مشرقی رومی (بازنطینی) سلطنت اور تہذیب: ایک مختصر جائزہ


وسیع و عریض علاقوں پر مشتمل قدیم رومن سلطنت کو 395 عیسوی سے دو حصوں ( مغربی اور مشرقی ) میں تقسیم کیا گیا تھا۔ مغربی حصے کا دارالسلطنت روم تھا جبکہ مشرقی حصہ جو تاریخ میں مشرقی رومی سلطنت یا بازنطینی کے نام سے جانا جاتا ہے، کا دارالسلطنت ”قسطنطنیہ“ تھا۔

قسطنطنیہ ”ابنائے باسفورس کے جزیرہ نما میں واقع قدیم یونانی شہر“ بازنٹائم ( Byzantiumکے سائٹ پر روم کے نامی گرامی شہنشاہ قسطنطین ( Constantine) نے 330 ع میں تعمیر کیا اور اس کے نام پر قسطنطنیہ کہلایا جانے لگا۔

قلعہ نما شہر ہونے کی وجہ سے زمین اور سمندری اطراف سے حملوں کا بہتر دفاع کر سکتا تھا۔ بازنطینی (مشرقی رومی ) سلطنت میں شام، مصر ایشیائے کوچک، ، تھریس (جنوب مشرقی یورپ ) اور یونان کے ممالک شامل تھے۔ مغربی رومی سلطنت کا باضابطہ خاتمہ جرمن قبائل کے حملوں کے باعث 476 عیسوی میں سقوط روم کے ساتھ ہو گیا مگر مشرقی سلطنت محفوظ رہی

اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہ زیادہ مال دار، زیادہ شہری اور زیادہ گنجان آباد تھی لیکن بڑی وجہ یہ تھی کہ جرمن قبائل کے حملوں کا مرکز زیادہ تر مغربی علاقے تھے۔ مشرقی سلطنت پر چند ایک یلغاریں تو کر لیں مگر کامیابی نہ ملی اور ان قبائل کا رخ اٹلی کی طرف موڑ گیا۔

تقسیم کے بعد سے اپنے خاتمے تک اس مشرقی رومی سلطنت کی اپنی ایک اہم تاریخ رہی ہے۔ مختلف نشیب فراز پر مبنی اپنے ایک ہزار سالہ تاریخ کے دوران یہ کئی لحاظ سے زبردست اہمیت کی حامل تہذیب کا گہوارہ رہی ہے۔

مشرقی رومی سلطنت میں جو بازنطینی تہذیب پنپی اس کا مذہب ”عیسائیت“ ، ثقافت ”یونانی“ اور انتظامی ڈھانچہ ”رومن“ تھا۔

ابتدائی قرون وسطی ( 500 تا 1050 عیسوی ) کے دوران بازنطینی تہذیب معاشی اور ثقافتی لحاظ سے لاطینی مغرب ( سقوط روم کے بعد کا مغربی یورپ ) کے مقابلے میں بہت زیادہ ترقی یافتہ تھی۔ یہاں ادب، فلسفہ، سائنس اور قدیم یونان اور رومی قوانین کے علمی مراکز تھے۔ جبکہ دوسری طرف مغرب میں تجارت اور شہری زندگی زوال کا شکار تھی۔ قسطنطنیہ تعلیمی اداروں، لائبریریوں اور بارونق بازاروں کا ایک شاندار شہر تھا۔

رومن چرچ کے ساتھ ٹکراؤ

مشرقی چرچ اور رومن چرچ کے درمیان کئی اختلافات پیدا ہوئے۔ پاپائے روم بازنطینی بادشاہ کے غلبے کی مزاحمت کرتا تھا جبکہ بازنطینی تمام عیسائیوں پر ”پاپائے روم“ کے اتھارٹی کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ دونوں چرچوں کا تنازعہ مذہبی تقریبات، مقدس ایام، امیجز، تصویر کشی اور پادریوں کے حقوق کے سوالوں پر تھا۔ 1054 عیسوی میں ان کے درمیان حتمی علیحدگی ہوئی۔ عیسائی چرچ مغرب کے ”رومن کیتھولک“ اور ”مشرقی آرتھوڈاکس“ چرچوں میں تقسیم ہو گیا۔

بازنطینی بادشاہ مطلق العنان تھے۔ وہ ان تمام علاقوں کے دعویدار تھے جو کبھی رومن سلطنت کا حصہ رہے تھے۔ بازنطینی بادشاہوں میں پہلا بڑا حکمران ”جسٹینین“ Justinian ( 527 تا 565 عیسوی ) تھا جس کی کامیابی میں اس کی بیوی ”تھیوڈورا“ کا بھی بڑا اہم کردار تھا۔ کئی فتوحات کے علاوہ ”جسٹین“ کا ایک بڑا کارنامہ قدیم رومن قوانین کی تدوین ہے۔ اس کے علاوہ اس نے۔ حکومتی انتطام کی تنظیم نو کی یونانی زبان کو قومی زبان قرار دیا۔ اس نے علوم و فنون بالخصوص یونانی علم و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے ماہرین کی سرپرستی کی۔

مجسمہ سازی اور دوسرے فنون کی حوصلہ افزائی کی۔ تعمیرات کے سلسلے میں جسٹینین کا بڑا کارنامہ قسطنطنیہ کا آیا صوفیہ کا شاندار گرجا گھر ہے۔ جو آج بھی ایک شہکار ہے

بیرونی محاذ پر اس نے مغربی بحیرہ روم کے ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جو کبھی متحدہ رومن سلطنت کا حصہ تھے اور جن پر اب جرمن حملہ آور قابض ہو گئے تھے۔ اس کی بازنطینی افواج نے اپنے جرنیل Bilisarius کے زیر کمان (ا) ”ونڈال“ قبائل سے شمالی افریقہ۔ (ب) ”وسی گوتھوں“ سے جنوبی اسپین کے حصے اور (ج) ”آسٹر گوتھوں“ سے جنوبی اٹلی واپس لے لیے۔ اور ”روم“ کے قریب ”راوینا“ (Raveena) کے مقام پر اپنی سلطنت کا مغربی دارالحکومت قائم کیا۔ تاہم ”جسٹینین“ کی یہ مہمات بڑے مہنگے بھی پڑیں۔ ایک تو یہ کہ ان میں وہ پوری کامیابی حاصل نہ کر سکا کیونکہ سابقہ رومن سلطنت کے اہم ممالک برطانیہ، گال ( موجودہ فرانس ) اور جرمنی کو فتح نہ کر سکا۔ دوسرا یہ کہ ان مہمات کے کچھ منفی اثرات بھی پڑے۔ اور اس کے بعد اس کے جانشینوں کو ان کا فوری اور سخت سامنا کرنا پڑا

اس کی موت کے بعد ڈیڑھ صدی کا زمانہ بازنطینی سلطنت کا تاریک دور گردانا جاتا ہے۔ جسٹینین کے بیرونی مہمات کے باعث خزانے پر بوجھ پڑنے کے ساتھ ایک نتیجہ یہ نکلا کی بلقان اور مشرق قریب ( مصر شام و فلسطین ) کے خطے کی دفاع سے غفلت برتی گئی۔

بلقان پر بحیرہ اسود کے خطے کے ”سلاوک ( Slvac) قبائل اور وسطی ایشیا کے“ بلغار ( Balghar) حملہ آور ہوئے۔ شام پر اہل فارس کے ساسانیوں ( ایرانیوں ) نے یلغار کی۔ جبکہ مغربی جانب کے مفتوحہ علاقے بھی محفوظ نہیں رہے۔ 629 ع میں ”وسی گوتھوں“ نے بازنطینیوں کو اسپین سے نکال باہر کیا۔ صدی کے آخر میں شمالی اٹلی میں وارد جرمن ”لومبارڈ“ (Lombard) قبائل نے بیشتر بازنطینی علاقوں کو چھین لیا۔

پھر اگلی صدی ( 7 ویں ) کے اوائل میں ان کو ساسانیوں ( اہل فارس) کا پھر سے سامنا کرنا پڑا جنہوں نے شام، فلسطین اور مصر کے صوبوں پر قبضہ کر لیا۔ تاہم شاہ ہرکولیس (Hercules ) ( 610 تا 641 ) نے ان کا قبضہ چھڑا لیا اور 627 میں نینوا ”کے قدیم تاریخی شہر میں اہل فارس کو شکست دی۔ مگر اس دوران ایک نئی طاقت مقابلے پر آئی یہ عرب مسلمان تھے

جنگوں سے تھکے ہارے بازنطینی جزیرہ عرب سے نکلے تازہ دم عرب مسلمانوں کے مقابلے میں بے دم ہو گئے۔ 642 عیسوی تک عربوں نے ان سے شام، فلسطین اور مصر اور اگلی صدی کے اوائل میں ان سے شمالی افریقہ بھی چھین لیا۔ عرب مسلمانوں نے قسطنطنیہ کا محاصرہ بھی کر لیا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ کیونکہ بازنطینیوں نے گریک فائر نامی ہتھیار سے ان کے بحری جہازوں کو بے اثر کر دیا۔ اگر عرب حملہ آور قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیتے تو وہ جزیرہ بلقان پر سے ہوتے ہوئے ’دریا ڈینیوب“ تک پہنچ کر یورپ کے مرکز تک رسائی حاصل کر پاتے۔ یہاں پر ناکامی کے نتیجے میں عربوں نے یورپ سے باہر فتوحات پر توجہ دی۔

7 ویں صدی تک سلطنت کے اس تاریک دور میں شہنشاہ کا اقتدار محض قسطنطنیہ اور اس کے مضافات اور مشرقی بحیرہ روم کی چند بندرگاہوں تک محدود ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ مقامات پر اس کا کنٹرول بہت کمزور پڑ گیا تھا۔

8 ویں صدی کے آغاز میں حالات سلطنت کے لیے بے حد ناخوشگوار تھے۔ تاہم اسی دوران شہنشاہ لیو سوم ( 717 تا 741 ) کے برسراقتدار آنے سے حالات سنبھلنے لگے اس نے اپنے دور حکمرانی میں نظم و ضبط بحال کیا عربوں کو کئی معرکوں میں شکست دی۔ اور ان کے محاصرہ قسطنطنیہ ( 718 ) کو ناکام کر دیا۔ اس کے ساتھ اپنے مختلف اصطلاحات سے سلطنت کا انتظام بہتر کر لیا۔

یوں سلطنت اپنے ڈیڑھ سو سالہ تاریک دور سے نکل آئی۔ اور اس کے بعد اگلے ڈیڑھ سو سال تک کا دور کئی حوالوں سے کافی شاندار تھا۔ اسی عرصے ( 9 ویں صدی کے اخیر سے اوائل 11 ویں صدی تک ) میں بازنطینی بحری افواج اس پوزیشن میں ہو گئیں تھیں کہ عرب مسلمانوں کے خلاف جارحانہ کارروائیاں کرنی لگیں

اسی دور میں باصیل دوم ( 976 تا 1025 عیسوی ) جو بہت متحرک شہنشاہ تھا، نے بلغاریوں کو اتنی بے دردی سے کچل دیا کہ اس کو بلغاریوں کا قاتل کہا جانے لگا۔

باصل نے عرب مسلمانوں کے خلاف بھی کارروائی کی تاہم یہاں وہ زیادہ کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ اور ان سے مصر، شام۔ فلسطین اور شمالی افریقہ نہ چھڑا سکا۔

باصل دوم نے سلطنت کو کافی استحکام اور ترقی دی۔ جزیرہ نما بلقان اور جنوبی اٹلی پر سلطنت کا کنٹرول بحال کرنے کے بعد وہاں کے شہریوں کو کافی مقامی آزادی اور مراعات دیے۔ جنوبی روس کے ”کیو“ کے طاقتور حکمران کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے جس نے 989 ع میں باصل کی کوششوں سے عیسائی مذہب اختیار کیا۔ اپنے حکمران کے تتبع میں ”کیو“ کے اردگرد روسیوں نے بھی عیسائیت قبول کی اور بعض بازنطینی روایات اپنا لیے۔

باصل دوم نے صنعت اور تجارت کو اتنی ترقی دی کہ مرتے وقت زبردست شاہی خزانہ چھوڑا۔ مگر اس کے بعد 11 ویں صدی کے اخیر میں سلطنت کے ذرائع اور عملی سرگرمیاں محدود ہونے لگیں۔ اور یوں سلطنت کا پھر سے مشکلات کا دور شروع ہوا۔

صوبوں میں اشرافیہ طبقے کی بڑھتی ہوئی طاقت اور زمینوں پر چرچ کا مسلسل قبضے اور ریاستی ٹیکس سے استثنی کے علاوہ بیرونی محاذ پر نئے دشمن ابھر آئے۔

1۔ مغرب میں ”وینس“ نے اڈراٹیک Adriatic sea خطے پر کنٹرول حاصل کر لیا
2۔ مشرق میں وسطی ایشیا کے سلجوق ترکوں نے، جو مسلمان ہو گئے تھے، ایشیا کوچک میں 1071 میں مانزیکیرٹManzikert کی جنگ میں بازنطینوں کو شکست سے دوچار کر دیا۔ اور بیشتر جزیرے پر قبضہ کر لیا۔ مگر سلجوقیوں کے اندرونی اختلافات کے باعث ان کی سلطنت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی اور یوں سلجوق مزید پیش قدمی نہ کر سکے

3۔ اسی صدی میں سلطنت کو ایک بڑا خطرہ اٹلی کے نارمنوں ( Normans) کا درپیش ہوا۔ جنہوں نے جنوبی اٹلی میں سلطنت کے علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور 1080 میں جنوبی اٹلی اور سلسلی میں بازنطینی اقتدار کو تہہ و بالا کر دیا۔ یوں سلطنت کے مغربی حصے میں اس کی ساکھ گر گئی۔ تاہم انتشار کے اس دور میں ”الیکزس کمنیوس“ ( Alexius Comnenus) نامی ایک قابل جرنیل نے 1081 ع میں اقتدار پر قبضہ کر کے نظم و ضبط اور شاہی ساکھ کو کافی حد تک بحال کر دیا

اس کے بعد اس کے جانشین اگلے 125 سال تک نہ صرف ترکوں کی جارحیت روکنے میں کامیاب رہے بلکہ 12 ویں صدی میں ”سربیا“ اور ”بلغاریہ“ بھی بازنطینی کنٹرول میں ا گئے اور سلطنت تجارتی ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ لیکن اگلی صدی ( 13 ویں ) کے آغاز ( 1204 ) میں شدید دھچکا ملا۔

سلجوقیوں نے 11 ویں صدی کے اخیر میں سلطنت کے بیشتر ایشیائی صوبوں پر قبضہ کر لیا تھا مگر ان کے اندرونی اختلافات کے باعث ان کی سلجوق سلطنت توڑ پھوڑ کا شکار ہو گئی اور یہ کئی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گئی

سلجوقیوں کی نا اتفاقی اور کمزوری سے فائدہ اٹھانے اور کھوئے ہوئے علاقوں کے حصول کے لیے بازنطینوں نے 11 ویں صدی کے اخیر میں لاطینی عیسائیوں سے مدد طلب کر لی۔ مغربی عیسائیوں کو بازنطینیوں سے ہمدردی کم جبکہ مسلمانوں سے مقدس مقامات واپس لینے کی خواہش زیادہ تھی۔ اسی مقصد کے تحت انہوں نے 11 ویں صدی کے اخیر سے صلیبی جنگوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ( پہلی صلیبی جنگ 1097 میں یروشلم، جو اس وقت فاطمی حکمرانوں کے زیر حکومت تھا، پر قبضہ کر لیا جس کو 1186 میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بازیاب کرا لیا )

1204 میں چوتھی صلیبی جنگ کے دوران لاطینی عیسائی امراء اور تاجروں نے مسلمانوں کے بجائے قسطنطنیہ پر قبضے کی ٹھان لی۔ اس پر حملہ کر کے شہر کو خوب لوٹا۔ مقدس کتابوں کو برباد کیا۔ چرچوں پر یلغار کر کے وہاں سے بھاری مقدار میں سونا، جواہرات، عیسائی نوادرات اور آرٹ کے فن پارے لوٹ کر مغربی یورپ لے گئے۔ اس کے ساتھ انہوں نے قسطنطنیہ کی تجارتی شاہراہوں کے ساتھ جزیروں پر قبضہ کر کے بازنطین کی سرزمین پر متعدد ریاستیں قائم کر لیں۔

اور ان پر بزور لاطینی عیسائیت مسلط کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ آرتھوڈاکس یونانیوں نے جوابی مزاحمت کی اور یوں تقریباً 60 سال تک لاطینی اور یونانی عیسائی باہم لڑتے رہے۔ بالآخر 1261 میں بازنطینیوں نے مغربیوں کو قسطنطنیہ سے نکالنے میں کامیابی حاصل کر لی۔ بازنطینی سلطنت نے اگرچہ اپنی آزادی تو حاصل کر لی مگر اس کی طاقت بہت گھٹ کے رہ گئی۔ بھاری ٹیکسوں، گرتی زرعی پیداوار اور تجارت اور خانہ جنگیوں نے ڈگمگاتی سلطنت کو ہلانا جاری رکھا۔

سلطنت کو آخری فیصلہ کن دھکا وسطی ایشیا کے عثمانی ترکوں نے دیا۔ ان عثمانی سلطنت کے ترکوں نے بازنطینوں کو ایشیا کوچک سے نکالا اور بیشتر بلقان کو فتح کیا۔ 14 ویں صدی عیسوی کے آغاز میں بازنطینی سلطنت یونان کے صرف دو چھوٹے علاقوں اور قسطنطنیہ شہر پر مشتمل رہ گئی تھی۔ 1453 عیسوی میں عثمانی ترکوں نے قسطنطنیہ کو فتح کر کے بازنطینی سلطنت کے ایک ہزار سالہ دور کا خاتمہ کر دیا۔

بازنطین کے اثرات۔ اپنے ایک ہزار سالہ دور میں بازنطینی سلطنت نے دنیا کی تاریخ پر کئی اہم اثرات ڈالے ہیں۔ انہوں نے عرب مسلمانوں کی مشرقی یورپ کی جانب پیش قدمی کو روکا۔ یورپی نقطہ نظر سے یہ ایک اہم اقدام تھا

اسی سلطنت کا سب سے بڑا کارنامہ قیصر جسٹینین کی زیر نگرانی قدیم رومن قوانین کی تدوین ہے اس منفرد کارنامے سے عقل اور انصاف جیسے اصولوں پر مبنی رومی قانون کو محفوظ کر لیا گیا۔ آج کے بیشتر یورپ اور لاطینی امریکہ کے قانونی ضابطوں کی بنیادیں جسٹین کے ماہرین کی تدوین کردہ رومن قانون ہیں۔

بازنطینوں نے قدیم یونانی فلسفہ، سائنس، میتھیس اور ادب کو بھی محفوظ کیا۔ مشرق میں اسلامی دنیا اور مغرب میں لاطینی عیسائیت۔ سے رابطوں کے باعث علوم و فنون کو فروغ دیا۔

بازنطینوں نے ایک ایسے وقت میں مغربی تہذیب کی شمع کو بجھنے سے بچائے رکھا جب جرمنی اور سلاوک بربری قبائل نے بیشتر یورپ کو تلپٹ کر دیا تھا۔ بازنطین نے لاطینی رومانیوں، مشرقی سلاوک ( روسی اور یوکرینی ) اور جنوبی سلاوک ( سرب اور بلغاری ) پر گہرے مذہبی، ثقافتی اور لسانی اثرات ڈالے۔

سلاوک نے بازنطین ہی سے اپنے قانون کے اصول آرٹ کے نمونے اور تحریری زبان کے لیے حروف تہجی حاصل کیے ۔ جبکہ دوسری طرف مغربی سلاوک ( پولینڈ، زک اور سلواکیہ ) لاطینی عیسائیت اور کلچر کے زیر اثر آ گئے۔ بازنطینوں نے مختلف شعبوں بالخصوص تعمیرات اور فوج اور دفاع سے متعلق کئی اہم ایجادات کیے

مختصر یہ کہ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے تک قائم رہنی والی بازنطینی سلطنت فوجی، سیاسی، معاشی مذہبی۔ علمی اور ثقافتی لحاظ سے تاریخ کی ایک اہم سلطنت رہی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments