں اور جانا چاہیے۔ میں کہتی تھی کہ میں کہیں اور نہیں جاؤں گی بلکہ ڈاکٹر ہی بن کر دکھاؤں گی۔ یہ ہی نہیں بلکہ امتحانات میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔‘

’امتحان میں مجھے کہا جاتا کہ میں آلہ سماعت کی آڑ میں نقل کر رہی ہوں‘

ڈاکٹر مہوش شریف کہتی ہیں کہ میڈیکل کالج میں کلاسسز کسی نہ کسی طرح چل رہی تھیں لیکن دوسرے طالب علموں کی نسبت انھیں زیادہ محنت کرنا پڑتی تھی۔

’ہر امتحان سے پہلے مجھے اپنے کانوں میں آلہ سماعت استعمال کرنے کے لیے خصوصی اجازت لینا پڑتی تھی۔ امتحان کے دوران مجھے کہا جاتا کہ میں آلہ سماعت کی آڑ میں نقل کر رہی ہوں۔ بار بار کانوں کے قریب ہو کر دیکھا جاتا کہ مجھے کوئی آواز تو نہیں آرہی۔‘

’فائنل ایئر کے امتحان میں، میں نے خصوصی لیٹر لیا تھا۔ فائنل ایئر کے انٹرویو کے دوران سرجری کا انٹرویو تھا۔ جب میں نے پروفیسرز کو خصوصی لیڑ دیا تو کہنے لگے کہ اس کی کیا ضرورت ہے۔ اگر آپ سن نہیں سکتیں تو یہ پیشہ آپ کے لیے نہیں۔ میں نے وضاحت کی کہ اس آلہ سماعت کی بدولت سن لیتی ہوں۔‘

’انھوں نے مجھے کہا کہ آپ اچھے سے سن سکتی ہیں۔ میں فراڈ کر رہی ہوں اور یہ لیڑ غلط طور پر بنوایا گیا ہے۔ ہم اس کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ میرا انٹرویو بہت ہی اچھا ہوا۔ سب سوالات کے جوابات مجھے آتے تھے مگر پھر بھی مجھے سرجری میں فیل کر دیا گیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

’میڈل اور ٹرافی لیتے وقت لوگوں کی تالیاں سنائی نہیں دیتیں لیکن محسوس کرتی ہوں‘

’معذور افراد کو گناہوں کی سزا سمجھ کر گھروں میں عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے‘

تاریخ کی ’پہلی خاتون ڈاکٹر‘ جن کے میڈیکل کالج میں داخلے کے خلاف مردوں نے متفقہ ووٹ دیا

’والدہ نے حوصلہ بڑھایا کہ یہ لڑائی تو ساری زندگی لڑنی ہے‘

مہوش کے بھائی شاکر شریف ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ان کی بہن سرجری کے پرچے کا انٹرویو دے کر آئیں تو ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور فوراً ہی اپنے کمرے میں جا کر بند ہو گئیں تھی لیکن یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا بلکہ میڈیکل کی تعلیم کے دوران بار بار وہ اس صدمے اور غم سے گزریں۔

شاکر شریف ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ہم سب سمجھ گئے کہ پھر کسی نے جانے انجانے میں مہوش کو کچھ کہہ دیا ہے۔

’جب میری والدہ نے مہوش سے سرجری کے انٹرویو کا پوچھا تو وہ سارا واقعہ بتا کر زاروقطار روتی جا رہی تھی اور کہتی جارہی تھی کہ اب وہ امتحان نہیں دیں گی۔ اس موقع پر امی نے ان کو سنبھالا۔‘

شاکر شریف کہتے ہیں کہ ان کی والدہ نے مہوش کا حوصلہ بڑھایا اور کہا کہ یہ لڑائی تو ساری زندگی لڑنی ہے۔

’اس کے بعد مہوش نے نہ صرف سرجری میں فیل ہونے کو قبول کر لیا بلکہ دوبارہ تیاری کر کے امتحان دیا اور پاس بھی ہو گئیں۔‘

شاکر شریف ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ صرف مہوش ہی کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے بھائیوں یاسر اور ناصر کے ساتھ بھی اکثر ایسا ہوتا۔

’ابو تو ملازمت کے سلسلے میں گھر ہوتے نہیں تھے تو امی ہی ہم سب کو سنبھالتی تھیں۔ میری امی گریجویٹ ہیں اور انھوں نے اس وقت تعلیم حاصل کی، جب بلوچ معاشرے میں خواتین کی تعلیم کا تصور بھی موجود نہیں تھا۔‘

شاکر شریف ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ان کی والدہ نے اپنے تینوں خصوصی بچوں کے مستقبل کے لیے اپنی معمول کی زندگی، رشتہ داروں سے ملنا اور نانا کے گھر تک جانا سب کچھ ترک کر دیا تھا۔

مہوش شریف کے والد محمد شریف ناز بلوچستان کے محکمہ کمیونیکشن اینڈ ورکس سے سپرینڈنٹ انجینئیر ریٹائرڈ ہیں۔ وہ بلڈ کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں اور اس وقت کراچی میں زیر علاج ہیں۔

شاکر شریف ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ جب پتا چلا کہ ہمارے والد کو بلڈ کینسر ہے تو میں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا۔

’اس موقع پر بھی یہ ہماری امی ہی تھیں، جنھوں نے مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو حوصلہ دیا۔ آج میرے والد پہلے سے بہتر ہیں تو یہ بھی میری والدہ کی ہمت کا نتیجہ ہے۔‘

’آلہ سماعت اتروا دیا جاتا ہے‘

ڈاکٹر مہوش شریف کہتی ہیں کہ آلہ سماعت ان کی زندگی کا اہم حصہ ہے اور اس کے بغیر وہ اور ان کے بھائی ادھورے ہو جاتے ہیں۔

’میں آگے پڑھنا اور سپیشلائزیشن کرنا چاہتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ریڈیالوجی کا شعبہ میرے لیے بہت اچھا رہے گا۔ میں نے سپیشلائزیشن کے لیے دو بار امتحان دیا۔ دونوں مرتبہ امتحانی عملے کو لگا کہ لگا کہ مجھے آلہ سماعت کی ضرورت نہیں۔ میرا آلہ سماعت اتروا دیا گیا اور آلہ سماعت اترنے کے بعد میں پرچہ دینے کے قابل نہیں رہی۔‘

محکمہ صحت بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر انور قاضی کہتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے کالج آف فزیشن اینڈ سرجن سے بات کریں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آلہ سماعت اور ہینڈ سیٹ فری میں فرق ہوتا ہے۔ امید ہے کہ اس کا بہتر حل تلاش کر لیا جائے گا۔‘

ڈاکٹر انور قاضی کہتے ہیں کہ ’ڈاکٹر مہوش شریف ایک رول ماڈل ہیں۔ ایم بی بی ایس میں داخلہ لینا اور پاس کرنا کوئی آسان نہیں۔ انھوں نے جس ہمت، حوصلے اور جرات سے یہ منزل طے کی، وہ قابل ستائش ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’موجودہ ملازمت بھی انھوں نے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے حاصل کی۔ اس وقت وہ پریکٹس میں بھی شاندار کارگردی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ دنیا بھر میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں مختلف سپیشل لوگوں نے میڈیکل میں شاندار خدمات انجام دی ہیں اور اب امید ہے کہ پاکستان میں بھی یہ سلسلہ شرو ع ہو گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32542 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments