دعائے زہرا کیس: ہماری عدلیہ کو بالغ ہونے کی ضرورت ہے!


خوف، وحشت، تاسف، حیرانی، اور سراسیمگی کے بہت واضح تاثرات دعائے زہرا کی آنکھوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ جیسے ہرنی جنگل میں شکاریوں کے درمیان گھر جائے اور ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ لیکن عقل اور آنکھوں پہ پردے پڑے ہوں تو بس سیاہ رنگ ہی نظر آتا ہے۔ یہاں بصارت سب کے پاس ہے لیکن بصیرت سے عاری ذہن اور نگاہیں رکھتے ہیں۔ کیونکہ ہم ایک بے حس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں لڑکی ہونا جرم ہے۔ اس پدر سری معاشرے میں جہاں صنف نازک کے لیے آج بھی دستور زباں بندی ہے اور گھر سے لے کر باہر تک ”چپ رہو“ کے بھاشن دیے جاتے ہیں۔ مہدی علی کاظمی کا اپنی بیٹی کے حق کے لیے آواز اٹھانا، اس کی بازیابی تحفظ اور کے لیے سیسہ پلائی کی دیوار بن کے حوصلہ مندی کے ساتھ اس مادر زاد منافق معاشرے میں عزت و حرمت کی بقا کی جنگ لڑنا یقیناً بارش کا ایسا قطرہ ہے جو اس قحط الرجال میں آنے والی فصل اور نسل کے مستقبل کی بقا کا تعین کرے گا۔

بچی کے ایک ایک انداز سے جھلکتا ہے کہ وہ مشینی انداز میں رٹے رٹائے جملے بول رہی ہے۔ جس طرح اس کو گھیر کر لایا جاتا ہے ایسے میں تو بڑے بڑوں کا اعتماد جواب دے جائے۔ بچی اتنے دنوں کس حال میں رہی، اس پر کیا بیتی، کچھ معلوم نہیں۔ سوشل میڈیا والے اپنی دکانیں چمکا رہے ہیں روزانہ چٹپٹی ویڈیوز اپلوڈ ہو رہی ہیں اور ان پر رنگ برنگی جملے بازیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ بہت کم یوٹیوبرز ہیں جو سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ اور حقائق پیش کر رہے ہیں۔ میڈیا کو ریٹنگ سے فرصت نہیں۔ مسلکی اور لسانی چورن منجن بیچنے والوں کو بھی ایک نیا موضوع ہاتھ آ گیا ہے۔ رہی سہی کسر دعائے زہرا کی عدالت میں پیشی، بیان اور میڈیکل رپورٹ نے پوری کردی۔ انصاف اور عدلیہ پر فاتحہ خوانی کرلینا ہی بہتر ہے۔

ماں باپ تو دور کی بات ہے برین واش کر دینے کے بعد تو انسان خود اپنی جان کی پروا کیے بغیر خود کش بمبار بن جاتا ہے۔ جس طرح جنت اور حوروں کے سبز باغ دکھا کر نوجوان بچوں کو دہشت گردی کے لیے چارہ بنایا جاسکتا ہے بالکل اسی طرح برین واش کی تکنیک ہیومن ٹریفکنگ کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔

میڈیکل بورڈ کا تشکیل نہ دیے جانا اس بات کی علامت ہے کہ میڈیکل کے نام پر خانہ پری کی گئی ہے ورنہ اصولی طور پر تو میڈیکل کے ساتھ بچی کا سائیکولوجیکل معائنہ بہت ضروری تھا۔

ضروری تو بچی کا والدین سے آزاد ماحول میں ملنا بھی تھا کہ وہ بغیر کسی دباؤ کے اپنے دل کی بات کر سکتی لیکن ایسا ناممکن بنا دیا گیا۔ اس جبر کے پیچھے کس کا ماسٹر مائنڈ کام کر رہا ہے۔ سامنے آنا بہت ضروری ہے۔ اگر مہدی علی کاظمی کو انصاف نہ۔ ملا تو ہم سب کو اپنی اپنی دعائے زہرا کی خیر منانی چاہیے۔

میں اس ماں کے کرب کو، تکلیف کو محسوس کر سکتی ہوں۔ والدین اولاد کی موت پر تو صبر کرلیتے ہیں لیکن زندگی میں اولاد کا چھن جانا، بچھڑ جانا، برین واش ہوجانا باغی ہوجانا موت سے بدتر ہے۔ اور بچہ اگر دباؤ میں ہو تو وہ کبھی سچ نہیں بول سکتا۔ جب تک خوف کا حصار نہ ٹوٹے اور اس کو اپنی سلامتی کا یقین نہ ہو۔

دعائے زہرا کے والدین کی ہمت، کشادہ دلی، ظرف، بیٹی پر اعتماد اور یقین دیکھ کر ان کو سلام کرتی ہوں۔ جس معاشرے میں ظلم پنپتا رہے، ظالم دندناتے رہے اور مظلوم کی سنوائی نہ ہو۔ وہ معاشرے مردہ معاشرے ہیں۔ اور ایسا ہی لگتا ہے ہم قبرستان میں رہ رہے ہیں۔

خدارا آواز اٹھائیے احتجاج کیجیے یہ پیٹرول مہنگا ہونے سے بڑا مسئلہ ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دست ظلم و جبر ہمارے اور آپ کے گریبان تک آ پہنچے۔

دعائے زہرا تو گھر سے غائب یا اغوا ہو کہ ایک ایسا کیس بن گئی جو سب پر عیاں ہے۔ لیکن برین واشنگ کا زہر کہیں سوشل میڈیا کی صورت میں، کہیں ویڈیو گیمز کی صورت میں، کہیں ٹی وی ڈراموں، فلموں کی صورت میں، فیشن کی صورت میں، کہیں نشے کی صورت میں، کہیں سیاست کی صورت میں، کہیں نظام تعلیم کی تبدیلیوں کی صورت میں، کہیں مسجد منبر کی صورت میں اور کہیں رشتوں کے انتقام کی صورت میں انفرادی اور اجتماعی ہماری نئی نسل کو جس طرح تباہ برباد کر رہا ہے اس کا عشر عشیر بھی کسی ذی روح کو اندازہ نہیں ہے۔ ہوش جب آتا ہے جب پانی سر سے گزر جاتا ہے۔ اپنے بچوں کو خود سے قریب کیجیے ان کی سرگرمیوں پر خاموش نگاہ رکھیں۔ ان کی دوستوں اور دوستوں سے باخبر رہیں۔ گھر میں کام کرنے والی ماسیوں، نوکروں سے بھی محتاط اور خبر دار رہیں کون کہاں کھیل جائے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

دعائے زہرا کی زندگی، سلامتی اور بقا کے لیے ضروری ہے کہ اس کو آزاد ماحول میں والدین سے ملنے دیا جائے۔ نہ صرف ملنے دیا جائے بلکہ حوالے کیا جائے۔ جو اعتماد، یقین اور تحفظ اسے والدین کے پاس ملے گا وہ کہیں نہیں۔ اگر اسے تحفظ دینے کے بجائے ان درندوں کے پاس چھوڑ دیا گیا تو وہ رل جائے گی۔ اور خدانخواستہ نتیجہ اس کی اچانک موت، خودکشی یا نفسیاتی مرض کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ اگر اس سے غلطی بھی ہوئی ہے تب بھی وہ بچی ہے اور بچہ اگر آگ سے کھیلنا چاہے تو اسے آگ سے کھیلنے نہیں دیا جاسکتا۔ ہماری عدلیہ کو بالغ ہونے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments