مائیکروفکشن


رات کے پچھلے پہر میں یک لخت آسمان پر روشنی کے گولوں کو آنکھ جھپکے بغیر، دیکھتی ہی جا رہی تھی۔ میرے چاروں اطراف ہو کا عالم تھا بلکہ یوں کہوں کہ ایک عالم لاہوت تھا تو بے جا نہ ہو گا، مگر میرے اندر تو ایک شور بپا تھا ایسے جیسے کسی سمندر میں سونامی آیا ہو، ایسے جیسے ٹھاٹھیں مارتی لہریں ساحل سمندر سے ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں آ کر ٹکراتی ہوں، جیسے ہر طرف بس درد کی چنگاریاں ہی پھوٹ رہی ہوں۔

میرے ہاتھ قلم و قرطاس کی طرف بڑھنے لگے
ہزاروں سسکیاں، آہیں تحریر کرنے کی خواہش میرے باطن میں انگڑائیاں لینے لگیں
یوں لگا جیسے اگر کچھ تخلیق نہ کیا تو میرا وجود، رات کے اس پہر گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کہیں کھو جائے گا
میں نے قرطاس پر ابھی قلم چلانا شروع ہی کیا کہ میں دنگ رہ گئی۔

میں ایک نوحہ لکھنا چاہتی تھی۔ ان آنکھوں کا نوحہ کہ جن میں سے دھنک رنگ خواب نچوڑ کر ان کو ظالم سماج کی چیرہ دستیوں کی تار پر سکھانے کے لیے ڈال دیا گیا ہو، اس چاند سے روشن گول چہرے کا نوحہ بھی مجھے لکھنا تھا، کہ جس کو ایک بھولی بھالی دوشیزہ عرق گلاب سے دھوتی تھی پھر اسے کسی درندے کے ساتھ بیاہ دیا گیا، اب اس چہرے پر آبلے رستے ہیں، مگر شبنمی پھاہا رکھنے والا کوئی نہیں۔ مجھے اس سر کا نوحہ بھی لکھنا تھا، جس کو اس کے تن سے جدا کر کے پاؤں سے ٹھوکریں مار مار کر فٹ بال بنا کر کھیلا گیا۔

مجھے اس ایک آزاد منش پرندے کا نوحہ کا لکھنا تھا، جو ہر وقت رسم و رواج کے بنائے پنجرے میں قلابازیاں لگاتا ہے۔ میں اس کمسن لڑکی کا نوحہ بھی لکھنا چاہتی تھی جس نے سسرال کے مظالم سے تنگ آ کر خود کو سمندر کی لہروں کے سپرد کر کے آزاد محسوس کیا۔ میں اس پگلی کا نوحہ بھی لکھنا چاہتی تھی جو محبوب کی رس بھری میٹھی باتوں میں آ گئی پھر اس کے ٹکڑے کسی ندی کنارے ایک بوسیدہ سی بوری میں بند ملے۔ مجھے اس نو بیاہتا کا نوحہ بھی لکھنا تھا، جس پر اچانک گھر کا چولہا پھٹ گیا۔ مجھے ان مسخ شدہ نقوش کا نوحہ بھی لکھنا تھا کہ جو ہر روز جھلسے چہروں سے اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہیں۔

مجھے جھریوں زدہ، نحیف و ناتواں، کپکپاتے بدن کا نوحہ بھی لکھنا تھا، جو جھگی میں ایک بوسیدہ سی چارپائی پر اپنے آخری ایام گزار رہا تھا، شوہر کی مار سے جس کی ہڈیاں آج بھی دکھ رہی تھیں، جس کو نشئی بیٹے کی طرف سے ہر روز دھتکارا جاتا تھا۔ مجھے اس تتلی کا نوحہ بھی لکھنا تھا، جس کے ابھی چند لمحے پہلے ہی پر نکلے تھے شوخ رنگ پر، کہ جن کو دیکھ کر زندگی سے پیار ہو جاتا، ابھی اس نے اڑان بھرنے کے لیے اپنے پر جھاڑے ہی تھے کہ ایک خونخوار عقاب نے اسے دبوچ لیا اس کے پر اور پروں پر لگے سارے رنگ زمین پر گرے درد کا استعارہ بن گئے۔ مجھے اس سات دن کے پھول کا نوحہ بھی لکھنا تھا جس کو اس کے سگے باپ نے پانچ گولیاں مار کر لہولہان کر دیا تھا۔

اور ان حسرت بھری نظروں کا نوحہ تو مجھے ضرور لکھنا تھا جو اپنے کمرے کی کھڑکی کھول کر سکول جاتی اپنی ہم عمر لڑکیوں کا دور تک تعاقب کرتی تھیں۔ میں نے ابھی قرطاس پر قلم چلانا شروع ہی کیا کہ میں دنگ رہ گئی۔ کیوں کہ وہ رونے لگا تھا اتنا رویا کہ اس کی ہچکی بند گئی پھر کچھ لمحوں بعد مجھے سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔

” تم کیوں مجھ پر یہ درد بکھیرنا چاہتی ہو جبکہ ایسے ہزار ہا نوحے، آہیں، کراہیں، سسکیاں، درد، آنسو صدیوں سے مجھ پر بکھرے بین کر رہے ہیں۔ ایسے نوحے مزید لکھنے سے بہتر ہے ان کو مار ڈالو، ختم کر ڈالو۔ اٹھو اور مٹا ڈالو ہر وہ ظلم، تشدد، سفاکیت، درندگی جس نے ایک عورت کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے۔ جاؤ اور زندگیاں گلزار بنانے کی سعی کرو۔“

خنسا سعید
Latest posts by خنسا سعید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments