فوج سابق فوجی افسروں کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کرائے


ملک میں سابق فوجی افسروں کی ایک غیر رجسٹرڈ تنظیم کی اسلام آباد میں ہونے والی پریس کانفرنس کی بہت دھوم ہے۔ اس پریس کانفرنس میں وطن عزیز کی ’حفاظت‘ کے ذمہ دار رہنے والے ان سپوتوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملک میں جلد انتخابات کروانے کا وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان جاں بازوں نے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

اس پریس کانفرنس کو ان مطالبات یا تنظیم میں شامل لوگوں کی بجائے سب سے زیادہ شہرت اس بنا پر ملی ہے کہ اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب نے ان لوگوں کو کلب کی حدود میں پریس کانفرنس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جس کے بعد انہوں نے پریس کلب کے باہر سڑک پر ’کھلے آسمان تلے‘ پریس کانفرنس منعقد کی اور موجودہ حکومت اور آرمی چیف کا للکارا۔

پریس کانفرنس کی دوسری اہم وجہ سابق فوجی افسروں کی طرف سے بعض صحافیوں کے ساتھ بدکلامی اور دھمکی آمیز طرز عمل بھی تھا۔ مثلاً جیو نیوز سے وابستہ اعزاز سید کو ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب سوال کے جواب میں یہ کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ ’تم اپنے جنازے کی تیاری کرو‘ ۔ نہ جانے یہ ملک کے اس ممتاز صحافی کو قتل کرنے کی دھمکی تھی یا قابل احترام جنرل صاحب محض تبلیغ کے نقطہ نظر سے اعزاز سید کو مشورہ دے رہے تھے کہ سب کی طرح انہیں بھی اپنی موت یاد رکھنی چاہیے۔ موت کا ایک دن معین ہے کی حقیقت سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ تو نہ جانے ایک محترم اور بظاہر معتبر دکھائی دینے والے اس جرنیل کو سیاسی مطالبات پیش کرنے کے لئے منعقد کی گئی ایک پریس کانفرنس میں ایک صحافی کو موت اور جنازہ یاد کروانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ البتہ پریس کانفرنس منعقد کرنے والے شرکا کی گفتگو، لب و لہجہ اور طرز تکلم سے یہ اندازہ تو بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ اس ملک پر کس ذہنی سطح کے لوگ حکمرانی کے حقدار بنے رہے ہیں۔ جو سابق جنرل اعزاز سید کو ان کی موت یاد دلوا رہے تھے، اسی ویڈیو کلپ میں اعزاز سید انہیں یاد دلاتے سنے جا سکتے ہیں کہ مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی امریکی واردات کے وقت وہ سیکریٹری دفاع کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔ اعزاز سید ان سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا وہ اس کوتاہی کا جواب بھی دیں گے۔ ظاہر ہے ایسے سوال کے جواب میں کسی صحافی کو ایوارڈ تو نہیں دیا جا سکتا۔ چونکہ موصوف ابھی صرف سابق جنرل ہونے کے زعم میں مبتلا ہیں، اس لئے وہ صرف دھمکیوں اور گالیوں سے کام چلانے پر مجبور تھے۔ تاہم پوری قوم کو یہ باور کروا گئے کہ ملٹری و سول بیورو کریسی میں کس ذہنی سطح اور علمی استطاعت کے لوگ کام کرتے رہے ہیں۔

ایک صحافی کو دھمکی دینے کے حوالے سے گفتگو تو جملہ معترضہ ہی تھی، لیکن سوشل میڈیا پر اس پریس کانفرنس کی تشہیر کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے ایکٹوسٹ اس وقوعہ کو نئے انتخابات کے ہمہ گیر مطالبہ کے طور پر سامنے لا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی نیشنل پریس کلب کے علاوہ ملکی الیکٹرانک میڈیا پر یہ اعتراض بھی کیا جا رہا ہے کہ ملک کی سلامتی کے ذمہ دار قابل احترام ایکس سروس مین جس وقت ’قومی جذبات کی ترجمانی‘ کرنے والی یہ اہم پریس کانفرنس منعقد کر رہے تھے تو اس وقت ٹیلی ویژن اسکرینوں پر ’ناجائز حکومت‘ کے ترجمانوں کے غیر ضروری بیانات نشر کیے جا رہے تھے۔ اس سانحہ کو اب چونکہ ایک روز بیت چکا ہے اور ملک کے کسی بڑے اخبار نے بھی اس پریس کانفرنس کی خبر شائع کرنے سے گریز کیا ہے۔ اس لئے سوشل میڈیا کے جہادی اب قومی اخبارات کو بھی دشمنوں کی فہرست میں شامل کر کے اپنی دلیل میں وزن اور گالی میں شدت پیدا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

پریس کانفرنس کے انعقاد اور اس کی کوریج کے حوالے سے لڑائی کو معاشرے کے دو گروہوں کے درمیان اصولوں کی جنگ قرار دے کر اگر آگے بڑھا جائے تو پریس کانفرنس کے دوران اٹھائے گئے مطالبات اور کی گئی باتوں پر غور کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ ملک میں نئے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ کرنے کا استحقاق اگر حکومت وقت کو حاصل ہے تو اس ملک کے ہر شہری کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ فوری، جلد یا تاخیر سے انتخابات کروانے کا مطالبہ کرتا رہے اور اپنی حیثیت کے مطابق اس کی تشہیر کرتا رہے۔ یہ حق صرف سابق وزیر اعظم عمران خان کو ہی حاصل نہیں کہ وہی انتخابات کا مطالبہ کریں بلکہ پاک فوج کے سابق عہدیداران بھی یہ مطالبہ کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ وہ بھی اس ملک کے باعزت شہری ہیں اور انہیں بھی ملکی سیاست میں وہی اہمیت و مقام حاصل ہونا چاہیے جو کسی بڑے لیڈر یا اہم پارٹی کو حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ انتخابات یا کسی بھی سیاسی معاملہ پر کوئی مطالبہ کرتے ہوئے بڑے لیڈروں کے علاوہ غیر معروف شہریوں یا سابق فوجیوں کو بعض حدود کا احترام کرنا چاہیے۔ کوئی سیاسی مطالبہ سامنے لاتے ہوئے اسے پاکستانی عوام کی خواہش کہہ کر خود کو ملک کے 22 کروڑ عوام کا لمیٹڈ نمائندہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔

یہ گزارش عمران خان سے بھی کی جاتی ہے جو اس وقت بلاشبہ ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور سابقہ فوجیوں کی اس نام نہاد تنظیم ’ویٹرن آف پاکستان‘ سے بھی یہی عرض کیا جائے گا کہ مطالبہ ضرور کیجئے لیکن دھیان رہے کہ ملک کے بہت سے دوسرے لوگ اور گروہ اس سے مختلف رائے بھی رکھتے ہیں۔ جمہوری روایت کے تحت اگر اپنی رائے کا احترام کروانا ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ کوئی بھی رائے یا مطالبہ حتمی نہیں ہوتا۔ اس کی پرکھ انتخابات میں ہی ہوگی جب عوام ووٹ کے ذریعے فیصلہ کریں گے کہ آئندہ پانچ برس کے لئے کون ان کی نمائندگی کا حق رکھتا ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو عمران خان اور ’سابق جرنیلوں‘ کا فوری انتخابات کا مطالبہ قابل فہم ہے کہ جو پرکھ سال بھر بعد ہونی ہے، وہ اب کیوں نہیں کی جاتی۔ اس کا ایک جواب تو خود عمران خان کے دور حکومت میں اختیار کیے گئے رویہ میں تلاش کیا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن تسلسل سے 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی تھی لیکن عمران خان اس پر کان دھرنے پر آمادہ نہیں تھے کیوں کہ اس وقت انہیں جنرل باجوہ کے ساتھ سرگوشیوں میں باتیں کرنے کی سہولت میسر تھی۔ البتہ عدم اعتماد کے فوری بعد انہیں بھی اچانک یاد آ گیا کہ نئے انتخابات کروانا کس قدر ضروری ہے۔ انتخابات کے حوالے سے دوسری دلیل اتحادی حکومت کے معمار آصف زرداری کی طرف سے پیش کی جاتی ہے کہ انتخابی قوانین و قواعد میں تبدیلی اور ان قانونی و انتظامی الجھنوں کا تدارک کیے بغیر نئے انتخابات کروانا ممکن نہیں ہو گا جن کی وجہ سے دھاندلی کا شبہ ہوتا ہے اور انتخابات شفاف نہیں ہوتے۔

ان دونوں آرا میں سے کسی ایک کے ساتھ اتفاق بھی کیا جا سکتا ہے لیکن ان دونوں کو مسترد کر کے کوئی نئی رائے بھی پیش کی جا سکتی ہے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ البتہ اس بحث میں شریک سب لوگوں کے لئے یہ سمجھنا اہم ہے کہ سیاسی مباحث کسی بند گلی میں نہیں ہوتے۔ اس میں راستے کھلے رکھنے پڑتے ہیں، شدید اختلاف کے ساتھ بھی مخالف رائے رکھنے والوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کرنا پڑتے ہیں اور اپنی بات منوانے کے لئے جنازہ کی تیاری یاد کروانے کی بجائے ٹھوس اور قابل قبول دلیل سامنے لانا پڑتی ہے تاکہ لوگوں تک اس پیغام کا ابلاغ ہو سکے جو کسی احتجاجی جلسے، پریس کانفرنس یا سوشل میڈیا پوسٹ میں سامنے لایا جاتا ہے۔ جو بھی اس اصول کو قبول نہیں کرے گا اور دوسرے کے حق رائے کو اپنی رائے ہی کی طرح قابل احترام نہیں مانے گا، اس کی بات کم از کم جمہوری تناظر میں نہ قبول کی جا سکتی ہے اور نہ ہی قابل فہم ہو سکتی ہے۔

سابق فوجیوں کی پریس کانفرنس میں یہی کمی دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے ایک سیاسی مطالبہ کرتے ہوئے ملک کے آرمی چیف کو مداخلت کرنے کی دعوت دی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے 90 دن کے اندر انتخابات کروانے کا وعدہ کیا تھا، انہیں اپنا یہ وعدہ پورا کرنا چاہیے۔ جنرل باجوہ سے وعدہ وفا کرنے کا یہ مطالبہ کرنے والوں کی بات پر ایک گرہ تو یہ لگائی جا سکتی ہے کہ فوج میں ’90 دن میں انتخابات‘ کروانے کا وعدہ پورا کرنے کی روایت موجود نہیں ہے۔ جو سابقہ فوجی افسران اب جنرل باجوہ کو یہ وعدہ یاد دلا رہے ہیں، ان میں سے بیشتر نے جنرل ضیا الحق کی کمان میں خدمات سرانجام دی ہوں گی۔ انہوں نے بھی نوے دن میں انتخابات کا وعدہ کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کی قانونی حکومت کا تختہ الٹا تھا لیکن گیارہ سال بعد بھی وہ وعدہ تو پورا نہیں کرسکے لیکن ان کا اللہ کے ہاں سے بلاوا آ گیا۔

البتہ اس معاملہ کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ ملک کا کوئی شہری کس قانونی استحقاق کی بنیاد پر فوج سے ایک سیاسی مطالبہ پورا کرنے کی توقع کر سکتا ہے خواہ اس کا اپنا تعلق بھی افواج سے ہی رہا ہو۔ یہ بات بدستور مشکوک ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی شواہد سامنے لائے گئے ہیں کہ جنرل باجوہ نے کب اور کس حیثیت میں تین ماہ کی مدت میں نئے انتخابات کروانے کا وعدہ کیا تھا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے بار بار یاددہانی کروائی جا چکی ہے کہ فوج ملکی سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ وہ اپنے آئینی کردار تک محدود ہے اور سرحدوں کی حفاظت ہی اس کا اولین فریضہ ہے۔ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ آئی ایس پی آر ایک بیان دے رہا ہو اور فوج کے سربراہ اس کے برعکس کام کر رہے ہوں؟ دریں حالات یہی گمان کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ روز کھلے آسمان تلے پریس کانفرنس کرنے والے محبان وطن کو یا تو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے یا وہ آرمی چیف پر جھوٹا بہتان باندھ رہے ہیں۔ تاہم چونکہ اس وعدہ کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی جا رہی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ پاک فوج کے سربراہ اپنی پوزیشن واضح کریں۔

مئی کے آخر میں جی ایچ کیو کے لیفٹیننٹ کرنل برائے جج ایڈووکیٹ جنرل سید ہمایوں افتخار نے سابق وزیر شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان مزاری کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کروائی تھی کہ انہوں نے اپنی والدہ کی گرفتاری پر میڈیا گفتگو میں آرمی چیف کے خلاف دشنام طرازی کی اور انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی۔ ایمان مزاری نے اپنی والدہ کی گرفتاری کا الزام جنرل باجوہ پر عائد کیا تھا جس کی وجہ سے فوج کو یہ قانونی کارروائی کرنا پڑی۔ اب فوج کے ہی بعض سابق افسروں نے جنرل باجوہ پر ایک ایسا الزام عائد کیا ہے جو سچ ہونے کی صورت میں آرمی چیف کے آئین سے وفاداری کے عہد کو مشتبہ بناتا ہے۔ فوج کے سربراہ کی اس سے زیادہ کوئی اور توہین نہیں ہو سکتی۔

اس صورت حال میں یا تو جنرل قمر جاوید باجوہ واضح کریں کہ انہوں نے کیوں اور کن حالات میں ایک خاص مدت میں انتخابات کروانے کا وعدہ کیا تھا۔ یا وہ جی ایچ کیو کے شعبہ قانون کو ہدایت کریں کہ گزشتہ روز پریس کانفرنس میں انہیں بدنام کرنے والے سابق فوجی افسروں کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کروائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments