عربی سے طب تک (5)


خواجہ اسلم میرا ہم جماعت تھا۔ نکلتے ہوئے قد آور نکھرے ہوئے چہرے کے ساتھ سمارٹ نوجوان تھا۔ شکل و شباہت سے زیادہ اس کی شخصیت بڑی متوازن اور پرکشش تھی۔ اس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ طاری رہتی تھی۔ ہمارے درمیان بے تکلفی ہی نہیں راز داری بھی تھی۔

ایک دن مجھے کہنے لگا:میرا کیا بنے گا، مجھے ایسے لگتا ہے کہ میرا سب کچھ ڈوب رہا ہے؟

میں نے کہا: ہاں ڈیم میں پانی بھرنا شروع ہو گیا ہے۔ گاؤں، کھیت، کھلیان، میدان، قبرستان اور ان سے وابستہ ہمارے ماضی کی یادیں، بلکہ سب کچھ ڈوب رہا ہے۔ انسان کا مٹی سے رشتہ بھی عجیب ہے۔ میں بھی بس پر میرپور آتے جاتے اپنے پرانے گاؤں کے پاس سے گزرتے ہوئے جب اس کے کھنڈر دیکھتا ہوں تو مجھے بھی کچھ ہونے لگتا ہے۔

میری نبضیں ڈوب رہی ہیں، میرا دل ڈب جھلکے کھا رہا رہا ہے، میری جان پہ بنی ہے اور تمہیں ڈیم کی پڑی ہے۔

کیوں خیریت تو ہے؟
خیریت نہیں، اسی لئے تو تم سے بات کر رہا ہوں؟
کیوں کیا ہوا؟
میں اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے ساتھ بیالوجی گروپ میں ہے۔
تو کر لو ناشادی اس سے۔
لیکن کیسے؟

تمہیں یاد ہے پروفیسر مولوی محمد مرتضیٰ نے قرآن پاک کا درس دیتے ہوئے ایک بار کہا تھا ’اگر کوئی جوان آدمی کسی جوان عورت کو یہ کہے کہ تم میری بیوی ہو اور وہ آگے سے خاموش رہے اور وہاں دو یا دو سے زیادہ عاقل و بالغ اشخاص موجود ہوں تو یہ نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔ ہم سبھی عاقل و بالغ ہیں۔

ہاں مجھے یاد ہے لیکن میرے اس طرح کرنے سے نکاح تو شاید منعقد نہیں ہو گا البتہ تقریب رو سیاہی ضرور منعقد ہو سکتی ہے بلکہ اور بھی بہت کچھ منعقد بلکہ وارد ہو سکتا ہے۔

تو پھر شرفا والا سیدھا طریقہ اختیار کرو۔

تم میری مدد کیوں نہیں کرتے؟ تم نے خود ہی تو بتایا تھا کہ وہ تمہارے دور کے عزیزوں کی رشتہ دار ہے اور ایک باران کے گھر گئی تھی۔

ہاں ایسے ہی ہے۔
تم اپنے عزیزوں سے بات کرو کہ وہ میرے رشتے کی بات چلائیں۔

اگر ایسا ہو سکتا تو کیا میں اپنے رشتے کی بات نہ چلاتا؟ دیکھو اسلم! ہمارے ذمے اس وقت جو کام ہے وہ ہے پڑھائی۔ ہمیں اس وقت اس طرح کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہیے۔ تمہیں ابھی سے شادی کی فکر کیوں کھائے جا رہی ہے۔ ہمارے ماں باپ ہیں نا ایسے معاملات طے کرنے کے لئے۔

اسلم اس کے بعد خاموش ہو گیا اور اس نے پھر میرے ساتھ کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی۔ اسلم نے میر پور سے ہی بی ایس سی کی اور پنجاب یونیورسٹی میں باٹنی میں ایم ایس سی کرنے جا داخل ہوا۔ دو سال بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم ایس سی علم نباتات کے ساتھ رفیقہ حیات بھی لے آیا۔ آزاد کشمیر کے محکمہ تعلیم میں بھرتی ہوا۔ برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی اور مظفر آباد یونیورسٹی میں پروفیسر اور شعبہ باٹنی کا سربراہ بن گیا۔ نومبر 1992ء میں میرا تعین کیپیٹل ہسپتال اسلام آباد میں بحیثیت کنسلٹنٹ سرجن اور سربراہ شعبہ سرجری ہوا۔

1993ء میں اسلم سے اسلام آباد میں ملاقات ہوئی۔ اس نے نیم متشرع سی داڑھی بڑھا لی تھی اور اب وہ تبلیغی جماعت والوں کی طرح باتیں کرنے لگا

تھا۔ میرے اسلام آباد میں تعین پر میرے چال چلن کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے اور ان کی تصدیق کا مسئلہ درپیش تھا۔ مظفر آباد میں کوئی ڈی ایس پی صاحب میری فائل پرنچنت بیٹھ گئے تھے۔ میں نے اسلم کو فون کیا تو کہنے لگا اس ڈی ایس پی کو میں جانتا ہوں، میں اس سے بات کروں گا۔ ایک ہفتے کے اندر ہی وہ فائل اسلام آباد پہنچ آئی تھی۔

اکتوبر 2005ء میں زلزلہ آیا۔ بالا کوٹ، مظفر آباد، راولا کوٹ اور باغ کے اضلاع اس کی زد میں تھے۔ میں برطانیہ سے نومبر کے آخری ہفتے میں کچھ رقم لے کر زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے پاکستان گیا تھا۔ دوسرے دن میں میرپور کے ایک بنک میں ڈرافٹ جمع کروانے قطار میں کھڑا تھا کہ پروفیسر مشتاق سلیم جو ہمارے فزکس کے استاد رہ چکے تھے اور مینیجر کے پاس بیٹھے تھے مجھے پہچان کر میرے پاس آئے اور کہا : ڈاکٹر صاحب آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟

یہ ڈرافٹ جمع کروانا ہے، میں نے کہا۔

آپ آئیں میرے ساتھ ڈرافٹ جمع ہو جائے گا۔ وہ مجھے مینیجر کے پاس لے گئے۔ وہاں زلزلے کے بارے میں بات شروع ہوئی تو اچانک مجھے خواجہ اسلم کا خیال آیا۔ میں نے کہا خواجہ اسلم بھی مظفر آباد میں تھا، اس کی خیر خیریت کے بارے میں کوئی اطلاع یا خبر؟ پروفیسر صاحب میرے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔ فرمایا، کیا آپ کو علم نہیں کہ وہ اپنے مکان کے ملبے میں دب کر شہید ہو چکا ہے؟ جب زلزلہ آیا تو سحری کے وقت وہ قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔

اس کی اہلیہ نے اسے باہر نکلنے کا کہا اور خود بچی کو لے کر باہر بھاگ گئیں اور وہ قرآن شریف کو غلاف میں ہی لپیٹتا رہ گیا اور مکان کی چھت اس کے اوپر گر پڑی۔ اس کے جسد خاکی کو دوسرے دن کرین کی مدد سے ملبے سے نکالا گیا۔ پروفیسر صاحب یہ واقعہ بیان کر رہے تھے اور میرا دل بیٹھتا جا رہا تھا۔ میرے ذہن میں کالج دور کی یادوں کی ایک زنجیر سی بن گئی اور گلے میں ایک پھانس سی اٹک گئی تھی۔ میں مظفر آباد گیا تھا، وہاں تو ہر سو موت کے ڈیرے تھے۔

میں بہت دکھی ہوا۔ محلے کے محلے ماچس کی ڈبیوں کی طرح پچکے پڑے تھے۔ وہ شہر ویران تو تھا ہی مگر ایک شخص کے چلے جانے پر بہت ہی ویران لگتا تھا۔ اب تو یہ شہر میرے لئے شہر خموشاں تھا۔ میں ایک ٹینٹ میں رات گزاری کا بندو بست کر رہا تھا کہ ڈاکٹر قربان میر، جو میڈیکل کالج میں مجھ سے دو سال پیچھے تھے اور اب آزاد کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ تھے، نے مجھے اپنے گھر بلوا لیا۔ ڈاکٹر قربان میر بھمبر سے تھے۔ وہ اپنے سرکاری گھر میں گرم چادر اوڑھے اکیلے بیٹھے تھے۔ ان کے گھر کے درو بام پر اداسیوں کے سائے، دیواروں میں بڑی بڑی دراڑیں اور ان کے چہرے پر غم کی پرچھائیاں تھیں۔ اس زلزلے نے ان سے بھی ان کے آٹھ سالہ بیٹے کی جان کا دان وصول کیا تھا جو سکول کی عمارت گرنے سے اس سانحہ کی نذر ہو گیا تھا۔

فقیہ شہر کا لہجہ ہے پر جلال بہت

کالج میں سب سے پہلا پیریڈ درس قرآن کا ہوتا تھا، جس میں غیر حاضری پر پچیس پیسے جرمانہ ہو تا تھا۔ ہم میرپور شہر کے مضافات سے کالج آیا کرتے تھے، لہذا ہمیں صبح ٹرانسپورٹ کا مسئلہ درپیش ہوتا تھا۔ چناں چہ ہم اکثر درس قرآن کے پیریڈ میں دیر سے پہنچا کرتے تھے۔ یہ پیریڈ ایک

پروفیسر صاحب، جو اسلامیات کے استاد تھے لیا کرتے تھے۔ پروفیسر صاحب اسلامیات کے استاد رہے ہوں لیکن درس قرآن کے ساتھ وہ انصاف نہیں کر سکتے تھے۔ یہ صاحب پرنسپل عبد اللطیف انصاری کے دینی اور سیاسی ہم مسلک تھے۔ ان کا زور بیان زیادہ تر مسلکی اختلافات پر ہوتا۔ مجھے مسلکی اختلافات سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ چوں کہ میں کالج پہنچنے تک عربی زبان، قرآن پاک کی تفاسیر بشمول تفسیر ابن کثیر اور کتب احادیث کا مطالعہ کرچکا تھا، مجھے ان کا درس نہایت سطحی سا لگتا تھا۔

مجھے تو جدید علم کی جستجو تھی۔ پروفیسر صاحب کی اپنے دینی اور سیاسی مسلک کے علاوہ دیگر تمام مسالک کی نفی، تردید اور تنقیص مجھے بہت کھلتی تھی۔ وہ آس پاس کے تمام جید علماء کا نام لے کر ان کی تضحیک کیا کرتے تھے۔ وہ لوگ جو ان کے دینی اور سیاسی مسلک سے اتفاق نہیں رکھتے تھے، ان کی مسلمانی ان کی نظر میں مشکوک تھی۔ اس ضمن میں وہ خاصے متعصب اور متشدد واقع ہوئے تھے۔ درس قرآن میں غیر حاضری پر پچیس پیسے کے جرمانے کو اپنے ناپسندیدہ ( غیر مسلکی ) طلباء کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے لگے تھے۔

ایک مرتبہ میں ان کے پیریڈ میں اس وقت داخل ہوا جب میرا رول نمبر، جو شروع شروع میں آتا تھا بولا جا چکا تھا۔ رول کال کے اختتام پر میں نے کھڑے ہو کر اپنے حاضر ہونے سے انہیں آگاہ کیا تو انہوں نے مجھے یہ کہہ کر بٹھا دیا کہ جب تمہارا رول نمبر بولا گیا اس وقت تم کلاس میں موجود نہیں تھے اس لیے غیر حاضر تصور کیے جاؤ گے۔ اسی طرح کی صورتحال دو دن بعد پھر پیدا ہو گئی۔ لیکن اب کی مرتبہ دیر سے آنے والا طالب علم ریاض احمد تھا، جس کا رول نمبر ہی پہلا تھا۔

ریاض احمد، ان کے مسلکی اور سیاسی معیار پر پورا اترتا تھا ( ڈاکٹر ریاض آج کل ”ریاض ہسپتال“ میرپور کے مالک اور انچارج ہیں ) ۔ پروفیسر صاحب رول کال لینا شروع کیا ہی چاہتے تھے کہ ان کی نظر باہر برآمدے میں پڑی۔ انہوں نے ریاض کو آتے دیکھ کر رجسٹر بند کر دیا اور ایک کتاب کی بے مقصد ورق گردانی شروع کر دی۔ جب ریاض کلاس کے اندر آ کر بیٹھ گیا تو انہوں نے حاضری کا رجسٹر کھول لیا۔ اپنے ساتھ امتیازی اور ریاض کے ساتھ ان کا یہ فیاضانہ سلوک دیکھ کر مجھے بجا طور پر قلق ہوا۔

درس قرآن میں پروفیسر صاحب کے ساتھ چھوٹے موٹے دینی مسائل پر اکثر نکتہ آفرینی ہوتی رہتی تھی لیکن اس دن خاصہ دقیق مسئلہ درمیان میں آ پڑا۔ چونکہ میں نے عربی زبان کی صرف و نحو پڑھ رکھی تھی اس لیے قرآن کی عبارت میں پنہاں علم و حکمت کے خزینے سے معمولی سی شناسائی رکھنے اور اس سے متمتع ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی ادبیت کے کمال فن کو بھی سراہ سکتا تھا۔ اس پر مستزاد موصوف کے امتیازی رویے نے مہمیز کا کام کیا تھا۔ چنانچہ میں نے اٹھ کر ایک خاصا ثقیل سوال داغ دیا۔

انہیں اس طرح کے سوال کی توقع نہیں تھی۔ وہ تو صرف مسلکی مسائل پر گرجنا اور برسنا جانتے تھے۔ چنانچہ وہ چار پانچ منٹ تک بولتے رہے لیکن میں ان کے جواب سے مطمئن نہیں ہوا۔ انہیں جب میری جرح و تعدیل سے اندازہ ہوا کہ جو کچھ یہ مجھ سے پوچھ رہا ہے، اس کا تو اسے پہلے سے علم ہے۔ پروفیسر صاحب اچانک غضب ناک ہو کر لال بھبوکا ہو گئے۔ کہنے لگے تم میرا امتحان لینا چاہتے تھے؟ عرض کیا، آپ کا امتحان لینا مقصود نہیں تھا، صرف یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ آپ جو ہر دوسرے تیسرے روز درس قرآن کے بہانے مجھے پچیس پیسے کا جرمانہ کر دیتے ہیں وہ بلاجواز ہی نہیں سراسر ناجائز بھی ہے۔

اس پر وہ اور مغلوب الغضب ہو گئے۔ میرے چچا مرحوم، جو ان دنوں میرپور میں ہائی سکول کے صدر معلم تھے اور ان کے شناسا تھے، کا نام لے کر کہنے لگے میں آج ہی ان سے بات کروں گا کہ آپ کا بھتیجا مجھے کلاس میں ذلیل کرتا ہے۔ میں خفیف سا ہو کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ انہوں نے میرے چچا سے بات تو نہیں کی البتہ اس کے بعد کبھی غیر حاضری لگائی اور نہ ہی مجھ سے بات کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments